۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

ہندوستان میں وقف  بورڈ

مرتب: مفتی منظور ضیائی

چیئرمین : علم و ہنر فاؤنڈیشن ممبئی

____________________

"وقف” اسلامی قانون کا ایک اہم حصہ اور مسلمانوں کی ملی زندگی کا ایک روشن باب ہے , ہر دور میں اس کارِخیر اور فلاحی پروگرام کو رواج دیا گیا ہے۔

وقف کی لغوی و اصطلاحی تعریف :

لغوی تعریف :(الوقف عربی زبان کا لفظ ہے اور یہ مصدر ہے ،وقف کی جمع اوقاف اور وقوف مادہ وقف ہے)وقف سے مراد کوئی بھی شیٔ جس کو وقف کیا گیا ہو۔یعنی موقوف اور وقف کرنے والے کو واقف کہا جاتا ہے ۔
اہل لغت نے اس کو دو افعال سے مشتق بتلایا ہے، ایک’’ اوقف یوقف ایقافا” جو شاذ لغت ہے۔ دوسرا’’ وقف یقف وقفا‘‘ سے ہے ۔
عربی لغت کے اندر "وقف” کے مندرجہ ذیل متعدد معانی ہیں:

  • 1 – الحبس یعنی کسی چیز کو روکنا، قید کرنا ۔
  • 2 -المنع: منع کرنا
  • 3- التسبیل: یعنی اللہ کے راستہ میں خرچ کرنا ۔
  • 4- السکون : یعنی ٹھہرنا ،

ان کے علاوہ التعلیق و التاخیر وغیرہ کے معانی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

اصطلاحی تعریف : علامہ ابو الحسن برہان الدین المرغینانی رحمہ اللہ اپنی کتاب’’ الہدایۃ فی شرح بدایۃ المبتدی‘‘ میں ر قم طراز ہیں کہ "وقف” امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مطابق یہ ہے کہ :’’حبس العين على ملك الواقف، والتصدق بالمنفعة مع بقاء العين بمنزلة العارية‘‘
ترجمہ:’’کسی معین مال کی اصل ملکیت اپنے نام رکھنا اور اس سے حاصل شدہ فائدہ کو صدقہ کردینا یا جن لوگوں پر چاہے خرچ کردینا ‘‘اس کی مثال کرائے پر دیئے گئے اُس مال کی طرح ہے جس کا اصل مالک تو کرائے پر دینے والا ہوتا ہے مگر اس مال سے فائدہ کرایہ دار اٹھاتا ہے۔
صاحبین یعنی امام محمد اور امام یوسف رحمہما اللہ کے مطابق وقف کہتے ہیں :’’حبس العين على حكم ملك اللّٰه تعالي، والتصدق بالمنفعة‘‘
ترجمہ:’’کسی معین مال کی ملکیت کو اللہ تعالیٰ کے نام منتقل کردینا اور اس سے حاصل شدہ فائدہ کو خیر و بھلائی کے کاموں میں خرچ کردیا جائے۔
یعنی حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مطابق وقف کرنے سے واقف کی ملکیت ختم نہیں ہوتی ہے، بلکہ ایک کرائے( rent) پر دئیے گئے مال کی طرح وقف کئے گئے مال کا اصل مالک واقف ہی رہے گااور اس سے حاصل شدہ فائدے کو صدقہ کردیا جائے گا ۔ جبکہ امام محمد اور امام یوسف رحمہم اللہ جو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگرد خاص بلکہ فقہ حنفی کے اہم ستون ہیں، ان کے مطابق وقف کرنے سے واقف کی ملکیت ختم ہو جاتی ہے اور ملکیت اللہ رب العالمین کے نام منتقل ہو جاتی ہے ۔امام سرخسی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’المبسوط‘‘ میں وضاحت کرتے ہیں کہ : امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مطابق چونکہ مال موقوف کا مالک واقف ہے، سوائے مسجد کے، وہ جب چاہے اسے ختم کر سکتا ہے۔ اس کے لیے جائز ہے کہ وہ اس کو بیچ سکتا ہے اور دیگر تصرفات بھی کرسکتا ہے۔ اگر واقف کا انتقال ہو جائے تو اس وقت اس کے وارثین میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔ ہاں حاکم ِوقت اگر چاہے یا وفات پانے والے شخص کی کوئی شرط ہو تو تقسیم سے روکا جا سکتا ہے۔جبکہ صاحبین کے مطابق اس طرح کے تمام تصرفات جائز نہیں ہیں کیونکہ اب یہ مال اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے ۔ مال موقوف کو بیچنا(sale) ، ہبہ کرنا(gift)، رہن رکھنا اور میراث(mortgage) کرنا بالکل ناجائز ہے ۔فقہ حنفی کے اندر صاحبین کے قول کے مطابق عمل ہے اور یہی مفتی بہ قول ہے ۔
فقہائے شافعیہ اور فقہائے حنابلہ اور اسی طرح فقہائے احناف کے مفتی بہ قول امام محمد اور امام یوسف کی تعریفات کے تجزیاتی مطالعہ اور علماء کے راجح اقوال سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے مطابق مال موقوف کی ملکیت( Ownership) اللہ تعالیٰ کے نام منتقل ہو جاتی ہے اور واقف کے لیے تمام قسم کے تصرفات ناجائز ہوتے ہیں ۔ ان کے مطابق وقف کا مالک صرف اللہ رب العالمین ہے۔
جمہور فقہاء کے قول کے مطابق وقف کی جامع اور مانع تعریف یہ ہے کہ:’’حبس العين على حكم ملك اللّٰه تعالي والتصدق بالمنفعة على جهة البر ابتداء أو انتهاء فقط‘‘
ترجمہ:’’ اصل مال کو اللہ تعالیٰ کی میں منتقل کردینا شروع میں یا آخر میں، اور اس سے حاصل شدہ فائدہ کو خیر و بھلائی کے اس مصرف میں خرچ کردینا جس کے لیے وقف کیا گیا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ واقف نے اپنی جائیداد کو اللہ کی ملکیت میں چاہے شروع یعنی وقف کرتے وقت ہی منتقل کر دیا ہو یا پھر شروع میں اولاد کے نام وقف کیا ہو یا کسی رشتہ دار یا اپنے ہی نام رکھا ہو اس شرط کے ساتھ کہ مرنے کے بعد یہ جائیداد’’انتھاء ا‘‘ یعنی آخر میں اللہ کے نام وقف کہلائے وغیرہ ۔ چنانچہ کوئی بھی جائیداد ان الفاظ کے ساتھ وقف شمار کی جائے گی۔

وقف سے متعلق فقہائے کرام کی مختلف تعریفات ہیں، اس کی بنیادی وجہ وقف کے مندرجہ ذیل مسائل میں اختلاف ہے :

