معصوم مرادآبادی
_____________________
عام طورپر کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی تخلیق کار اپنے فن میں یکتا ہے تو اس کی ذاتی کمزوریوں اور عیوب کو نظر انداز کرنا چاہئے، مگر میں اس نظریہ سے متفق نہیں ہوں۔ کوئی اچھا فن کارتبھی بن سکتا ہے جب وہ اپنے کردار واطوار کے اعتبار سے بھی اچھا انسان ہو اور اس کی شخصیت آئینے کی طرح شفاف ہو۔میں نہ تو شاعری کا پارکھ ہوں اور نہ ادب کا نقاد۔ایک طالب علم کے طورپر شعر وادب سے استفادہ کرتا رہاہوں اور ایسے لوگ مجھے ہمیشہ متاثر کرتے ہیں جن کے قول وفعل میں کوئی تضاد نہیں ہوتا۔جہاں تک شاعری کا معاملہ ہے تو حقیقت یہ ہے کہ شاعری سے زیادہ مجھے شخصیت متاثر کرتی ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ شہپر رسول کی شاعری اور شخصیت دونوں نے مجھے متاثر کیا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔
شہپررسول ہمارے عہد کے ان معدودے چند شعراء میں سے ایک ہیں، جن کے شعری اور شخصی محاسن میں فرق کرنا مشکل ہے۔ وہ جتنے اچھے اور معتبر شاعر ہیں، اتنے ہی اچھے اور باوقار انسان بھی ہیں ۔ان سے میرے تعلق کا دورانیہ تین دہائیوں سے زیادہ عرصے کو محیط ہے۔ یہ وہ دور تھا جب وہ علی گڑھ میں تھے۔ ان تک میری رسائی ان کے چچا (چودھری محفوظ مرحوم)کے توسط سے ہوئی تھی۔چودھری محفوظ جنھیں شہپررسول ’بابو چچا‘کہہ کرپکارتے تھے، ان ہی کی طرح ایک کھرے انسان تھے۔ میں نے اپنی زندگی میں جو چند بہترین انسان دیکھے ہیں، ان میں چودھری محفوظ بھی شامل ہیں۔وہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں، لیکن ان کی یادیں میرے ساتھ ہیں اور جب کبھی شہپررسول سے مکالمہ ہوتا ہے تو ’بابوچچا‘ کے تذکرے کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ چودھری محفوظ نے میرے ساتھ اردو میں ایم اے کیا تھا۔
کوئی 35برس ادھر کا واقعہ ہے۔ شہپر رسول کا پہلا شعری مجموعہ’صدف سمندر‘ منظرعام پر آیا تو انھوں نے علی گڑھ سے اس کا ایک نسخہ مجھےاپنے دستخط کے ساتھ بھیجا۔ یہ وہ زمانہ تھاجب علی گڑھ میں فرحت احساس، اسعد بدایونی، آشفتہ چنگیزی، مہتاب حیدرنقوی جیسے البیلے شاعروں کا بڑا شہرہ تھا۔ ان ہی میں ایک نام شہپررسول کا بھی تھا۔ ان کی بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ کسی ’شاعرانہ لت‘ کا شکار نہیں تھے۔ شاعری ان کے لیے وقت گزاری کا بھی ذریعہ نہیں تھی بلکہ وہ پوری طرح ڈوب کر شعر کہتے تھے۔بقول خود:
”شعر اس لمحہ برکت کا انعام ہے کہ جس ایک لمحہ میں جذبہ تخلیق ذہنی، دلی،ظاہری اور غیرظاہری دنیاؤں کے سمندر کو کھنگال کر گوہر نایا ب نکال لاتا ہے اور یہ بابرکت لمحہ مجھ سے گزشتہ پندرہ سولہ برسوں سے متعارف ہے۔“(صدف سمندر ص11)
یہ وہ دور تھا جب شہپررسول کی شاعری لڑکپن کے دور سے گزررہی تھی۔انھوں نے اپنی کوئی بیاض بھی نہیں بنائی تھی بلکہ شعر کہتے ہوئے جو بھی الٹا سیدھا کاغذ میسر آگیا، اسی کو غنیمت سمجھ لیا۔ جب ان کے پہلے شعری مجموعے کی اشاعت کا مرحلہ آیا تو سب سے بڑی دقت یہی تھی۔ تمام شاعری پرزوں پر تحریر تھی اور یہ پرزے بھی یکجا نہیں تھے۔کچھ کہیں اور کچھ ایک پولتھین میں۔چنانچہ جب بھی ان سے بیاض طلب کی گئی تو انھوں نے پولتھین کی وہی تھیلی پیش کردی، جس میں پرزوں پر لکھی ہوئی شاعری موجود تھی۔پرزوں پر لکھی ہوئی شاعری کا ایک نتیجہ تو یہ ہوا کہ کافی تعداد میں غزلیں گم ہوگئیں۔
شہپررسول کی طبعی بے نیازی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ’صدف سمندر‘ میں صرف شاعری ہے۔ نثر کے طورپر ان کا اپنا لکھا ہوا ڈیڑھ صفحے کا پیش لفظ ہے۔ حالانکہ جب کسی شاعر کا پہلا مجموعہ شائع ہوتا ہے توخود کو ثابت کرنے کے لیے وہ کئی بڑے لوگوں کی رائے اس میں شامل کرتا ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ شہپررسول کی شاعری پر کسی نے اظہار خیال نہیں کیا تھا۔ ان کے استاد پروفیسر عنوان چشتی نے جو خود شاعری کا ایک بڑا عنوان تھے، ’صدف سمندر‘ کے لیے پیش لفظ کے طورپر ایک پرمغز مقالہ تحریر کیا تھا۔ اس سے بڑھ کرسعادت کیا ہوسکتی تھی کہ استاد نے اپنے شاگرد کی تعریف میں قلم اٹھایا، لیکن شہپررسول نے کتاب کی ضخامت بڑھنے کے خوف سے اسے ’صدف سمندر‘ میں شامل کرنے سے گریز کیا۔ یہ دراصل ان کے طبعی استغنا اور خوداعتمادی کا مظہر تھا۔شہپررسول کی جو خوبی مجھے سب سے زیادہ عزیز ہے، وہ ان کی یہی قناعت پسندی ہے۔ یہ لفظ شاید شاعری کے اعتبار سے موزوں نہ ہو، لیکن جولوگ قناعت کی زندگی بسر کرتے ہیں، انھیں دنیاوی فائدے اور بیساکھیاں کبھی راس نہیں آتیں۔ وہ نہ شہرت کا تعاقب کرتے ہیں اور نہ ہی دولت انھیں لیے لیے پھرتی ہے۔ بقول خود
نہ شاعری کی ہوس ہے نہ فکر شہرت ونام
سوہم نے سوچا بہت ہے مگر کہا کم ہے
حقیقت بھی یہی ہے کہ انھوں نے شاعری کے میدان میں مقدار کے مقابلے ہمیشہ معیار کو ترجیح دی اور شہرت حاصل کرنے کے لیے کبھی کوئی’تگڑم‘ نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ شہرت ان کا تعاقب کرتی ہوئی ان کے گھر چلی آئی۔انھوں نے جس وقار کے ساتھ اپنا شعری اور شخصی سفر مکمل کیا ہے، اس معیار کا خیال ہمارے عہد کے بیشتر شعراء نہیں رکھتے۔ مشاعروں میں شرکت کے لیے سفارشیں کرانا اور اپنا معاوضہ بڑھوانے کی تگ ودو کرنا آج کے شاعروں کی عام شناخت ہے، لیکن شہپررسول نے آج تک نہ تو کوئی سفارشی مشاعرہ پڑھا اور نہ ہی معاوضہ کی فکر کی۔انھوں نے چاپلوسی یا کاسہ لیسی کو بھی کبھی منہ نہیں لگایا اور نہ ہی قصیدہ خوانی کا در کھولا۔ ان کی شخصیت ایسے عیوب سے پاک ہے جن میں ہمارے بہت سے شاعر گردن تک ڈوبے ہوئے نظر آتے ہیں۔ان کا مطالعہ اور مشاہدہ دونوں وسیع ہیں۔پروفیسر الطاف احمد اعظمی کے لفظوں میں:
”شہپررسول نے اپنے عہد کا بڑی باریک بینی سے مشاہدہ کیا ہے۔ خودغرضی،بے وفائی،بغض وحسد،انا پرستی اور شہرت ونام کی ہوس جیسے معائب اس دور کی شناخت بن چکے ہیں۔تقریباً ہردل میں خودغرضی اس طرح گھر کرچکی ہے کہ اپنے اور پرائے اور دوست اور دشمن میں تمیز باقی نہیں رہی، اخلاق ومحبت قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔حسد کی وہ گرم بازاری کہ ہر شخص دوسرے کے گھر کا چراغ بجھا دینے کے درپے ہے۔ شہپررسول کے کئی اشعار میں اس بے ضمیری اور تیرہ دلی کا ذکر بڑے درد وکرب سے ہوا ہے۔یہاں صرف دوشعر ملاحظہ ہوں:
بس ذرا سا عکس ہی ابھرا تھا صفوں سے باہر
ایک ہنگامہ کوتاہ قداں شہر میں ہے
ہلاک ہوگیا آکر خود اپنے لشکر میں
وہ دشمنوں کی صفوں کو تو چیر آیا تھا
(’رنگ رنگ شہپر‘ص101)
ابھی کچھ ہی دنوں کی تو بات ہے کہ عادل حیات نے ’رنگ رنگ شہپر‘ کی صورت گری کی تھی۔576صفحات کے اس مجموعہ میں اگرچہ سرورق پر شہپررسول کی تصویر کو آرٹسٹ نے دھندلا کرکے پس منظر میں پہنچادیا ہے، لیکن اس مجموعہ مضامین سے ان کی شخصیت اور شاعری کے جتنے منظر ابھرتے ہیں، اتنے شاید ہی کسی اور کاوش سے ابھرتے ہوں۔ کون ہے جس نے اس پیش کش میں شہپر کی شعری کاوشوں کو خراج تحسین نہ پیش کیا ہو۔علیم اللہ حالی لکھتے ہیں:
”شہپررسول کی شاعری ان کے منفرد لہجے کی تفہیم کے بغیر ہماری دسترس میں نہیں آسکتی۔یہاں تمام ترنیم گفتنی اور فکر کی دروں نشینی ہمیں تفہیم کے لیے نئے زاویہ نظر کی دعوت دیتی ہے۔ان کی شاعری میں انائے ذات کی خصوصیت ہے جو خودداری، خودآگہی اور عرفان کی ملی جلی کیفیات پیدا کرتی ہے۔ان کے مندرجہ ذیل اشعار ہم عصر غزلیہ شاعری میں لائق اقتباس بھی ہیں اور معنوی تہہ داری کی مثال بھی۔
اس سے پہلے کہ انا میری اڑاتی مجھ کو
خاک مٹھی میں بھری اور اڑادی میں نے
میں نے بھی دیکھنے کی حد کردی
وہ بھی تصویر سے نکل آیا
مجھے بھی لمحہ ہجرت نے کردیا تقسیم
نگاہ گھر کی طرف ہے قدم سفر کی طرف
میں ایک جست میں دشت انا سے باہر تھا
پھر اس کے بعد بہت دور تک سمندر تھا
شہپررسول کا وطنی تعلق بچھراؤں جیسے مردم خیزخطے سے ہے، جہاں وہ 17/اکتوبر1956 کو پیدا ہوئے۔ وہی بچھراؤں جہاں حامدحسن قادری، پروفیسر خواجہ احمد فاروقی، عزیزوارثی، طاہر فاروقی، نصیرالدین شاداں اور خواب افلاکی جیسے سخن وروں نے آنکھیں کھولیں۔نام تو اور بھی ہیں،لیکن ان چند ناموں پر اکتفا کرتا ہوں۔ شہپررسول اسی سلسلے کی ایک مضبوط کڑی ہیں اور شاعری میں کمال حاصل کرنے کے باوجود ان کے پاؤں زمین پر ہیں۔
شہپررسول کا اصل نام جودھری وجیہ الدین ہے۔انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے (آنرز)اور ایم اے (اردو)کرنے کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ (دہلی)سے پروفیسر عنوان چشتی کی نگرانی میں ’اردو غزل میں پیکر تراشی‘کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور1992میں شعبہ اردومیں گیسٹ لیکچرر کے طورپر کیریر شروع کیااور یہیں سے صدر شعبہ کے طورپر2021میں سبکدوش ہوگئے۔انھیں تیسری باردہلی اردو اکیڈمی کا وائس چیئرمین بنایا گیا ہے۔شاعری کے علاوہ انھوں نے نثر میں بھی کمال دکھایااور درجنوں مقالے تحریر کئے۔ان کے مضامین کا مجموعہ ’معنی ومعنی‘ بھی منظرعام پرآچکا ہے۔ ان کی نثر بھی شاعری کی طرح خاصے کی چیزہے۔ان کا ادبی سفر کامیابی اور وقار کے ساتھ جاری ہے۔ خدا انھیں تادیر سلامت رکھے۔