ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز حیدرآباد
فون:9395381226
___________________
27/جولائی 2024ء کو حیدرآباد میں شاہی امام پنجاب مولانا محمد عثمان لدھیانوی کا حساس اور سلگتے موضوعات پر خطاب تھا۔ کنگس پیالیس مہدی پٹنم میں مرد و خواتین کی کثیر تعداد کو دیکھ کر جہاں خوشی ہوئی وہاں حیرت بھی ہوئی کہ کسی بھی اخبار میں پروگرام سے متعلق ایک سطر بھی خبر شائع نہیں ہوئی۔ اس کے باوجود اتنی کثیر تعداد میں لوگ شریک تھے۔ اور یہ سب سوشیل میڈیا پلیٹ فارمس کا کرشمہ تھا۔ اس پروگرام کے بعد اس بات کا مجھ جیسے صحافی کو جس نے 40سال سے زائد عرصہ دشت صحافت میں گزار دیا‘ یقین ہوگیا کہ اخبارات یا پرنٹ میڈیا آہستہ آہستہ بے اثر ہوتا جارہا ہے۔ اور اس کے لئے خود اخبارات سے وابستہ عناصر ہی ذمہ دار ہیں۔ اگر اخبارات میں اس پروگرام سے متعلق خبر چھپ جاتی تو کم از کم اس بات کی تسلی ہوتی کہ اخبارات میں پڑھ کر لوگوں نے شرکت کی۔ اخبارات میں خبر کیوں نہیں چھپی یہ سوال کس سے کریں؟ یہ جواب مل سکتا ہے کہ جلسہ کے منتظمین نے کوئی خبر نہیں بھیجی۔ کیا یہ جواب اطمینان بخش ہے؟ ایک بیرون ریاست کی اہم شخصیت آپ کے شہر میں مہمان ہے‘ جو حیدرآباد کو اخلاق و اخلاص اور مروت کا شہر سمجھتی ہے‘ جس کے پاس حیدرآباد کے اخبارات کا ایک اچھا امیج ہے۔ اُسے نظرانداز کیا جانا شاید ٹھیک نہیں تھا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ جلسہ کے بعد بھی کوئی خبر نظر نہیں آئی۔ حالانکہ ہمارے اخبارات کے قا بل رپورٹرس محدود وسائل کے باوجود کسی نہ کسی ذرائع سے بالخصوص سوشیل میڈیا سے خبریں لے کر اپنے اخبارات کو دوسری زبان کے اخبارات کے ساتھ مسابقتی دوڑ میں شامل کرتے ہیں۔ جب سے صحافیوں کو سہولتیں ملیں‘ جیسے موبائلس جس پر ساری دنیا سے پل پل کی خبر، تصاویر اور ویڈیوز مل جاتی ہیں‘ تب سے اسپاٹ رپورٹنگ کی روایت ختم ہوگئی ٹیبل نیوز کا کلچر عام ہوا جس کی وجہ سے اخبارات کی اہمیت کم ہوتی جارہی ہے۔ پریس کانفرنس ہو یا اہم تقاریب وہاں بھی رپورٹرس خاص طور پر ہماری زبان کے اخبارات کے رپورٹرس بہت کم نظر آتے ہیں۔ پریس ریلیز اور وہ بھی Inpage یا یونی کوڈ میں مل جائے تو دوچار بار پیروی کے بعد خبریں چھپ جاتی ہیں۔ بعض اخبارات کے رپورٹرس یا اس کے ذمہ داروں کے رویے سے بیزار اور بدظن افراد اور اداروں نے اخبارات کی بجائے سوشیل میڈیاکے نمائندوں کو اہمیت دینی شروع کی ہے۔ اس طرح اگر ہم یہ کہیں کہ سوشیل میڈیا کی اہمیت بڑھتی جارہی ہے‘ تو اس کے ذمہ دار پرنٹ میڈیا والے ہی ہیں۔
ایک اڈورٹائزنگ اور پبلک ریلیشنس ایجنسی کے ذمہ دار کی حیثیت سے گزشتہ چند برس سے جن آزمائشی اور مشاہداتی مراحل سے ہم گزر رہے ہیں‘ اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور ہیں کہ اخبارات کے ذمہ داروں کو کسی قدر لاپرواہی کی وجہ سے سوشیل میڈیا تیزی سے عوام میں مقبول ہوتا جارہا ہے۔ ایک دور تھا کسی فرد یا ادارہ کو اپنی تشہیر کے لئے اخبارات کی مدد لینی پڑتی تھی‘ مگر اب سوشیل میڈیا پلیٹ فارمس ان کی اولین ترجیح ہے۔ اب افراد اور اداروں کو اس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ اخبارات میں ان کی خبر اور تصویر چھپتی ہے یا نہیں۔ کیوں کہ فیس بک اور یوٹیوب پر وہ بڑی آسانی سے اپنی خواہش یا ضرورت کی تکمیل کرنے لگے ہیں۔ نوجوان نسل 8سال سے 60سال کی عمر تک کے لوگ واٹس اَیپ، فیس بک، یوٹیوب، انسٹاگرام پر اپنا وقت گزار رہے ہیں۔ اخبارات کی اشاعت اور ان کے ریوینیو پر کافی فرق پڑا ہے۔ بعض اخبارات نے اپنے ویب سائٹس کے ساتھ ساتھ اپنے اپنے ٹی وی چیانلس شروع کرتے ہوئے یا تو وقت کی رفتار سے خود کو ہم قدم رکھا ہے‘ یا پھر اپنی شکست تسلیم کرلی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ 50سال سے زائد عمر کے لوگوں کی یہ اولین ترجیح اب بھی اخبار ہیں‘ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سوشیل میڈیا کے مقابلے میں پرنٹ میڈیا قابل اعتبار ہے۔ ٹیوٹر جس کا نیا نام ”X“ ہے اس کے مالک ایلن مسک نے یہ اعتراف کیا ہے کہ ٹیوٹر کے 5% سے زیادہ اکاؤنٹس فرضی (Fake) ہیں۔ ایک آزاد ایجنسی Bot Sentinel کے سروے کے مطابق ٹیوٹر کے 10-15 فیصد اکاؤنٹس فرضی ہیں۔ MIT کے سروے کے مطابق سوشیل میڈیا پر سچ سے زیادہ جھوٹ تیزی سے پھیلتا ہے اور 70% جھوٹی خبریں بار بار شیئر کی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ C-Voter کے 2020 کے سروے کے مطابق پرنٹ میڈیا پر اب بھی عوام کا بھروسہ ہے۔ رائٹرس انسٹی ٹیوٹ اور اسٹیڈی آف جرنلزم نے شہری ممالک کے سروے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ پرنٹ میڈیا سوشیل میڈیا کے مقابلہ میں زیادہ قابل اعتبار ہے‘ اس کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ 94.7 فیصد عوام نے میسیجس اور چیاٹنگ کے اَیپس کا اور 94.4فیصد صارفین نے سوشیل میڈیا پلیٹ فارم کا 2024ء کے ابتدائی 6ماہ تک استعمال کیا ہے۔ سوشیل میڈیا کی تاریخ 20سال قدیم ہے۔ 2004ء میں My Space نے سب سے پہلے قدم رکھا‘ اور ایک مہینہ میں اس کے صارفین کی تعداد ایک ملین تک پہنچ گئی۔ اور اب سوشیل میڈیا پلیٹ فارمس کی سونامی آئی ہوئی ہے۔ فیس بک کے 2.96 بلین، یوٹیوب 2.51بلین، انسٹاگرام 2بلین، ٹک ٹاک 1.05بلین، ٹیلیگرام 700ملین، اسناپ چیاٹ 635ملین، ٹیوٹبر (X) 556ملین، Pinterest 445ملین صارفین کے حامل ہیں اور ان کے مالکین دنیا کے امیر ترین افراد میں شمار کئے جاتے ہیں۔
یوٹیوب اور ٹک ٹاک کے انفلونسرس آج کے دور کے اسٹارس ہیں‘ جن کے چاہنے والوں کی تعداد لاکھوں نہیں کروڑوں میں بھی ہے۔
اظہار خیال، تصاویر، گلوبل نیٹ ورکنگ، بزنس مارکیٹنگ، برانڈنگ کے لئے سوشیل میڈیا پلیٹ فارمس کو سب سے بہتر تسلیم کیا جاچکا ہے۔ پلک جھپکتے آپ کا پیغام تصویر ساری دنیا میں پہنچ جاتی ہے اور اس پر لائکس، شیئرس، کامنٹس کی تعداد دیکھ دیکھ کر صارفین مسرور ہوتے ہیں‘ یہی نہیں بلکہ ویوز اور لائکس کی بنیاد پر صارفین کو اچھا خاصا معاوضہ ملتا ہے۔ یوٹیوبرس جنہیں سوشیل میڈیا انفلونسر کہا جاتا ہے وہ اپنی مقبولیت کا معاوضہ حاصل کررہے ہیں۔ حالیہ عرصہ کے دوران ٹک ٹاک اور ریلس نے غیر معمولی مقبولیت حاصل کی۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں باقاعدہ اس میں اپنا کیریئر تلاش کررہے ہیں۔ مقبولیت ویوز اور لائکس کے چکر میں کئی یوٹیوبرس اور انفلونسرس نے اپنی جان جوکھم میں ڈالی اور گنوائی بھی۔