1– دوام واستمرار: کیا ایک بار وقف ہمیشہ کے لئے وقف مانا جائے گا؟ یا متعینہ مدت کے لیے بھی وقف کیا جا سکتا ہے؟جمہور فقہاء کے مطابق دوام واستمرار شرط ہے۔ چنانچہ ایک بار وقف ہمیشہ کے لیے وقف تصور کیا جائے گا۔ متعینہ مدت کے لئے وقف کرنا جائز نہیں ہے جیسا کہ وقف کی تعریفات سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے۔ یہی راجح قول بھی ہے ۔ (Once a Waqf is always Waqf) ہندوستان کی سپریم کورٹ بھی اسی قول کی پابند ہے اور اسی پر ہندوستان میں عمل درآمد ہے ۔جبکہ فقہائے مالکیہ کے مطابق ایک متعینہ مدت یا کسی مال کو واقف کی وفات تک وقف کرنا جائز ہے۔

2-ملکیت وقف: یعنی وقف کا مالک واقف ہوگا یا اللہ تعالیٰ کی ملکیت کہلائے گا ؟

جمہور علماء مثلاً امام شافعی ، امام احمد بن حنبل اور فقہ حنفی کا مفتی بہ قول امام یوسف اور امام محمد بن حسن، ظاہریہ اور دیگر فقہاء کے مطابق وقف کا مالک اللہ تعالیٰ ہے ۔یہی قول راجح اور معتبر ہے ۔جبکہ امام ابو حنیفہ اور امام مالک رحمہما اللہ کے مطابق وقف کا مالک واقف ہی رہے گا ۔ مگر امام ابو حنیفہ ، مال موقوف میں کسی بھی طرح کے تصرفات کو ناجائز قرار دیتے ہیں ۔اور فقہائے مالکیہ تمام قسم کے تصرفات مثلاً بیع(sale)، ہبہ(gift) اور میراث( mortgage) میں تقسیم یا مشروط متعینہ مدت کے لیے وقف کرنے کو جائز تصور کرتے ہیں ۔ملکیت کے تعلق سے ایک تیسرا قول بعض شوافع اور امامیہ کا بھی ہے کہ وقف کے مالک وہ لوگ ہوں گے جن کے لیے مال کو وقف کیا گیا ہے۔
3 -وقف لازم اور غیر لازم:فقہاء کی اصطلاح میں لازم کہتے ہیں ایسے عقد کو جس کو کسی بھی فریق کے ذریعہ ختم نہیں کیا جا سکتا ہے .جمہور فقہاء کا کہنا یہ ہے کہ وقف لازم ہے ۔ ایک بار وقف کرنے کے بعد کسی بھی حال میں وقف کو ختم نہیں کیا جا سکتا ۔ اسی طرح مالِ موقوف کے مستحقین کو بھی نہیں ختم کیا جا سکتا ہے ،جس مقصد کے لیے وقف ہے ہمیشہ اسی کے لیے رہے گا ۔یہی راجح قول ہے اور اسی پر عمل ہے ۔جبکہ امام ابو حنیفہ کے مطابق وقف غیر لازم ہے ۔ یعنی وقف کو امام مالک کی طرح کسی بھی وقت ختم کیا جا سکتا ہے ۔

عالمی قوانین میں وقف کا تعارف:

معمولی الفاظ کے فرق کے ساتھ تقریباً تمام ممالک کے اندر وقف کی تعریف اپنے مفہوم اور معانی کے حساب سے ایک جیسی ہے ۔

1: (مصری Egypt) قانون کے مطابق وقف کہتے ہیں:
’’حبس العين عن التصرف أو عن التمليك لأحـد ورصد منفعتها علٰي سبيل التأمين أو التأبيد علٰي جهة من جهات الخير ابتداء أو انتهاء ‘‘
ترجمہ:’’ کسی بھی مال موقوف کو مالک کی ملکیت سے اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں منتقل کردینا اور واقف کو موقوف کے تمام تصرفات سے روک دینا ہے۔ اس سے حاصل شدہ آمد کو ہمیشہ کے لیے کار خیر میں خرچ کرنا وقف کہلاتا ہے‘‘۔

2: سوڈان(Sudan) کے قانون میں وقف کی تعریف یہ ہے کہ :
’’ بأنه حبس المال علٰي حكـم مـلـك اللّٰه تعـالٰي- والتصدق لمنفعته فى الحال أو المآل ‘‘

3: ملک جزائر(Algeria) کے قانون میں وقف کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:
’’حبس العين عن التمليك علٰـي وجـه التأبيـد والتصدق بالمنفعة على الفقراء ، أو علٰي وجه من وجوه البر ‘‘

4: مملکت سعودی عرب(Saudia Arabia) کے قانون میں وقف جنرل بورڈ کے دستور کی دفعہ(1) کے مطابق وقف کہتے ہیں:
’’المادة الأولي: الوقف العام : الوقف المشروط علٰي أوجه بر عامة معينة بالذات أو بالوصف ۔الوقف الخاص ( الأهلي ) : الوقف المشروط علٰي معين من ذرية وأقارب بالذات أو بالوصف۔الوقف المشترك:الوقف الذى يشترك فى شرطه أكثر من نوع من أنواع الوقف‘‘

جزائر اور سوڈان کے سرکاری قانون میں جو وقف کی تعریف پیش کی گئی ہے وہ عربی الفاظ کی معمولی تبدیلی کے بعد مصری قانون کے عین مطابق ہے ۔ جبکہ سعودی عرب کے قانون میں وقف کی ڈائریکٹ تعریف نہ کرکے اس کی اقسام کو واضح کیا گیا ہے ۔ جس کا مفہوم بھی سابقہ مصری قانون کی طرح ہی ہے۔

5:یورپ، متحدہ امریکہ اور متحدہ برطانیہ کے اندر ٹرسٹ( Trust)سسٹم کو رائج کیا گیا۔ یہ وقف کے مماثل ہی ایک بدلی ہوئی شکل ہے ۔ انگریزوں کے زیر استعمار اکثر اسلامی ممالک میں بھی وقف کے اسلامی نظام کو رواج نہ دے کر ٹرسٹ سسٹم ( Trust Management) کو رواج دیاگیا تاکہ اس کی اسلامی شناخت برقرار نہ رہ سکے بلکہ اسلامی ممالک میں انگریزی استعمار نے وقف کے خود مختار اداروں کو کمزور کرنے کی نیت سے سرکاری تحویل میں لیا اور منصوبہ بند طریقے سے اس کے قوانین میں ترمیم کرتے رہے ۔

6:ہندوستانی قانون میں وقف کی تعریف:

ہندوستان میں وقف کی تعریف Waqf Act 1995 (as Amended in 2013) کے مطابق مندرجہ ذیل ہے :
Waqf: “means the permanent dedication by any person, of any movable or immovable property for any purpose, recognised by the Muslim law as pious, religious or charitable”
ترجمہ: ’’کسی بھی شخص کے ذریعہ کسی بھی قسم کی منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد کوہمیشہ کے لیے اللہ تعالیٰ کے نام اسلامی شریعت کے مطابق کسی کار خیر رفاہی کام یا دیگر مذہبی مقاصد کی خاطر وقف کردینا ہے‘‘۔

