محمد شہباز عالم مصباحی
سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی
کوچ بہار، مغربی بنگال
__________________
وقف املاک پر حکومت کا نیا حملہ:
مودی حکومت نے پارلیمنٹ میں وقف ایکٹ میں ترمیمی بل پیش کرنے کا منصوبہ بنایا ہے، جس سے مسلم برادری میں گہری تشویش پیدا ہو گئی ہے۔ اس ترمیمی بل کی منظوری کے بعد ملک بھر میں مساجد، مدارس، درگاہوں، اور دیگر دینی و فلاحی اداروں کی قانونی حیثیت پر سوالیہ نشان لگ جائے گا۔ وقف املاک کے ذریعے چلنے والے یہ ادارے مشکلات کا شکار ہو جائیں گے اور ان کی خودمختاری ختم ہو جائے گی۔
مسلم تنظیموں کی تشویش اور تنقید:
مسلم ماہرینِ قانون اور تنظیموں نے اس فیصلے پر سخت تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ترمیمات وقف املاک کی خودمختاری کو متاثر کریں گی اور ان کی آزادی میں رکاوٹ بنیں گی۔ وقف املاک مسلمانوں کے فلاحی کاموں اور مذہبی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ حکومت کی مداخلت ان کے انتظامی معاملات کو متاثر کر سکتی ہے، جس سے مسلم برادری کے حقوق کو نقصان پہنچے گا۔
مسلمانوں کے لیے ایک اور امتحان:
مسلمانوں پر مسلسل حملوں کے بعد، اب مودی حکومت اور آر ایس ایس نے مسلمانوں کی املاک پر قبضہ کرنے کی کوشش شروع کر دی ہے۔ انہوں نے دیکھ لیا ہے کہ مسلمان اپنے تحفظ میں ناکام ہیں اور ہندوتوا کی نفرت انگیزی اور ماب لنچنگ کے عادی ہو چکے ہیں۔ اب وہ مسلمانوں کے خلاف اپنا سب سے بڑا منصوبہ لے کر آئے ہیں، جس میں وقف املاک پر قبضہ کرنا شامل ہے۔
قائدین کا کردار: عمل یا مذمت؟
میرا سوال یہ ہے کہ ہم کیا کریں گے؟ کیا ہم ماضی کی طرح ظالمانہ قوانین اور عدالتی فیصلوں پر مذمتی بیانات دے کر خاموش ہو جائیں گے؟ یا وقف املاک اور مسلمانوں کے حقوق کو بچانے کے لیے عملی اقدامات کریں گے؟ وقت کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں اور ایک مؤثر حکمت عملی کے تحت آگے بڑھیں۔
وقف املاک کا تحفظ: قوم کی ذمہ داری:
ہمارے علماء نے ہمیشہ یہ بات واضح کی ہے کہ وقف املاک اللہ کی ملکیت ہیں، اس لیے ان کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے۔ وقف املاک ہمارے آبا و اجداد نے ہمارے لیے چھوڑی ہیں تاکہ مسلمان ان کے ذریعے اپنے دینی، تعلیمی اور فلاحی امور انجام دے سکیں۔ اگر یہ املاک ہم سے چھن گئیں تو ہماری دینی اور سماجی شناخت کو بڑا نقصان پہنچے گا۔
حکومت کے عزائم اور مسلمانوں کا ردعمل:
مودی حکومت اور آر ایس ایس جانتے ہیں کہ جب تک مسلمانوں کے ہاتھوں سے وقف املاک کے اختیارات ختم نہیں کیے جائیں گے، وہ ایک امتیازی شناخت کے ساتھ بھارت میں موجود رہیں گے۔ ہندوتوا تنظیموں کو ہمیشہ سے یہ بات کھٹکتی رہی ہے کہ وقف کے نام پر مسلمانوں کے پاس اتنی زیادہ اراضی اور جائیدادیں کیوں ہیں۔
ملک گیر احتجاج: وقت کی ضرورت:
مسلم قائدین کو اس ظالمانہ اقدام کے خلاف غیر معینہ مدت کے لیے احتجاج شروع کرنا ہوگا۔ سڑکوں پر آنا ہوگا اور پولیس کے ظلم اور سرکاری کارروائی کی پرواہ کیے بغیر احتجاج جاری رکھنا ہوگا۔ جب سڑکیں آباد ہوں گی تو پارلیمنٹ سمیت انصاف کے ادارے بھی آپ کو سنجیدگی سے لیں گے۔
مستقبل کا لائحہ عمل:
وقف املاک کو ہر قیمت پر ہندوؤں کے قبضے میں جانے سے بچانا ہوگا۔ اس کے لیے ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا ہوگا اور عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ احتجاج ہی واحد راستہ ہے جس کے ذریعے ہم اپنے حقوق کی حفاظت کر سکتے ہیں۔ ہمیں حکومت پر دباؤ ڈالنا ہوگا کہ وہ اس فیصلے پر نظرثانی کرے اور مسلم برادری کی مشاورت کے بعد ہی کوئی قدم اٹھائے۔