محمد قمر الزماں ندوی
_________________
موجودہ بھاجپا حکومت اور اس کی نظریاتی تنظیم آر ایس ایس کی کھلی پالیسی یہ ہے کہ اس ملک کو ہندؤ راشٹر بنایا جائے اور یہاں ایک زبان ایک تہذیب اور ایک کلچر کا فروغ ہو، اس کے لیے وہ ہمیشہ یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی کوشش کرتی ہے۔اس کی پالیسیوں اور اقدامات کا محور یہی کچھ ہے ،نیز ان کا نظریہ ہندؤ قوم پرستی اور مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کو ثانوی درجہ کا شہری بنانا اور انہیں بے حیثیت کرنا ہے ۔
نت نئے دن کوئی فرمان اور آڈر آرہا ہے ،جن میں سے ایک مسلمانوں کی وقف املاک کے حوالے سے کئی اقدامات اور قوانین ہیں ،جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان کے اوقافی جائیداد کے تئیں موجودہ حکومت کا رویہ صحیح نہیں ہے ۔
ذیل کی تحریر میں ہم اوقاف کی ضروت،اہمیت، شرعی حیثیت اور مسلم اوقاف کے بارے میں موجودہ حکومت کا رویہ کے حوالے سے گفتگو کریں گے ۔۔
وقف کی تعریف
کسی چیز کو اپنی ملکیت سے نکال کر اللہ کی ملکیت میں دے دینا ،اور اس کی منفعت کو ہمیشہ کے لیے رضاء الٰہی کی نیت سے اشخاص و افراد (خواہ وہ غنی ہوں یا محتاج) اداروں یا مساجد و مقابر یا دیگر کار خیر کے لیے مخصوص کردینا یہ وقف ہے ۔۔( مجموعئہ قوانین اسلامی ص، 463)
وقف کی اصطلاحات
وقف کرنے والے کو واقف کہا جاتا ہے ۔ جن کے لیے وقف کیا جائے خواہ مساجد ہوں یا مقابر مدارس ہوں یا ادارے یا انجمن یا افراد ،انہیں موقوف علیہ کہتے ہیں ۔ جس تحریر کے ذریعہ وقف کیا جائے اور اس کی تفصیلات کا علم ہو ،اسے وقف نامہ کہتے ہیں ۔ جو زمین و جائیداد یا کوئی شئی بہ طور وقف استعمال ہوتی ہو اسے وقف علی الاستعمال یا وقف بالاستعمال کہا جاتا ہے خواہ اس سے متعلق تحریری وقف نامہ موجود نہ ہو ۔
جو شخص مقاصد وقف کو بروئے کار لانے اور واقف کی ہدایت پر عمل کرنے کے لیے مقرر کیا جائے اسے متولی کہا جاتا ہے ۔(مجموعئہ قوانین اسلامی ص،464)
وقف کے شرائط
وقف کے صحیح ہونے کے لیے متعدد شرطیں ہیں ۔ جن میں سے چند یہ ہیں ۔
واقف کا عاقل ،بالغ اور شئی موقوفہ کا مالک ہونا ۔
جس کام کے لیے وقف کیا جائے ،اس کا فی نفسہ اور واقف کے اعتقاد میں بھی کار ثواب ہونا۔
وقف کا فی الفور ہونا اور کسی امر پر مشروط نہ ہونا ۔
وقف کا دائمی ہونا ۔
شئی موقوفہ کا معین و معلوم ہونا ۔ ان سب کی بھی تفصیلات ہیں ،طوالت کی وجہ سے انہیں ذکر نہیں کر رہے ہیں ۔۔۔
اوقات کی اہمیت و ضرورت
سماج و معاشرہ میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں ،جن کو مختلف طرح کی ضرورتیں پیش آتی رہتی ہیں ۔ان ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ایمان والوں میں ایسے جذبات پرورش پانے چاہیں ، جو نہ صرف یہ کہ انسانی سماج پر خیر و رحمت کی بارش کریں ،بلکہ انسانوں کے علاوہ ،حیوان اور چرند و پرند بھی فیض یاب ہوسکیں ۔اس لیے ضروری ہے کہ انسانی نفس میں سخاوت اور انفاق کے اچھے جذبات پیدا ہوں اور بخل تنگ دلی جیسے شیطانی وسوسوں کا گزر نہ ہو اس لیے کہ شیطان فقر و مسکنت کا خوف دلا کر انفاق فی سبیل اللہ سے روکنے کی کوشش کرتا ہے ۔
اسلام چاہتا ہے کہ ہر انسان خیر نیکی اور بھلائی کا کام کرے ،اس کے لیے خیر کے دروازے تمام لوگوں کے لیے کھلے ہوئے ہیں ، چاہے خیر کا یہ کام گاؤں یا محلے کے بسنے والے کے لیے ہو یا خاندان کے لیے یا تمام انسانی برادری کے لیے ۔اگر چہ ان کا مذہب، ان کی زبان ، انسانوں کا ملک اور ان کی قومیت ایک دوسرے سے مختلف ہوں ۔ کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،، اللہ کے نزدیک محبوب وہ ہے جو اس کے عیال یعنی مخلوق کے لیے زیادہ نفع بخش ہو۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے لئے اعلیٰ مثال قائم کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود باغ (اور بہت سی چیزیں) وقف فرمایا جس کے بارے میں کسی فوجی نے وصیت کی تھی کہ اس کا اختیار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں، جس طرح چاہیں تصرف کریں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نے انہیں فقراء و مساکین ضرورت مند غازی اور دوسرے محتاجوں کے لیے وقف فرما دیا ۔
اسی طرح بڑے بڑے صحابہ کرام خلفاء راشدین وغیرہم نے اپنی جائیدادیں وقف کیں ۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے جس شخص کو میں جانتا ہوں ،اس نے اپنی جائیداد کا کوئی نہ کوئی حصہ اللہ کے راستہ میں دیا تھا ،جسے نہ خریدا جاسکتا ہے نہ ہبہ کیا جاسکتا ہے نہ وراثت میں منتقل ہوسکتی ہے ۔
صحابہ کرام کے بعد نسلا بعد نسل مسلمانوں نے وقف کا سلسلہ جاری رکھا ،وہ اراضی ،باغات ،مکانات اور غلہ کی پیدا وار رفاہ عام کے کاموں کے لیے وقف کرتے رہے ۔ خاص طور پر مساجد و مدارس اور قبرستان کے لیے ۔ ہندوستان میں بھی جب سے اسلام کی اشاعت ہوئی اور یہاں مسلمان آباد ہوئے ،انہوں نے بھی رفاہ عام کے لیے وقف کا سلسلہ جاری رکھا ، کیونکہ عام انسانی ضروریات کی تکمیل کی کوشش ،اس کے لیے اوقاف قائم کرنا اور کرانا اس کی دیکھ بھال حفاظت اور اس کو ترقی دینا ہر دور کی بڑی دینی ضرورت ہے ۔اور یہ خود عبادت ہے ۔۔(مستفاد خطبات جمعہ/ ص، 822)
آج ہندوستان میں اربوں کی جائیداد ہیں جو مسلمانوں کی اوقاف کی جائیداد ہیں ۔۔۔۔ جس کی حفاظت حکومت اور مسلمان دونوں کی ذمے داری ہے ۔
جناب حبیب فاروق صاحب نے اپنے مضمون میں ہندستان میں مسلمانوں کی وقف جائیداد کا تعارف، تفصیلات ،خطرات و اندیشے نیز حکمت عملی کے سلسلہ کافی کچھ لکھا ہے ، ہم مضمون نگار کے شکریہ کے ساتھ اسے یہاں شامل کرتے ہیں تاکہ قارئین اس سے استفادہ کرسکیں ۔
وقف املاک: تاریخی پس منظر
وقف املاک ایسی جائدادیں ہوتی ہیں جنہیں مسلمان افراد یا ادارے مذہبی، فلاحی، تعلیمی یا دیگر مقاصد کے لئے وقف کرتے ہیں۔ ان املاک کا مقصد معاشرے کی خدمت اور مسلمانوں کی فلاح و بہبود ہوتا ہے۔ بھارت میں وقف املاک کا انتظام وقف بورڈز کے تحت ہوتا ہے جن کی نگرانی حکومت کرتی ہے۔
بی جے پی حکومت اور وقف املاک
بی جے پی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے وقف املاک کے حوالے سے کئی قوانین اور اقدامات سامنے آئے ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے خدشات کو جنم دیا ہے۔ ان اقدامات میں سب سے زیادہ متنازعہ وقف پراپرٹیز (ایولیوشن اینڈ کنٹرول) ایکٹ میں ترامیم ہیں، جو حکومت کو وقف املاک کے انتظام اور کنٹرول کا زیادہ اختیار دیتی ہیں۔
آر ایس ایس اور بی جے پی کی نظریاتی پس منظر
آر ایس ایس ایک ہندو قوم پرست تنظیم ہے جس کا مقصد بھارت کو ایک ہندو راشٹر (ہندو قوم) بنانا ہے۔ اس نظریہ کے تحت وہ مسلمانوں اور دیگر اقلیتی گروہوں کو دوسرے درجے کے شہری تصور کرتے ہیں۔ بی جے پی، جو آر ایس ایس کی سیاسی شاخ ہے، اس نظریہ کو اپنی پالیسیوں میں شامل کرتی ہے اور مختلف اقدامات کے ذریعے مسلمانوں کے حقوق اور مفادات کو نقصان پہنچاتی ہے۔