وقف قانون( Waqf Act 1995) وقف جائیداد سے متعلق ہندوستان کا بنیادی قانون ہے ۔ اس قانون کے اندر 2013 میں ہندوستانی پارلیمینٹ کے ذریعہ ضروری تبدیلیاں لائی گئیں ۔ چنانچہ وقف کی تعریف ’’وقف ایکٹ 1995‘‘ کے الفاظ کے مطابق ’’by any person professing Islam‘‘تھا۔ جس کو 2013 میں professing Islam کو ختم کرکے “any person ” کردیا گیا ۔
جس کا مطلب یہ ہوا کہ اب کوئی بھی شخص چاہے مسلم ہو یا غیر مسلم وقف کر سکتا ہے ، جبکہ ’’وقف ایکٹ‘‘1995 کے مطابق وقف صرف مسلم شخص ہی کر سکتا تھا ۔ اس تبدیلی کی بنیادی وجہ یہ ہوئی کہ بہت سے وقف ہندوستان کے اندر غیر مسلم قدیم راجاؤں کے نام سے ملتے ہیں۔ عدالتوں میں ’’وقف ایکٹ‘‘1995 کی تعریف کے مطابق وہ وقف تصور نہیں کیے جا سکتے تھے، ایسے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے مذکورہ تعریف کے الفاظ کو تبدیل کرکے “any person” یعنی کوئی بھی شخص کے ذریعہ عام رکھا گیا ۔

چونکہ ہندوستانی قانون کے تمام مسلمان پابند ہیں، وقف جائیداد بھی ہندوستان کی(Ministry of Minority ) وزارت کے زیر انتظام ہیں جس کو وقف کا مرکزی ادارہ ( Central Waqf Council) کے ذریعہ ہندوستان کے تمام صوبوں میں موجود وقف بورڈ( Waqf Boards)کے ذریعہ انجام دیا جاتا ہے ۔ اور مکمل وقف جائیداد اسی قانون کے زیر انتظام آتی ہیں۔ درگاہ خواجہ اجمیر شریف کی وقف جائیداد اب اس قانون کے دائرہ سے باہر ہیں ۔ اس کے لیے ہندوستان کا مستقل الگ قانون( Law) ہے جس کو ( Dargah Khuaza Ajmer Act, 1955)کے نام سے جانا جاتا ہے ۔
اس لیے میں اپنے قارئین کو مذکورہ تعریف کی باریکیوں سے واقف کرانا چاہتا ہوں :

لفظ( Permanent Dedication) کا مطلب بالکل صاف ہے کہ دوام اور استمرار ضروری ہے وقتی اور مشروط وقف جائز نہیں ہے بلکہ ہمیشہ کے لیے وقف کیا جائے گا ۔ اور کسی طرح کے تصرف کا اختیار واقف کو نہیں رہے گا اور مال موقف کی ملکیت اب اللہ تعالیٰ کے نام منتقل ہو جائے گی۔
لفظ( any person) سے اس بات کو واضح کیا گیا ہے کہ وقف کوئی بھی مسلم یا غیر مسلم کر سکتا ہے ۔
لفظ (any moveable or immovable) کے ذریعہ یہ پتہ چلتا ہے کہ ہندوستانی قانون کے مطابق کسی بھی طرح کی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد چاہے کسی بھی صورت میں ہو اس کو وقف کہا جا سکتا ہے ۔
لفظ ( any purpose recognised by Muslim law) کے ذریعہ یہ واضح کیا گیا ہے کہ وقف کے اغراض ومقاصد بہت سارے ہو سکتے ہیں مگر بنیادی شرط یہ ہے کہ اسلامی شریعت اس کا جواز فراہم کرتی ہے ۔ چنانچہ شریعت اسلامیہ کی نظر میں کسی بھی حرام کام کے لیے وقف کرنا درست نہیں ہوگا اور نہ ہی وقف جائیداد کو حرام کام کے لیے کرایہ( lease or licence) پر دینا جائز ہوگا ۔
لفظ( as pious religious OR charitable) کے الفاظ سے مثال دے کر مزید واضح کرنے کی یہ کوشش کی گئی ہے کہ وقف کا مقصد قوم و ملت کی تعمیر و ترقی ہے۔ اور وقف کا مال غریبوں ، یتیموں اور محتاجوں کی امداد مذہبی اداروں مثلاً مساجد و مدارس ، عیدگاہ، مسافر خانہ اور قبرستان وغیرہ کی تعمیر میں خرچ کیے جائیں گے۔ واقف کو چاہیے کہ وہ وقف کرتے وقت ان مقاصد کو مد نظر رکھے ۔ وقف ایکٹ کی 2013 کی نئی ترمیم کی دفعہ 104Aکے تحت بالکل واضح الفاظ میں کسی بھی قسم کی وقف جائیداد کو بیچنا ،(Sale) ہدیہ دینا (Gift) ، وراثت( Mortgage)، وقف جائیدادکا تبادلہ(Exchange) اور دوسرے کے نام انتقال( Transfer) منع ہے ۔ ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ہندوستانی قانون کے اندر بھی وقف کی تعریف کافی حد تک جمہور فقہائے کرام کی معروف اور راجح تعریف کے مطابق ہے۔

وقف کے مماثل الفاظ اور معانی:

وقف کا گہرائی سے مطالعہ کرنے والے طالب علم بالخصوص وقف ڈپارٹمنٹ کے ملازمین اور منتظمین کو وقف کے مماثل اور مترادفات کو سمجھنا نہایت ضروری ہے تاکہ ان کے صحیح اور شرعی مفہوم سے واقفیت ہو سکے ضروری ہے کہ ان الفاظ کے مابین بہت ہی معمولی فرق کو سمجھا جا سکے ۔ اس سے وقف کے بہت سے پیچیدہ مسائل کا حل بھی نکالا جا سکتا ہے ۔
-1 وصیت (Wills)
: فقہاء کی اصطلاح میں وصیت کہتے ہیں کہ اپنی مرضی سے بھلائی کی خاطر اپنی وفات کے بعد کسی کو اپنی جائیداد کا مالک بنانا ۔
[رد المحتار علی الدر المحتار ابن عابدین۶؍۶۴۸]
وصیت اور وقف میں مشابہت یہ ہے کہ دونوں ہی کا مقصد بھلائی ہے ۔
جبکہ فرق یہ ہے کہ وقف میں انسان اپنے مال کی ملکیت اپنی زندگی میں اللہ کے نام منتقل کرتا ہے اور وصیت مرنے کے بعد لاگو ہوتی ہے۔

2صدقہ:(Charity)
رضائے الہٰی کی خاطر اپنے مال وغیرہ کو رضاکارانہ طور پر غریبوں کو دینا ۔[المجموع شرح المہذب للامام النووی:۶؍۲۴۶]

-3 زکوٰۃ:(compulsory donation- zakat)

زکوٰۃ کے مال کو لازمی طور پرغرباء و مساکین کے لیے دینا واجب ہوتا ہے جبکہ صدقہ اپنی مرضی سے رضاکارانہ طور پر دیا جاتا ہے ۔
دونوں کا مقصد رضائے الہٰی کا حصول ہے مگر صدقہ نفلی ہوتا ہے جبکہ زکوٰۃ فرض ہے ۔

وقف اور صدقہ دونوں کا مقصد بھلائی اور رضائے الہٰی کا حصول ہے مگر صدقہ زیادہ عام ہے وقف سے ۔
چنانچہ ہر وقف صدقہ کہلائے گا مگر ہر صدقہ وقف نہیں ہو سکتا ہے۔

وقف کے ذریعہ کسی اصل مال سے حاصل شدہ صرف منافع کی ملکیت منتقل کی جاتی ہے جبکہ صدقہ میں اصل مال اور اس کا منافع دونوں ہی کی ملکیت منتقل کی جاتی ہے ۔
یہی حال زکوٰۃ کا بھی ہے ۔
زکوٰۃ کا مال مخصوص لوگوں سے لے کر مخصوص لوگوں کو دیا جاتا ہے جبکہ وقف کوئی بھی کر سکتا ہے اور کسی بھی شرعی مقاصد کی خاطر کیا جا سکتا ہے ۔
-4 ہبہ :(Gift)

کہتے ہیں بغیر کسی عوض کے رضائے الٰہی کی خاطر کسی مال کی ملکیت دوسرے کو عطا کرنا ۔[ مغنی المحتاج إلی معرفۃ معانی ألفاظ المنہاج للامام الشربینی الشافعی ، المغنی لابن قدامۃ المقدسی:۶؍۴۱]
وقف اور ہبہ میں فرق یہ ہے کہ ہبہ لفظ کا معنیٰ وقف سے زیادہ عام ہے ۔
چنانچہ ہبہ کے ذریعہ کسی بھی مال اور اس سے حاصل شدہ فائدہ کی ملکیت منتقل کی جاتی ہے جبکہ وقف میں صرف نفع کی ملکیت منتقل کی جاتی ہے نہ کہ اصل مال کی ملکیت بلکہ اس کا مالک اللہ کو بنایا جاتا ہے ۔
-5 الحبس: ( prohibition )
کسی شخص کا اپنے مال میں تصرف سے روکنا بالفاظ دیگر وقف کرنا ۔
دونوں الفاظ میں کوئی فرق نہیں ہے بلکہ مشہور فقہاء کے مطابق مترادف ہیں ۔
-6 التبرع: (Donation)
اپنی مرضی سے رضاکارانہ طور پر کسی پر احساناور بھلائی کی خاطر کوئی چیز دینا ۔ [درر الحکام شرح مجلۃ الأحکام لعلی حیدر]
چنانچہ تبرع لفظ وقف سے زیادہ عام ہے ۔
ہر وقف تبرع کہلاتا ہے مگر ہر تبرع ، وقف نہیں ہو سکتا ۔ بالکل لفظ صدقہ کی طرح۔

البر( piety- pious)، الاحسان(charity) اور الخیر(goodness) بھی التبرع اور الصدقہ کے ہی مترادف (synonyms) الفاظ ہیں ۔

7وقف اور ٹرسٹ میں فرق (Diffrence between Trust and Waqf) :
وقف کی جائیداد کا مالک اللہ تعالیٰ ہوتا ہے جبکہ ٹرسٹ کا مالک انسان ۔
وقف جائیداد کو واپس نہیں لیا جا سکتا جبکہ ٹرسٹ جائیداد کو اصل مالک اپنی ملکیت میں دوبارہ لے سکتا ہے۔وقف صرف ان مقاصد کے لیے کیا جا سکتا ہے جن کی اجازت شریعت اسلامیہ میں ہے جبکہ ٹرسٹ کسی بھی ملک کے قانون کی مطابق جائز چیزوں کے لیے کیا جا سکتا ہے ۔دونوں کا مقصد عوام الناس کی فلاح و بہبودی اور ان کو مختلف سہولیات فراہم کرنا ہی ہے۔

وقف کے اقسام :

جمہور علماء اور فقہائے کرام کے مطابق بلکہ عالمی قوانین کے مطابق جس میں ہندوستان کا وقف ایکٹ بھی ہے ۔ ان کے مطابق وقف کی دو قسمیں ہیں ۔ بعض فقہاء نے ایک تیسری قسم کا بھی اضافہ کیا ہے جس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:
-1 وقف خیری (یا وقف عام یا وقف علی اللہ)
Waqf -al- Kheri (Public waqf)
اس کی تعریف یہ ہے کہ : ایسا وقف جس کے اصل مال سے حاصل شدہ منافع کو عوام الناس کی فلاح و بہبودی کے خاطر وقف کیا جائے اور مقصد رضائے الہٰی اور ملی و سماجی خدمات انجام دینا ہو ۔ مثلاً مساجد و مدارس کا وقف ، فقراء و مساکین کی فلاح اور دیگر ملی تعلیمی مراکز ،اجتماعی اداروں اور صحی مراکز کے اوقاف شامل ہیں ۔
-2 وقف اہلی (یا وقف ذری یا وقف خاص)
Waqf-alal- Aulad Private Particular Waqf
ایسا وقف جس کے اصل مال سے حاصل شدہ منافع کو شروع میں اپنے خاص اہل واقارب یا اپنی اولاد کی فلاح و بہبودی کے خاطر وقف کیا جائے۔ اس مخصوص اولاد کے ختم ہو جانے پر اس وقف کو بعد میں عمومی وقف میں منتقل کر دیا جاتا ہے ۔
-3 وقف مشترک Common Waqf (Public & Private)
ایسا وقف جس میں دونوں مقاصد یعنی وقف کے عام اور خاص مقاصد کو ایک ساتھ جمع کردیا گیا ہو ۔ چنانچہ اس کے اندر وقف الخیری اور وقف اہلی دونوں ہی ایک ساتھ پائی جاتی ہوں اس کو وقف مشترک کہتے ہیں۔

ملاحظہ:

مطلقاً اگر وقف بولا جائے تو اس سے عام طور پر وقف خیری بالفاظ دیگر وقف عام ہی مراد ہوتا ہے۔
وقف خاص یا وقف اہلی کو عالم اسلام کے بعض ممالک نے اپنے قانون سے ختم کردیا۔ کیوں کہ بعض لوگ اس کا استعمال اپنے وارثین کو وراثت سے محروم کرنے کے لیے غلط طور پر استعمال کرنے لگے۔مصر و سوڈان اور دیگر ممالک کے اندر ایسے معاملات رونما ہونے لگے کہ لوگ اپنی بیوی اور بیٹیوں کو وراثت سے محروم کرنے کے لیے وقف کی دوسری قسم یعنی وقف علی الاولاد کا استعمال کرنے لگے ۔اس سے نظام وقف کو داغدار کیا جانے لگا ۔چنانچہ وہاں کے دستور اور قانون سے اس قسم کو ختم کردیا گیا ۔ جب کہ شریعت اسلامیہ اس کی اجازت دیتی ہے بشرطیکہ اس کا غلط استعمال نہ کیا جائے ۔ بلکہ مقصد شرعی دائرے میں ہو ۔
” ہند وستانی قوانین میں وقف کی انواع”
ہندوستان کے وقف ایکٹ 1995 کی دفعہ ( 3r) میں وقف کی تعریف کا ذکر کیا گیا ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے واضح کیا ہے ۔ تعریف کے فوراً بعد وقف کی ایک قسم وقف ذری یا اہلی کا ذکر ضمنی طور پر کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ مندرجہ ذیل چار قسم کی جائیداد بھی وقف شمار ہونگی ۔ وقف جائیداد کے احوال و ظروف کے مد نظر ایکٹ کی اس دفعہ کے اندر یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ان کا شمار بھی وقف جائیداد میں ہوگا۔
The Waqf Act, 1995, Section 3(r) : Waqf (…) and includes:
“(i ) A waqf by user but such Waqf shall not cease to be A waqf by reason only of the user having cease d irrespective of the period of such cesser;
(ii ) A Shamlat Patti, Shamlat Deh, Jumla Malkkan or by any other name entered in a revenue record;
(iii) “grants”, including mashrat-ul- khidmat for any purpose recognised by the Muslim law as pious, religious or charitable; and
(iv) A waqf-alal-aulad to the extent to which the property is dedicated for any purpose recognised by Muslim law as pious, religious or charitable, provided when the line of succession fails, the income of the Waqf shall be spent for education . development, welfare”.
وقف ایکٹ کے اندر موجود وقف کی تعریف کا گہرائی سے مطالعہ اور وقف ایکٹ کو عملی جامہ پہنچانے والے بیوروکریٹ اور اسلامی اسکالر اس بات سے اتفاق رکھتے ہونگے کہ مذکورہ چار اقسام وقف کی قسمیں نہیں ہیں ۔ بلکہ کچھ مشہور زمانہ مسائل اور اختلافات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا گیا کہ مذکورہ قسم کی جائیداد بھی وقف کی ملکیت کہلائے گی۔

(۱) یعنی کوئی جائیداد وقف نہیں کی گئی مگر اس کا استعمال اگر ایک مدت سے وقف کے مقاصد کے خاطر استعمال میں ہے تو ایسی جائیداد کو اس کے استعمال کی وجہ سے بھی ہندوستانی قانون کے حساب سے وقف جائیداد شمار کیا جائے گا۔ مثلاً کسی جائیداد کا استعمال اگر مسجد کے طور پر ہوتا رہا ہے اور نمازی وہاں ایک مدت سے نماز ادا کرتے رہے ہوں اور صاحب جائیداد نے اس کو وقف نہ بھی کیا ہو تو بھی یہ جائیداد اپنے استعمال کی وجہ سے وقف ایکٹ کے مطابق وقف کہلائے گی ۔ اگر استعمال کرنے والے لوگ کسی بھی مدت سے اگر نہ بھی رہیں تو استعمال کرنے والے لوگوں کے نہ رہنے کی وجہ سے بھی وہ جائیداد وقف ہی شمار ہوگی کیونکہ اس کا استعمال ایک مدت تک وقف کے مقاصد کے لیے ہوتا رہا ہے ۔

(۲) اسی طرح گاؤں اور دیہی علاقوں میں موجود ایسی جائیدادیں جن کا اندراج روینو ریکارڈ(revenue record) میں شاملات پٹی، شاملات دیہ اور جملہ مالکان وغیرہ کے الفاظ سے موجود ہے ۔ ان کو بھی وقف جائیداد ہی مانا جائے گا۔ دراصل ایسے معاملات میں بارہا ایسا ہوا کہ پنچایت اور وقف بورڈ دونوں ہی ملکیت کو لے کر آمنے سامنے آجاتے ہیں ۔ بالخصوص ہریانہ کے پس منظر میں اگر بات کریں تو وقف بورڈ The Waqf Act, 1995 کی مذکورہ دفعہ( 3r) کے تحت دعویداری کرتے ہیں جبکہ گاؤں کی پنچایتیں مندرجہ ذیل قوانین کی مختلف دفعات کے تحت اپنا دعوائے ملکیت پیش کرتی ہیں۔
“Haryana Dholidar, Butimar, Bhondedar and Muqararidar (Vesting of Proprietary Rights) Act. 2010”
“The Punjab Land Revenue Act, 1887”
“The Punjab Village Common Land (Regulation) Act, 1961”
اس طرح دونوں ملکیت کا دعویٰ کرنے لگتے ہیں اور متنازع زمین کا دعویٰ عدالتوں کے چکر کاٹنے لگتا ہے ۔ ان معاملات کے مد نظر وقف ایکٹ 1995 کے اندر اس بات کی وضاحت کردی گئی کہ جمع بندی اور دیگر روینو ریکارڈ میں اگر کوئی جائیداد ان مذکورہ ناموں سے درج ملتی ہے تو اس کا مالک وقف بورڈ ہوگا اور وہ جائیداد وقف جائیداد کہلائے گی۔

(۳) اسی طرح اگر کوئی زمین یا جائیداد کسی مذہبی خدمات کے خاطر شرعی مقاصد مثلاً کسی بھی فلاح وبہبود یا مذہبی مقاصد کے خاطر ہدیہ میں دی جائے تو بھی وہ جائیداد وقف ہی ہوگی ۔ تجربات کی روشنی میں اس بات کو کہا جا سکتا ہے کہ وقف ایکٹ کے اندر یہ ایک قابل تعریف اضافہ ہے۔

(۴) وقف ایکٹ کے اندر چوتھی اور اہم بات وقف اہلی کی تعریف اور اس کی وضاحت کی گئی کہ اولاد یعنی موقوف علیہ کے ختم ہوجانے کے بعد اس وقف سے حاصل شدہ آمدنی کا استعمال کہاں کیا جائے گا ۔ چنانچہ شریعت اسلامیہ کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی بھی جائز تعلیمی، تعمیری اور فلاح و بہبودی کے کام میں استعمال کیا جا سکتا ہے ۔

7.0 وقف کے اغراض و مقاصد:

Purposes of Waqf in Islamic Law

شریعت اسلامیہ کی نظر میں نظام وقف کے بے شمار ملی و سماجی فوائد ہیں ۔ وقف سسٹم( Waqf Institutions ) نے کسی بھی ملک وملت کی تعمیر و ترقی( Devlopment of country and societies as well)میں نمایاں کردار ادا کیا ہے ۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے ۔ اسلام کے ابتدائی دور عہد نبوی سے لے کر آج تک بے شمار اسکول (Schools)، مدارس(Madaris) و مساجد( Masajid)کے ساتھ وقف مکاتب(Makatib) کی بنیاد بھی ڈالی گئی ۔ بیمارستان( Hospital)اور چیریٹیبل ڈسپنسریز( Charitable Dispensary)، مسافر خانے (Musafirkhana) ، یتیم خانوں( Shelter Houses for Orphans)کے علاوہ بہت سے ملی ، سیاسی ، سماجی اور تعلیمی ادارے(Education Institutions) وقف کے ذریعہ قائم کئے گئے ۔ وقف کے مقاصد میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں :

-1 عام مقاصد(Common Purposes): امت کے عمومی فائدے کے خاطر اپنے مال کو اللہ کی رضامندی اور اس کی تعلیمات کے مطابق آپسی تعاون وہمدری، سماج میں الفت و محبت اور انسانیت کے عمومی مقاصد کے خاطر اپنی جائیداد کو وقف کرنا ۔
-2 خاص مقاصد( Particular Purpises ): کسی بھی شرعی خاص مقاصد کے تحت اپنی جائیداد کو وقف کرنا ۔ مندرجہ ذیل اوقاف کے مقاصد میں شمار کئے جا سکتے ہیں۔

دینی اغراض (Religious Purpose): مثلاً رضائے الہٰی کے حصول کی خاطر مذہبی اور دینی مقاصد کے لئے وقف کرنا جیسے مساجد و مدارس اور تعلیمی اداروں کا وقف۔ آخرت کے حصول اور صدقۂ جاریہ کے طور پر انسان اپنی جائیداد کو وقف کرتا ہے ۔
ملی و سماجی مقاصد(Social Purposes ): شوسل اور سماجی خدمات کے خاطر وقف جیسے مسافر خانہ ، یتیم خانہ اور ثقافتی مراکز( Cultural Centers)قائم کرکے وقف کرنا تاکہ سماج کے اندر موجود مختلف غریب و مسکین لوگوں کو سہارا مل سکے اور سماج اور سوسائٹی کو ترقی اور اصلاح کے راستے پر گامزن کیا جا سکے ۔

فطری اسباب(Natural Purpose ): خاص مقاصد میں سے یہ بھی ہے کہ انسان اپنی جائیداد کو فطری طور پر وارثین کے ناجائز تصرف سے بھی بچانا چاہتا ہے ۔ چنانچہ اس مقصد کے خاطر بھی’’ وقف علی الاولاد ‘‘کا طریقہ اختیار کرتا ہے ۔
انسان کسی بھی مباح اور شریعت اسلامیہ میں جائز مقاصد( any other purposes recognised by Muslim Law) کے خاطر وقف کر سکتا ہے ۔

اسلام میں وقف کی شرعی حیثیث:

جمہور فقہاء احناف مالکیہ، شافعیہ، حنابلہschool,ظاہریہ، زیدیہ، اور امامیہ کے قول کے مطابق مشروع اور جائز(Legitimate)ہے ۔
اس کا ثبوت قرآن کریم( The Qur’an)، احادیث نبویہ(Prophets Hadiths)، آثار صحابہ (Doings of his Companions) اور اجماع امت(Consensus) سے ملتا ہے ۔
قرآن کریم سے دلیل:Evidence from the Qur’an
اللہ تعالیٰ کا فرمان: {لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّي تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ}
’’تم اس وقت تک نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ تم اس چیز میں سے خرچ نہ کرو جو تمہاری محبوب ترین ہے‘‘
[آل عمران:۹۲]
اللہ تعالیٰ کا فرمان: {وَأَنْ تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ }
’’اورصدقہ کرو کیونکہ صدقہ کرنا تمہارے لیے سب سے بہتر ہے اگر تم جانکار ہو ‘‘
[البقرۃ:۲۸۰]
اللہ تعالیٰ کا فرمان: {وَافْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ}
’’اور خیر و بھلائی کے کام کرو، شاید کہ تم کامیاب ہو جاؤ‘‘
[الحج:۷۷]
قرآن مجید کی مذکورہ آیات کریمہ اور اس معنی کی دوسری آیات میں واضح طور پر صدقہ و خیرات اور البر یعنی بھلائی کے کاموں کا حکم دیا گیا ہے ۔ وقف(Waqf) درحقیقت صدقہ و خیرات اور البر یعنی بھلائی کے کاموں میں سے ہی ہے ۔ علماء کرام اور مفسرین نے ان عمومی الفاظ سے مراد صدقۂ جاریہ اور وقف بھی لیا ہے ۔
احادیث نبویہ سے وقف کا ثبوت:Evidence from The Hadiths
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي اللّٰه تعالٰي عنه:أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ ﷺ قَال:’’ إِذَا مَاتَ ابنُ آدم انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثٍ: صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أو عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَه‘‘
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ آپ ﷺ نے فرمایا:’’اگر کوئی شخص فوت ہو جائے تو اس کے اعمال منقطع ہو جاتے ہیں سوائے تین اعمال کے، صدقۂ جاریہ، نفع بخش علم یا نیک فرزند جو اس کے لیے دعا کرے‘‘
[صحیح مسلم:۱۶۳۱]
اس حدیث میں صدقۂ جاریہ سے مراد وقف(Waqf) ہے ۔ وقف کو صدقۂ جاریہ بھی کہا جاتا ہے ۔
وعَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا قَال:’’ أَصَابَ عُمَرُ أَرْضًا بِخَيْبَرَ، فَأَتَي النَّبِيَّ ﷺ يَسْتَأْمِرُهُ فِيهَا، فَقَالَ:يَا رَسُولَ اللّٰهِ، إِنِّي أَصَبْتُ أَرْضًا بِخَيْبَرَ لَمْ أُصِبْ مَالًا قَطُّ هُوَ أَنْفَسُ عِنْدِي مِنْهُ، قَال: إِنْ شِئْتَ حَبَسْتَ أَصْلَهَا، وتَصَدَّقْتَ بِهَا، قَالَ: فَتَصَدَّقَ بِهَا عُمَرُ؛ أَنَّهُ لَا يُبَاعُ أَصْلُهَا، ولَا يُورَثُ، ولَا يُوهَبُ، فَتَصَدَّقَ بِهَا فِي الْفُقَرَائِ، وفِي الْقُرْبَي، وفِي الرِّقَابِ، وفِي سَبِيلِ اللّٰهِ، وابْنِ السَّبِيلِ، والضَّيْفِ، لَا جُنَاحَ عَلٰي مَنْ ولِيَهَا أَنْ يَأْكُلَ مِنْهَا بِالْمَعْرُوفِ، ويُطْعِمَ صَدِيقًا غَيْرَ مُتَمَوِّلٍ مَالًا‘‘
ابن عمر راوی ہیں کہتے ہیں کہ :’’حضرت عمر کو خیبر(Property of Khebar) میں کچھ زمین ملی وہ نبی اکرم ﷺکی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے کہ مجھے ایسی زمین ملی ہے کہ اس سے بہتر مجھے کوئی مال نہیں ملا ۔ تو آپ اس کے بارے میں مجھے کیا ہدایت فرماتے ہیں؟ فرمایا اگر تو چاہے تو اس کا اصل روک لے اور اس سے حاصل شدہ منافع کو صدقہ کردے۔ تو حضرت عمر نے اس کو صدقہ کر دیا ان شرائط کے ساتھ کہ اس کا اصل نہ بیچا جائے گا، نہ ہبہ کیا جائے گا، اور نہ ہی وراثت میں دیا جائے گا ۔ چنانچہ اس کو فقراء و اقرباء ، غلاموں، اللہ کے راستے، مہمانوں اور مسافروں کے لیے وقف کر دیا ہے‘‘۔
[صحیح بخاری:۲۷۷۲،صحیح مسلم :۱۶۳۲]
اس وقف کے متولی( caretaker) پر گناہ نہیں پڑے گا،اگر معروف طریقے پر اس میں سے کچھ کھائے ۔ مگر دولت جمع نہ کرے ۔
حدثنا أَنَسُ بْنُ مَالِك رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ:’’ لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺَ الْمَدِينَةَ أَمَرَ بِبِنَائِ الْمَسْجِدِ وَقَالَ: يَا بَنِي النَّجَّارِ ثَامِنُونِي بِحَائِطِكُمْ هٰذَا قَالُوا لَا وَاللّٰهِ، لَا نَطْلُبُ ثَمَنَهُ إِلَّا إِلَي اللّٰهِ……‘‘۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ:’’ جب رسول اللہ ﷺمدینہ میں تشریف لائے،تو مسجد کے بنانے کا حکم دیا ۔ فرمایا : اے بنو نجار!تم اپنے باغ کی مجھے قیمت بتاؤ۔ تو انہوں نے عرض کیا کہ:نہیں ، اللہ کی قسم ہم اس کی قیمت نہیں لیں گے ۔البتہ وہ باغ اللہ عز وجل کی رضا کے لیے دیتے ہیں ‘‘
[صحیح بخاری :۱۸۶۸]
مذکورہ احادیث اور اس کے علاوہ احادیث کا ایک ذخیرہ موجود ہے ۔ جس سے وقف کے جواز( Legitimate & it’s rules) اور اس کے احکامات کا پتہ چلتا ہے ۔

اجماع: Evidence of Consensus
امت مسلمہ کے تمام علماء کرام اور فقہائے عظام(all Jurist & Islamic Theologians)، صحابۂ کرام کے عہد سے لے کر آج تک اس بات پر متفق(agreed) ہیں کہ وقف اصلاً مشروع اور جائزہے ۔ گر چہ وقف کے بعض مسائل میں قدرے اختلاف پایا جاتا ہے ۔ امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وقف(Waqf) کا انکار کرنے والا شخص اجماع امت کے مخالف تصور کیا جائے گا اور اس کی بات کو قابل توجہ تسلیم نہیں کیا جائے گا ۔

ہندوستان میں وقف کی شرعی حیثیث :

بر صغیر ہند و پاک میں باقاعدہ طور پر وقف کو سن۱۹۱۳ء میں قانونی درجہ دیا گیا ۔ اور ہندوستان کی پارلیمینٹ سے The Musalman Waqf Validating Act,1913 اور وقف کے مماثل قانون The Official Trustees Act,1913 کو منظوری دے کر قانونی درجہ دیا گیا ۔ اس طرح آزادیٔ ہند سے پہلے ہی وقف کو قانونی درجہ حاصل ہو چکا تھا ۔ چند سالوں بعد معمولی حذف و اضافہ اور ترمیم( amendment)کے بعد The Musalman Waqf Act,1923 کو منظوری دے دی گئی ۔ معمولی ترمیم کے بعد ایک بار پھر کچھ ضروری تبدیلیاں کی گئیں اور The Musalman Waqf Validating Act,1930 کو منظوری دے کر عملی طور پر تنفیذ کیا گیا۔ بہت مختصر انداز میں مذکورہ قوانین کے اندر وقف کو متعارف کرایا گیا اور اس کی قانونی حیثیت کو تسلیم کر لیا گیا۔

آزادیٔ ہند کے بعد مسلمانوں کو داخلی اور خارجی ہجرت کی وجہ سے ایک بڑی تبدیلی اور ناگزیر دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ بڑے پیمانے پر زمینوں کا رکارڈ(revenue records) بدلنا وقت کی ضرورت تھی ۔ خطۂ پنجاب سے مسلمانوں کی ہجرت نے مذہبی اور ذاتی اراضی(personal & religious properties)کو لاوارث کر دیا تھا ۔ پاکستان کے مہاجرین ہندوستان میں اور ہندوستان کے مہاجرین پاکستان میں سکونت اختیار کرنے لگے تھے ۔ تقسیم وطن کے بعد مسلم اوقاف کی تباہی ایک قدرتی نتیجہ تھی ۔ہندوستان میں مہاجرین کو بسانے کا انتظام اویکیو ڈپارٹمنٹ Custodian of Evacuee Property Department gov. Of India اور از سر نو بسانے والے ڈپارٹمنٹ Rehabilitation Department gov.of india کے حوالے کردیا گیا ۔ پڑے پیمانے پر مذہبی اراضی کی ملکیت دانستہ اور غیر دانستہ طور پر عوام الناس کے نام منتقل کردی گئی اور اوقاف کی اراضی میں بدعنوانیوں کے الزام لگنے لگے ۔رجسٹریاں ان کے نام منتقل ہونے لگیں اوروقف کا نظام درہم بر ہم ہو چکا تھا۔

ہندوستان کے سیاسی رہنماؤں اور علماء کرام با کی کاوشوں سے وقف اراضی کے تعارف اور سروے کے لیے مختلف ریاستوں میں سروے کمشنر متعین کرائے گئے ۔ اور ایک لمبی جدو جہد کے بعد ہندوستان کی آزاد پارلیمینٹ سے The Wakf Act,1954 کو منظوری دلائی گئی ۔ نتیجتاً وقف کو قانونی طور پر آزادی کے بعد محفوظ تصور کیا جانے لگا ۔ اس قانون کے تحت ہندوستان کی تمام ریاستوں کو قانونی طور پر اسٹیٹ وقف بورڈ بنانے کا اختیار دیا گیا ۔ اور یکے بعد دیگرے ہندوستان کو تمام صوبہ جات میں وقف بورڈز کا قیام عمل میں آنے لگا ۔ سن1984ء میں مرکزی حکومت نے ایک بار پھر بڑے پیمانے پر ترمیم کردی اور The Wakf Act 1984 کے نام سے اس ایکٹ کو موسوم کیا گیا ۔ وقف ایکٹ کے اندر سن 1984ء کی تبدیلیوں نے ہندوستانی مسلمانوں کے اندر اضطراب پیدا کردیا تھا۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ دانستہ طور پر مسلم اوقاف کے اختیارات بڑے پیمانے پر وقف بورڈز اور متولیوں سے چھین کر مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو دے دئیے گئے تھے۔

نیشنل سطح پر مظاہرات اور زبردست احتجاج ہونے لگے ۔ بالآخر پارلیامینٹری کمیٹیاں تشکیل دی گئیں اور مسلسل 10سال کے بعد ان کی سفارشات کی روشنی میں اسی قانون کو ایک جامع شکل میں پیش کیا گیا اور ہندوستان کی پارلیمینٹ نے The Waqf Act,1995 کو منظوری دے دی اور ایک وسیع تبدیلی کے بعد وقف ایکٹ پر پورے ہندوستان میں عمل درآمد ہو گیا۔ سابقہ تمام قوانین منسوخ (repeal)کردیئے گئے ۔ مسلمانوں کی نظر میں قانون کی یہ ترمیم ایک اطمینان بخش قدم تھا ۔ وقف بورڈز کو ہی مکمل اختیار دے دیئے گئے اور تمام ریاستوں میں شیعہ اور سنی اوقاف کو تشکیل دیا گیا ۔

مذکورہ ایکٹ میں مزید کچھ ضروری ترمیم جوائنٹ پارلیامینٹری کمیٹی(JPC)کی سفارشات کی روشنی میں سن2014ء میں کانگریس کی مرکزی حکومت نے پارلیمینٹ سے منظوری دے دی ۔ ان تبدیلیوں کو وقف بورڈ کی نظر سے دیکھیں تو قابل قدر اضافہ ہے ۔ مگر بدقسمتی سے قانون کی بعض ضروری دفعات کو زمینی سطح پر نافذ کرنا مشکل ترین سمجھا جاتا ہے ۔ سرکار مکمل طور پر مدد کرے تو یقینا خوش آئند کہا جا سکتا ہے ۔ مگر تاہنوز اس کے امکانات خاطر خواہ نظر نہیں آتے ۔ بہر کیف وقف اور اوقاف کی اراضی سے متعلق ہندوستان کے اندر مکمل قانونی ضابطہ کے تحت وقف بورڈ اپنا کام انجام دیتے ہیں ۔ آج مختصر طور پر اس قانون کو The Waqf Act,1995 کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ تفصیلی طور پراس کو The Waqf Act,1995 (as amended by)The Waqf Act,2013 سے جانا جاتا ہے ۔

اسی ایکٹ کی دفعہ(13)کے تحت ریاستی سرکاروں(state government)کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے صوبہ اور ریاستوں میں 8-10رکنی ممبران پر مشتمل مختلف متعینہ تخصص کے افراد کو ممبر منتخب کریں اور پھر انہی منتخب ممبران میں سے کسی ایک کوby election بورڈ کا چیئرمین منتخب کریں ۔ تشکیل شدہ بورڈ وقف ایکٹ The Waqf Act, 1995 کے دائرے میں رہ کر اوقاف کا اشراف و انتظام دیکھتا ہے ۔ بورڈ کی عدم موجودگی میں ریاستی سرکار وقتی طور پر کسی معقول فرد یا سینئر آفیسر کو مدیر اعلیٰ Administratorمتعین کردیتی ہے ۔ وقف بورڈ کے سیکریٹری یا چیف ایگزیکیوٹیو آفیسر(CEO) کا انتخاب بھی اسی وقف ایکٹ کے تحت کسی سینئر آفیسر کا سرکار کے ذریعہ کیا جاتا ہے ۔ بورڈ کے دیگر آفیسران اور ضروری اسٹاف کا تعین ریاستی سرکار کی منظوری کے بعد خود بورڈ کر لیتے ہیں ۔
مرکزی پیمانے پر ایک ایڈوائزری کمیٹی کے طور پر قانونی طور پر مذکورہ وقف ایکٹ کی دفعہ( 9)کے تحت ہی سینٹرل وقف کونسل( CWC) کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے ۔ یہ کونسل Ministry of Minorities Affairکے زیر اشراف اور انتظام کام کرتی ہے ۔ وقف بورڈ اپنے آپ میں قانونی دائرہ میں رہ کر خود مختار ادارہ کی حیثیت سے کام کرتے ہیں ۔ ان کے اپنے rules & regulationsہوتے ہیں ۔
وقف اراضی کو کرایہ leaseپر دینے کے لیے بھی سن 2014ء سے پہلے تک بورڈ کے ریاستی سرکاروں سے منظور شدہ اپنے قاعدے و قانون ہوتے تھے ۔ مگر سن2014ء میں وقف قانون میں ترمیم کے ساتھ ہی پورے ہندوستان کے لئے مرکزی سرکار نے The Waqf Property Lease Rules, 2014 تشکیل دے دئیے ۔ اب اسی کی روشنی میں ساری اراضی مثلا کمرشیل، ایجوکیشنل، اور انڈسٹریل زمینوں (commercial, educational,& industrial properties) کو کرایہ پر متعینہ مدت تک کے لئے leaseپر دیا جاتا ہے۔زراعتی اور رہائشی جائیدادوں( agriculture & residential)کو آج بھی وقف بورڈ اپنے ریاستی سرکار سے منظور شدہ شیڈول ریٹ کے حساب سے پٹیاور کرایہ(rent or Patta) پر دیتے ہیں ۔
واضح رہے کہ کسی بھی حال میں وقف اراضی کو قانوناً اور شرعاً نہ بیچا جا سکتا ہے اور نہ ہی تبدیل کیا جا سکتا ہے جیسا کہ میں نے پہلے وقف کی تعریف کے ضمن میں اشارہ کیا ہے ۔ مزید یہ بھی واضح رہے کہ 99 سال کا پٹہ یا کرایے پر دینے کا کوئی قانونی تصور اب نہیں ہے(patta or lease for 99 years are not permissible now)۔ سال 1995ء کی ترمیم کے بعد وقف کی حفاظت کے خاطر اس اختیار کو بھی ختم کردیا گیا ہے ۔ اوقاف سے متعلق کسی بھی قسم کے تنازع کو مختلف ریاستوں میں ایکٹ کی دفعہ( 83) کے تحت تشکیل شدہ عدلیہ نظام( Waqf tribunals ) کے ذریعہ حل کیا جاتا ہے ۔ سرکار اور وقف کے ذمہ داران کا کردار اپنے مثبت اور منفی اثرات ضرور مرتب کرتے ہیں ۔ تبصرہ کے لیے ایک غیر جانبدارانہ اور انصاف پسند تجزیہ(independent analytical study)کی ضرورت ہے ۔
ملک ہندوستان کے اندر The Waqf Act, 1995 اسلامی اوقاف سے متعلق ایک واحد بنیادی قانون ہے۔ مسلمانانِ ہند اور بالخصوص مسلم ملی ، سماجی اور سیاسی تنظیموں(Milli , Social & Political Organization,NGO’S) کو اس کے تحفظ اور اوقاف کی سا لمیت کے لیے ہمیشہ بیدار رہنے کی ضرورت ہے۔

اس وقت ترمیم : وقف ترمیمی بل 2024 پارلیمنٹ میں پیش کردیا گیا ہے جس میں کئی طرح کی دفعات شامل کی جائیں گی۔ اس کے تحت ریاستی حکومت نے ریاستی وقف بورڈ میں ایک مسلم چیف ایگزیکٹیو آفیسر اور کم از کم دو غیر مسلم ممبران کی تقرری کی تجویز پیش کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ضلع کلکٹر کو یہ جانچنے کا اختیار دیا جائے گا کہ آیا کوئی جائیداد وقف کی ہے یا سرکاری زمین ہے۔ کسی تنازعہ کی صورت میں فیصلہ کلکٹر کرے گا نہ کہ وقف ٹریبونل۔ قبل ازیں اس تنازعہ پر فیصلہ وقف ٹریبونل لیتا تھا۔

نوٹ:

یہ مبارک مدنی کے مضمون ” وقف,معنی و مفہوم تجزیہ ” کا خلاصہ ہے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: