ڈاکٹر محمد اعظم ندوی
_______________
"یہ طلباء نہیں دہشت گرد ہیں، ہم انہیں کچل کر رکھ دیں گے”، 76 سالہ شیخ حسینہ واجد کا یہ رعونت بھرا جملہ خود ان کوخس وخاشاک کی طرح بہا لے گیا، اور بالآخر ان کو اپنی کرسی چھوڑنی پڑی، وہ غم و غصہ سے بھرے ہوئے عوام کے فلک شگاف نعروں کے درمیان اپنے سارے خوابوں کو دفنا کر فرار ہونے میں کامیاب ہوئیں، بنگلہ دیشی عوام نے ان کی تقریباً دو دہائیوں کومحیط حکمرانی کو لوہے اور آگ کا راج قرار دیا، بنگلہ دیش کی اس ڈکٹیٹر خاتون کا دور اقتدار اپنے آخری لمحات میں ایک عجیب وغریب موڑ پر پہنچ گیا، جہاں ہر طرف شعلے بھڑک رہے تھے، اور قریب تھا کہ یہ ضدی عورت اس کا ایندھن بن جائے، طلباء اور نوجوانوں کے مظاہرے ایسے مرحلہ میں پہنچ چکے تھے جہاں سے اب وہ خود بھی چاہتے تو واپس نہیں آسکتے تھے، حسینہ کا مقابلہ مظاہرین اپنے برہنہ سینوں سے کررہے تھے، ان کے عزم بلند کے سامنے تمام تر حفاظتی دستے ناکام تھے، آگ بگولہ عوام کے بھڑکتے ہوئے غصہ کے سامنے پولس اور فوج کا قہر دم توڑ گیا، اوراپنی عمر عزیز بلکہ حیات رائیگاں کی76 بہاروں سے لطف اندوز ہوچکی شیخ حسینہ کے اقتدارکی فولادی دیواریں پاش پاش ہوگئیں، سچ ہے:
اولو العزمان دانش مند جب کرنے پہ آتے ہیں
سمندر پاٹتے ہیں، کوہ سے دریا بہاتے ہیں
حسینہ کا اقتدار 1996 سے اب تک پانچ مرتبہ کی حکمرانی پرمشتمل تھا، آج حسینہ کے ظالمانہ اور سفاکانہ دورِ حکومت کاخاتمہ ہوگیا، اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کا انداز آمرانہauthoritarian ہوچکا تھا، پھر یوں ہوا کہ اسلام پسندوں کوناحق تختہ دار پر لٹکانے والی ڈکٹیٹر کا بخت بگڑا اور تخت کھسک گیا، جب کہ ابھی سات ماہ بھی نہیں ہوئے جب انہوں نے اپنی چوتھی مسلسل اور مجموعی طور پر پانچویں میعاد کا جشن منایا تھا، یہ جشن جنوری میں ہونے والے انتخابات کے بعد منایا گیا تھا، جس میں حسینہ نے بغیر کسی حقیقی مخالف کے خود سے ہی مقابلہ کیا اور جیت حاصل کی تھی، تاہم ان کی حکومت کا آخری مہینہ مختلف تھا؛ کیوں کہ طلباء کے زیر قیادت عوامی ناراضگی اور سول نافرمانی ان کی حکومت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی، ان کی حکومت غصہ سے بھرے احتجاجیوں کے قدموں تلے جھول رہی تھی، ایک ماہ پانچ دن سے جاری خاک وخون میں لت پت ان مظاہروں اور احتجاجات کے نتیجہ میں بنگالی فوج نے اعلان کیا کہ شیخ حسینہ نے وزارت عظمی کے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا ہے، یہ دراصل ایک فوجی بغاوت کا مہذب اظہار تھا، شیخ حسینہ نے اس کا تلخ ذائقہ پہلی بار تب چکھا تھا جب وہ بیس سال کی جوان رعنا تھیں، اوران کے والد شیخ مجیب الرحمن کو قتل کر دیا گیا تھا، یہ واقعہ پاکستان سے علاحدگی اور بنگلہ دیش کے اولین صدر کی حیثیت سے ان کے تقرر کے بعد پیش آیا تھا، اس وقت شیخ مجیب الرحمن نے لاکھوں افراد کو پاکستان کے ساتھ تعاون اور جنگی جرائم کے الزامات میں عدالتوں میں پیش کیا تھا۔
نوجوان حسینہ اس ہلاکت خیزی سے بچ گئی تھیں جس نے ان کے خاندان کے بے شمار افراد کو ان سے چھین لیاتھا؛ کیوں کہ وہ اور ان کی بہن ریحانہ ایک یورپی ملک کے دورہ پر تھیں، بعد میں انہوں نے ایک مضبوط سیاسی اور عوامی تحریک کا راستہ اختیار کیا، جس نے وقت کے ساتھ انہیں ان کے والد مجیب الرحمن کی قائم کردہ عوامی لیگ پارٹی کی صدارت تک پہنچا دیا، وقت کے ساتھ، وہ خالدہ ضیاء کے بعد بنگلہ دیش کی دوسری خاتون حکمراںبن گئیں، حسینہ اور خالدہ دونوں پر بدعنوانی اور تشدد کے الزامات تھے، اور دونوں کا تعلق حکمراں خاندان سے تھا، حسینہ اپنے والد بنگ بندھو(بابائے بنگلہ دیش) کے نقش قدم پر چل رہی تھیں، جب کہ خالدہ 1981 میں ایک فوجی بغاوت میں قتل ہونے والےاپنے شوہر جنرل ضیاء الرحمن کے نقش قدم پر تھیں، خالدہ ضیاء نے بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی صدارت سنبھالی اور ایک سیاسی سفر کا آغاز کیا، جس میں مقدمے اور نظر بندیاں شامل تھیں، اس سفر کا اختتام 1991 میں وزیر اعظم بننے اور 1996 میں مستعفی ہونے پر ہوا، ان کا سیاسی سفر بدعنوانی کے الزام میں قید وبند کے لامتناہی سلسلوں اور مختلف پیچیدہ بیماریوں پر ختم ہوا، اس کے باوجود حسینہ نے انہیں 2023 سے اپنے ناکارہ جگر کی پیوندکاری کے لیے ملک چھوڑنے کی اجازت نہیں دی۔
بھارت نے محترمہ حسینہ کو سلامتی کی ضمانت دی، اور انہوں نے فوجی طیارہ میں سوار ہو کر ایک بھارتی ہوائی اڈہ پر لینڈ کیا، جس طرح جغرافیائی طور پر بھارت تقریباً ہر سمت سے اپنے پڑوسی بنگلہ دیش کو گھیرے ہوئے ہے، اسی طرح حسینہ کے خاندان کے ساتھ بھارت کے سیاسی تعلقات بھی تاریخی اور بہت خاص ہیں، یہ تعلقات بنگلہ دیش کے قیام کے وقت سے ہیں، جب بھارت نے اسے مضبوط حمایت فراہم کی اور مجیب الرحمن کو اقتدار سنبھالنے اور پاکستان کے خلاف پہلے سیکولر نظام کی بنیاد رکھنے میں مدد دی، اور آج تک بھارت حسینہ کی تمام تر ظالمانہ کاروائیوں میں ان کی پیٹھ تھپتھپاتا رہا تھا، حسینہ اپنے نئے مستقر بھارت میں ہیں،لیکن انہوںنے اپنے پیچھےایک ایسا ملک چھوڑا ہے جو ان کی پالیسیوں کی وجہ سے شعلہ زن تھا، تازہ مظاہروں میں 500 سے زائد مظاہرین اور متعدد پولیس اہل کاروں کی موت کے بعد کامیابی ملی، یکم جولائی کو شروع ہونے والے یہ احتجاجات ، 3 اگست کو ایک نئے مرحلہ میں داخل ہوگئے جب طلباء نےسول نافرمانی کا اعلان کیا، آتش زنی اور توڑ پھوڑ arson and vandalism کا بازار گرم ہوگیا، شیخ مجیب کے مجسمہ پر ہتھوڑے برسائے گئے اور اس کو منہدم کردیا گیا، یہ ملک گیر احتجاج ایک عوامی بغاوت میں تبدیل ہوگیا اور حسینہ کو طلباء کی سب سے بڑی مخالف adversary قرار دیا گیا،اوربھارتی شکل وشباہت والی سیاہ وسفید بالوں کی مالک ایک بوڑھی حسینہ کو اقتدار سے بے دخل کرنے کا مطالبہ تیزتر ہوگیا، تا آں کہ حسینہ کو ان کو کرسی سے اتار پھینکا گیا، عوام وزیر اعظم کی سرکاری رہائش گاہ میں داخل ہوگئے اور مال غنیمت کی طرح