بہرحال! سوشیل میڈیا جو انٹرنیٹ کی دین ہے‘ جو یقینی طور پر انفارمیشن ٹکنالوجی اور سوشیل نیٹ ورکنگ کا ایک انقلاب ہے۔ بہت تیزی سے اپنا مقام بناتے جارہا ہے۔ اگرچہ کہ ویوز، لائکس اور فالوورس بھی اکثر و بیشتر Fake ہوتے ہیں‘ باقاعدہ رقم دے کر اپنی مرضی کے مطابق ان میں اضافہ کرکے مارکٹ میں اپنے بزنس کو فروغ دیا جاتا ہے۔ اس کیلئے وائرل مارکٹ کا طریقہ بھی اختیار کیا جاتا ہے۔ اخبارات میں چھپا ہوا لفظ پتھر کی لکیر کی طرح ہوتا ہے‘ جو صدیوں تک محفوظ رہتا ہے۔ سوشیل میڈیا یا ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر آپ جب چاہیں اپنا میسج، تصویر، جھوٹی خبر کو ڈیلیٹ کرسکتے ہیں۔ بہارِ عرب سلسلہ کی پہلی کڑی یمن میں توکل کرمان کے ٹوئیٹر پر کیا گیا میسیج تھا جس نے لاکھوں افراد کو حکومت کے خلاف بغاوت کے لئے آمادہ کیا اور اس بغاوت نے یمن میں انقلاب لایا۔ حکومت کا تختہ الٹا۔ توکل کرمان کو نوبل انعام سے نوازا گیا۔
آج دنیا کے ہر ملک میں سوشیل میڈیا کی بدولت کوئی تحریک کامیاب نہیں ہوسکتی۔ صدارتی انتخاب ہو یا بلدیہ کے چناؤ‘ عوامی ذہن سازی میں اس کا بڑا اہم رول ہے۔ دنیا کا ہر سیاست دان سوشیل میڈیا سے جڑا ہوا ہے۔ عوام کی سوشیل میڈیا کی بدولت ان تک راست رسائی ممکن ہے۔ کئی مسائل کی یکسوئی سوشیل میڈیا کی بدولت ہورہی ہے تو شکایتوں کا ازالہ بھی ہورہا ہے۔ اخبارات اپنی پسند ناپسند اور پالیسی کی وجہ سے بہت ساری جائز شکایت کو نظرانداز کرتے ہیں۔ افراد اور اداروں کو یا تو آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیتے ہیں یا پھر زمین بوس کردیتے ہیں۔ جس سے ان کی غیر جانبداری ہمیشہ سوالیہ نشان رہی۔ سوشیل میڈیا میں ایسا کچھ نہیں جن سے آپ اپنے دل کی بھڑاس نکال سکتے ہیں۔
سوشیل میڈیا کی بدولت دنیا واقعی ایک گاؤں بن گئی۔ سات پردوں میں چھپ کر کئے جانے والے جرائم بھی کسی نہ کسی طرح سے منظر عام پر لگادیتے ہیں۔ ایک طرف یہ نفرت، دشمنی، ظلم کے خلاف گلوبل نٹ ورک کے طور پر ساری دنیا کو متحد کرسکتا ہے وہیں اسی پلیٹ فارمس کو نفرت اور دشمنی پھیلائی جاتی ہے۔ جھوٹی خبریں، فرضی تصاویر اور ویڈیوز کو عام کرکے فسادا ت کروائے جاتے ہیں۔ وہیں حکومت پولیس اور فوج کی زیادتیوں کے خلاف عوامی اتحاد کی کوششیں کی جاتی ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ بعض ریاستوں میں جب کبھی کوئی شورش کا اندیشہ ہوتا ہے وہاں انٹرنیٹ سرویس مسدود کردی جاتی ہے تاکہ کرفیو زدہ علاقوں میں عوام کا ایک دوسرے سے رابطہ باقی نہ رہے۔ کشمیر، منی پور میں اس کا تجربہ کیا جاچکا ہے۔ جس کی وجہ سے یہ علاقے اپنے ہی ملک میں دوسرے علاقوں سے الگ تھلک ہوکر رہ گئے تھے۔آج وہی ادارے اور تنظیمیں زیادہ طاقتور ہیں‘ جن کے آئی ٹی سیل یا سوشیل میڈیا ہینڈلرس زیادہ متحرک ہیں۔ روش کمار اور راٹھی جیسی شخصیات نے سوشیل میڈیا یا یوٹیوب کے ذریعہ حالیہ الیکشن میں نیا رول ادا کیا ہے۔
سوشیل میڈیا پلیٹ فارمس سے جتنے فائدے ہیں‘ اس سے کہیں زیادہ نقصانات بھی ہیں۔ دھوکہ دہی کے واقعات آئے دن پیش آتے ہیں۔ بدکاری اور عیاشی کو فروغ مل رہا ہے۔ اس کے لئے باقاعدہ سائٹس ہیں۔ فرضی تصاویر ویڈیو دکھاکر دھوکہ باز عوام سے فنڈز اکٹھا کررہے ہیں۔
بہرحال! یہ دور سوشیل میڈیا کا ہے اور پرنٹ میڈیا کو اپنے معتبر ہونے کے باوجود اپنی بقاء کے جدوجہد کرنی ہے۔ اب بھی اگر وہ اپنی غلطیوں کا جائزہ لیں، محاسبہ کریں تو بچا کچا وقار باقی رہ سکتا ہے ورنہ لاپرواہی، غفلت اور جانبداری کی یہی سزا مل سکتی ہے کہ آنے والے چند برسوں میں پرنٹ میڈیا کے ادارے تاریخ کا گمشدہ باب بن کر رہ جائیں گے۔