مسلمانوں کے لئے تجاویز
1. قانونی چارہ جوئی: مسلمانوں کو وقف املاک کے حقوق کے تحفظ کے لئے قانونی چارہ جوئی کرنی چاہئے۔ عدالتوں میں اپنے حقوق کا دفاع کرتے ہوئے انہیں قانونی نکات اور آئینی حقوق کا استعمال کرنا چاہئے۔
2. *اجتماعی اتحاد:* مسلمانوں کو اپنے اندر اتحاد پیدا کرنا چاہئے اور مختلف تنظیموں اور اداروں کے ذریعے مشترکہ طور پر اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے کوششیں کرنی چاہئیں۔
3. سیاسی شرکت: مسلمانوں کو سیاسی میدان میں زیادہ متحرک ہونا چاہئے اور ایسے امیدواروں اور پارٹیوں کی حمایت کرنی چاہئے جو ان کے حقوق اور مفادات کی حفاظت کریں۔
4. آگاہی مہمات: مسلمانوں کو وقف املاک کے حوالے سے عوامی آگاہی مہمات چلانی چاہئے تاکہ عوام کو اس مسئلے کی اہمیت کا اندازہ ہو اور وہ اس کے حل کے لئے متحرک ہوں۔
ہندوستان میں وقف املاک کی تعداد اور ان کی مجموعی قیمت کا اندازہ لگانا ایک چیلنجنگ کام ہے کیونکہ یہ معلومات مختلف ریاستوں میں مختلف انداز میں ریکارڈ کی جاتی ہیں اور بہت ساری وقف املاک کا صحیح ریکارڈ نہیں ہے۔ تاہم، کچھ عمومی معلومات دستیاب ہیں:
وقف املاک کا تخمینہ
ہندوستان میں وقف املاک کی تعداد تقریباً 4 لاکھ سے زائد ہے۔ یہ املاک مختلف ریاستوں میں پھیلی ہوئی ہیں اور مختلف مقاصد کے لئے وقف کی گئی ہیں، جن میں مساجد، مدارس، قبرستان، اسپتال، اور دیگر فلاحی ادارے شامل ہیں۔
رقبہ
ان وقف املاک کا مجموعی رقبہ تقریباً 6 لاکھ ایکڑ سے زائد ہے۔
وقف املاک کی قیمت
وقف املاک کی مجموعی قیمت کا درست اندازہ لگانا مشکل ہے کیونکہ یہ املاک مختلف علاقوں میں مختلف قیمتوں کی ہوتی ہیں اور مارکیٹ کی قیمتیں وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں۔ تاہم، اندازے کے مطابق ان املاک کی مجموعی قیمت اربوں ڈالرز میں ہو سکتی ہے۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ وقف املاک کی مجموعی قیمت تقریباً 1.2 سے 1.5 لاکھ کروڑ بھارتی روپے تک ہو سکتی ہے۔
حکومتی اقدامات
مودی سرکار اور مختلف ریاستی حکومتیں وقف املاک کے انتظام اور کنٹرول کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات کر رہی ہیں، مگر ان اقدامات کو مسلمانوں کی جانب سے تشویش کی نظر سے دیکھا جاتا ہے کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ یہ اقدامات وقف املاک کی حکومت کے قبضے میں جانے کا باعث بن سکتے ہیں۔
نتیجہ
ہندوستان میں وقف املاک کی تعداد اور قیمت کا درست اندازہ لگانا مشکل ہے، مگر یہ واضح ہے کہ ان املاک کی مجموعی تعداد اور قیمت بہت زیادہ ہے۔ مسلمانوں کو ان املاک کے حقوق کے تحفظ کے لئے منظم اور مشترکہ کوششیں کرنی چاہئے تاکہ ان کے فلاحی اور مذہبی مقاصد کے لئے استعمال ہو سکیں۔
مودی سرکار اور بی جے پی حکومت کی پالیسیاں اور اقدامات مسلمانوں کی وقف املاک کے حوالے سے شدید تشویش کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ آر ایس ایس اور بی جے پی کی نظریاتی پس منظر کو مدنظر رکھتے ہوئے، مسلمانوں کو اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے منظم اور مشترکہ کوششیں کرنی چاہئے۔ قانونی چارہ جوئی، اجتماعی اتحاد، سیاسی شرکت، اور آگاہی مہمات کے ذریعے مسلمان اپنے حقوق اور املاک کی حفاظت کر سکتے ہیں۔