وہاں کا ایک ایک سامان اٹھائے کچھ رکشوں سے کچھ پیدل خراماں خراماں اپنے گھروں کو روانہ ہوئے، یہ ایک جشن کا سماں تھا،دنیا بھر میں لوگوں نے بنگلہ دیش کے قومی ترانہ”امر شونار بنگلہ، آمی تومائے بھالو باشی” (میرا سونے جیسا بنگال، میں تم سے پیار کرتا ہوں) کو از سر نو سنا، اور "دیش تمہار باپر ناکے” (ملک تمہارے باپ کا نہیں) جیسی انقلابی نظموں سے لطف اندوز ہوئے،کہیں کہیں فیض احمد فیض کی نظم "ہم دیکھیں گے” کی گونج سی اے اے این آر سی مخالف احتجاجات کی یاد دلاکر دل میں ایک ہوک جگا گئی۔
یہ منظرنامہ ملک کے معاشی اور سیاسی اتار چڑھاؤ کی عکاسی کرتا ہے، خاص طور پر جب بے روزگاری 18 ملین نوجوانوں سے تجاوز کر گئی، حسینہ کی مقبولیت، جو گزشتہ برسوں میں ان کی اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے آسمان چھورہی تھی، دھڑام سے گر گئی، 17کروڑ سے متجاوزآبادی والے اس ملک کی ایک طاقتور حکومت کو جہاں کی جی ڈی پی کی شرح نمو 7 فیصد تک بڑھ گئی تھی، شیخ مجیب الرحمن کا قائم کردہ 30 فیصد کوٹہ کاجائرانہ نظام لے ڈوبا، اس نظام کا مقصد پاکستان سے علاحدگی کی جنگ میں لڑنے والے مجاہدین کے خاندانوں کو سرکاری ملازمتوں میں نمایاں حصہ دینا تھا، مظاہرین کا کہنا ہے کہ 56 فیصد سرکاری ملازمتیں اس نظام کے تحت مختلف زمروں میں تقسیم ہوتی ہیں، جن میں 30 فیصد جنگِ آزادی کے مجاہدین کے خاندانوں، 10 فیصد خواتین، 10 فیصد پسماندہ علاقوں کے افراد، 5 فیصد مقامی آبادی اور 1 فیصد معذور افراد کے لیے مختص ہیں، ان کا ماننا ہے کہ یہ نظام ان گروہوں کے بچوں کو فائدہ پہنچاتا ہے جو وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حمایت کرتے ہیں، اور اس سے بڑے پیمانہ پر اہلیت رکھنے والے طلباء کی حق تلفی ہوتی ہے۔
شیخ حسینہ واجد حکومت کے آخری سالوں میں حکومت مخالف آوازوں کو دبانے کے لیے زور بازو کی حکمت عملی strong-arm tactics استعمال کی گئی، فوج اور پولیس کوکھلی چھوٹ دی گئی تھی، اور عدلیہ کو موت، عمر قید، اور طویل المیعاد قیدوبند کی سزائیں سنانے کی بے لگام اتھارٹی حاصل ہوگئی تھی، چنانچہ ابھی بڑی تعداد میں قیدی اپنی زندگیاں جیل کی تاریکیوں میں گزار رہے ہیں، حالیہ احتجاجات کی وجہ سے گرفتار شدگان کی تعداد تقریباً 10 ہزار تک پہنچ چکی ہے، اور مظاہرین کی ہلاکتوں میں بے انتہااضافہ ہوا ہے، یونیسف کے مطابق، ان میں سے تقریباً 36 بچے بھی شامل ہیں جو یا تو مظاہروں میں یا اپنے گھروں میں گولیوں کا نشانہ بنے، ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اعداد و شمار کے مطابق، بنگلہ دیش میں 2013 میں ایک ہزار سے زائد افراد کو سزائے موت دی گئی،جب کہ 2023 تک، سزائے موت کا انتظار کرنے والوں کی تعداد 2400 سے تجاوز کر چکی تھی، جنہیں پھانسی یا گولیوں کا سامنا تھا، صحافیوں اور بلاگرز کو بھی سخت سزاؤں کا سامنا کرنا پڑا، جن کی آرا یا تحریریں حکومت کی تنقید پر مبنی تھیں، خاص طور پر، بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے قائدین کو شیخ حسینہ کے دورِ حکومت میں بڑے پیمانہ پر سزائے موت کا سامنا کرنا پڑا، جن میں کچھ نمایاں نام درج ذیل ہیں:
عبد القادر ملا: ایک اہم سیاسی رہنما اور جماعت اسلامی کے پہلے قائد تھے جن کو پاکستان سے علاحدگی کی جنگ کے دوران قتل کے جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات کے تحت سزائے موت دی گئی، عبد القادر ملا کو 12 دسمبر 2013 کو دار الحکومت ڈھاکہ کے مرکزی جیل میں پھانسی دی گئی، فروری 2013 میں ان پر سزائے موت کا حکم صادر کیا گیاتھا۔
علی احسان محمد مجاہد: سابق وزیر اور جماعت اسلامی کے جنرل سکریٹری، جن کو 21 نومبر 2015 کو ہندو دانشوروں کوسزا دینے اور ان کو قتل کرنے کے الزامات میں پھانسی دی گئی، اسی دن بنگلہ دیش نیشنل پارٹی سے رکن پارلیمان صلاح الدین قادر چودھری کوبھی پھانسی دی گئی۔
محمد قمر الزماں: جماعت اسلامی کے ایک اور رہنما، جن کو 11 اپریل 2015 کو دار الحکومت ڈھاکہ کے مرکزی جیل میں پھانسی دی گئی، ان پر پاکستان سے علاحدگی کی جنگ میں شرکت اور درجنوں افراد کی ہلاکت کا الزام تھا۔
مطيع الرحمن نظامی: اس بزرگ رہنما کو 10 مئی 2016 کو پھانسی دی گئی، ان پر 1971 کی جنگِ آزادی کے دوران نسل کشی اور پاکستانی فوج کے ساتھ تعاون کے الزامات تھے، مقامی اور بین الاقوامی اپیلوں کے باوجود حکومت نے ان کی پھانسی کے فیصلہ پر عمل درآمد کیا۔
میر قاسم علی: انہیں بھی 1971 کی جنگِ آزادی کے دوران جنگی جرائم، بشمول آزادی کے متوالوں کے قتل اوراور ان کو سزادینے کے الزامات کے تحت مجرم قرار دیا گیا، میر قاسم علی کو 3 ستمبر 2016 کو دارالحکومت ڈھاکہ کے قریب ایک اعلیٰ سطحی سیکیورٹی والی جیل میں پھانسی دی گئی۔
غلام اعظم: جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے امیر، جنہیں 1971 کی جنگِ آزادی کے دوران جنگی جرائم کے الزامات کے تحت سزا دی گئی، غلام اعظم 23 اکتوبر 2014 کو، 89 سال کی عمر میں اپنے قید خانہ میں انتقال کر گئے، انہیں 90 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی، جس میں سے انہوں نے دو سال جیل میں گزارے۔
ابو الکلام محمد یوسف: بنگلہ دیش کے سب سے بڑے علماء میں سے ایک، جنہیں "ممتاز المحدثین” کا لقب حاصل تھا، یہ اس ملک میں حدیث کی خدمات کے لیے سب سے بڑا لقب ہے، وہ جماعت اسلامی کے سابق جنرل سکریٹری اور مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کے رفیق تھے، 9 فروری 2014 کو، وہ جیل میں متعدد بیماریوں کی شدت کے باعث وفات پا گئے۔
ان بڑے ناموں کے علاوہ، حسینہ کے دورِ حکومت میں کئی دیگراسلام پسند دانشوروں، نوجوانوں، اور کارکنوں کو بھی پھانسیاں دی گئیں، جن لوگوں کو پھانسی دی گئی، ان کی جائیدادیں بھی ضبط کر لی گئیں، حسینہ، خالدہ ضیاء کے بعد، بنگالی عوام کے ماضی کا حصہ بن گئیں، ہر آمر کے لیے اس میں ایک عبرت ہے اور یہ پیغام کہ:
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا