Slide
Slide
Slide

اتحادِ ملت کانفرنس:کیا تاریخ خود کو دہرا رہی ہے؟

محمد علم اللہ، نئی دہلی

________________

کیا تاریخ خود کو دہراتی ہے ؟ یہ سوال اپنے آپ میں بہت عجیب و غریب ہے اگر اس سے کچھ سیکھ کر آگے کا راستہ طے نہ کیا جائے تو یہ یقینا خود کو دہراتی رہتی ہے حالانکہ بہت سے لوگ اس بات کو نہیں مانتے ، علی عباس جلالپوری نے تو اس پر فلسفیانہ تردیدی مہر لگائی ہے۔ مگر ہم اس سادہ سے اصول پر نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں یہ بات نظر آتی ہے کہ تاریخ خود کو دوہراتی ہے ۔ گذشتہ 8 اور 9 اگست 2021 کو ہندوستان میں اتحادِ ملت کے نام پر منعقد ہونے والے اجلاسوں کو ہی اگر ہم لیں تو عجیب اتفاق نظر آتا ہے کہ آج سے ٹھیک 57 سال قبل اسی قسم کا اجتماع لکھنو کے دارالعلوم ندوۃ العلماء میں 8اور 9 اگست 1964 کو منعقد ہوا تھا ۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب پورے ہندوستان میں فسادات کا بازار گرم تھا اور بڑی تعداد میں مسلم اقلیتوں کی جان و املاک تباہ و برباد کی جا رہی تھیں۔ مسلمانوں میں ایک عجیب سی بے چینی اور مایوسی کی کیفیت تھی ، ٹھیک اسی طرح جیسے آج ہے ۔

معروف دانشور اے جی نورانی نے اپنی کتاب دی مسلم آف انڈیا : اے ڈاکیومینٹری ریکارڈ، صفحہ نمبر 139 پر اس بارے میں تفصیل سے لکھا ہے ۔ اردو ترجمہ ملاحظہ فرمائیں :

” ہندوستانی مسلمانوں کے رہنماؤں نے مستقل و مسلسل حق وانصاف کے قتل اورمسلمانوں کی اس قابلِ رحم حالت پر گفت وشنید کرنے کےلئے 8۔9اگست 1964ءکو لکھنؤ میں ایک میٹنگ کا انعقاد کیا اور بقول شخصے مسلمان جن حالات سے دوچار تھے، ان تمام کا حل تلاش کرنے اور ملک میں انہیں بھی برابر کی حصہ داری دلانے پر غور وخوض کرنے کے لئے سرجوڑ کر بیٹھنے پر آمادہ ہوئے ۔

اس سے تین سال قبل 1961ءمیں مسلمانوں کے قتل عام اور بڑی تعداد میں بلووں کی روک تھام کے لئے ایک کنونشن منعقد کیاجاچکا تھا۔ اس وقت کئی چھوٹے چھوٹے فسادات جبل پور، مدھیہ پردیش میں ہوچکے تھے ۔ مگر اس مرتبہ راوڑکیلا،جمشید پوراور کلکتہ وغیرہ میں کشت وخون کا وہ بازار گرم تھا کہ الامان والحفیظ کی صدائیں آنے لگیں۔ چنانچہ انہی حالات سے نمٹنے اور ان تمام ناگفتہ بہ اور کسمپرسی پرمبنی حالات سے نکلنے کے لیے منظم لائحۂ عمل طے کرنے کی تدبیریں سوچنے پر مسلم قائدین مجبور ہوئے۔

ان تین برسوں میں مسلمانوں کی حالت اس قدر سنگین اورنازک ہوگئی تھی کہ خود یہ عمائدین یہ سوچنے پر مجبورہوگئے تھے کہ ابھی تین سال قبل جس چیز کی روک تھام اور بگڑتے حالات پر قابو پانے کے لئے انہو ں نے حکومت کوپابند عہد کرایاتھا،حالات بالکل اس کے برعکس ہوگئے ہیں ۔ مسلم عمائدین حالات کے مزید پیچیدہ اور خراب ہونے کی وجہ سے خود کو بے بس تصور کرنے لگ گئےتھے۔ دراصل اس صورتحال کی سب سے اہم وجہ یہی تھی کہ بالخصوص شمالی ہند میں ہندو قومیت کا نعرہ شدت سے لگایاجانے لگا تھا اور ان تین سالوں میں یہ احساس ان کے اندر کچھ زیادہ ہی بڑھ گیاتھا۔ ”

اب ذرا حال کے تین سالوں پر نظر دوڑائیے ، سی اے اے ، این آرسی احتجاج ، مسلم نوجوانوں کی بڑی تعداد میں گرفتاریاں ، لنچنگ اور فسادات اور پھر اس پر اتحاد ملت کا یہ کنونشن اور ٹھیک اس کے چوبیس گھنٹے بعد ایک دوسرے گروہ کا دوسرا کنونشن ۔ دوسرا کنوشن جن لوگوں نے منعقد کیا تھا انھوں نے پہلے کنونشن کے جملہ ارباب حل و عقد پر یہ الزام عاید کیا ہے کہ کل کی میٹنگ میں ملت کی ایک نمائندہ تنظیم پاپولر فرنٹ ایس ڈی پی آئی کو نہیں بلایا گیا نہ داعیین اور نہ مدعوین میں۔ تو کیا یہ تنظیم ملت کی نمائندہ تنظیم نہیں ہے؟ کیا ملت کے’’ اکبر وں “میں سے کوئی بھی اس تنظیم میں نہیں ہے؟ یا داعی تنظیمیں بھی حکومت کی طرح انھیں دہشت گرد تنظیم سمجھ کے پہلو تہی کرتی ہیں۔ یا پھر خود یہ اجلاس کسی سرکاری اشارے کا رہین منت تھا؟ یہ کیسا اتحاد ہے کہ صرف اپنے خاص لوگوں کو مدعو کیا گیا داعی بھی وہی مدعو بھی وہی ۔ٹھیک اسی طرح کا الزام جمعیت علماء ہندنے اُس وقت مشاورتی کونسل پر لگایا تھا ، کہا تھا کہ چونکہ اس میں مسلم لیگ اور جماعت اسلامی کی شرکت ہو رہی ہے اس لئے وہ اس میں شرکت نہیں کرے گی اور اس کے لئے انھوں نے دہلی میں انھیں تاریخوں میں جمہوری کنونشن کا انعقاد کیا تھا تاکہ مشاورت کے اجتماع کو سبو تاژ کیا جا سکے اور یہ سب کانگریس کے اشارے پر ہوا تھا جو تاریخ کی کتابوں میں رقم ہے ۔ اس سلسلہ میں مزید تفصیلات کے لئے آئیے پرانے دستاویزات کا مطالعہ کرتے ہیں ۔ قدیم اخبار ہفت روزہ’’ندائے ملت‘‘نے 8دسمبر 1964ءکے شمارے میں تشویش کا اظہارکرتے ہوئے اس زمانے کی کچھ یوں عکاسی کی ہے :

’’کس قدر عبرت کی بات ہے کہ دہلی کے جمہوری کنونشن کے انعقاد سے اور اس کے فوراً بعد مسلم مجلس مشاورت سے اسے متصادم کرنے اور دونوں کے درمیان حریفانہ اسپرٹ پیدا کرنے کی جتنی بھی کوشش کی گئی وہ سب مسلمانوں نے ہی کی ۔ یوں تو یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ نقصان جو بھی پہنچتا ہے اپنوں سے ہی پہنچتا ہے مگر بعض صورتیں اتنی زیادہ ناقابل برداشت ہوتی ہیں کہ ان میں اس خیال سے تسکین نہیں ہوتی اور رہ رہ کر دل میں یہ اندیشہ پیدا ہوتا رہتا ہے کہ کیا ملت اسلامیہ ہند نے واقعی جینے کا استحقاق کھودیا ہے کہ اس کے اندر دوست نما دشمنوں اور مسیحا کے لباس میں قاتلوں کی ایک صف ہمہ وقت آراستہ رہتی ہے ۔

جمہوری کنونشن ہو یا مجلس مشاورت بنیادی مقصد دونوں کا ایک ہے یعنی ملک کے مختلف فرقوں سے براہ راست رابطہ پیدا کرکے اسے فرقہ واریت کی لعنت سے نجات دلانا اور مسلمانوں کے لئے عزت وعافیت کی جگہ تلاش کرنا ۔ اب اگران دونوں کو اپنے مشترکہ مقصد کی خدمت کرنے کاموقع نہ دیا جائےاورابتدائی منازل میں ہی ایک دوسرے کوٹکرا دیا جائے تو نقصان سارا مسلمانوں اور ملک کا ہی ہوگا کسی غیر کا نہیں ۔ ان حالات میں جولوگ جمہوری کنونشن کو مجلس مشاورت کے مقابلہ میں کھڑا کرنے کی سازش کررہے ہیں وہ یقینا ملت اور ملک دونوں کےدشمن قرار پائیں گے اور ان کا شمار اول درجہ کے منافقوں میں کیا جائے گا ۔ “

اس سلسلے کی تفصیلات بتاتے ہوئے امین الحسن رضوی نے ماہنامہ افکارملی دہلی، مسلم سیاست نمبر ،ستمبر 1987ء کے شمارے میں ’مسلم مجلس مشاورت‘ کے قیام کامحرک تیزی سے مکدر ہوتی ہوئی فرقہ وارانہ فضا کو بدلنا تھا، عنوان کے تحت تفصیل سے لکھا ہے ، کچھ حصہ پیش خدمت ہے :۔

” مولانا حسینؒ احمد مدنی صاحب کے انتقال کے بعد ان کے فرزند اسعد میاں صاحب اپنی صاحبزادگی کی عمر کے باوجود”مرشدزادگی “ کے بل پر جمعیۃ العلما کے ناظم عمومی بن گئے تھے اور اپنے مفادات کو برسراقتدار کانگریس سے وابستہ کرلیا تھا۔ جب ندوہ کے اجلاس کے بارے میں ابتدائی مذاکرات ہورہے تھے تو انہوں نے جمعیۃ العلما کی طرف سے یہ موقف بڑی سختی کے ساتھ اختیار کیا کہ جس اجلاس میں جماعت اسلامی اور مسلم لیگ کی نمائندگی ہوگی اس اجلاس میں جمعیۃالعلما شریک نہیں ہوگی اور اس موقف کے اختیار کرنے کے بارے میں دلیل ان کی یہ تھی کہ یہ دونوں فرقہ پرست جماعتیں ہیں یہ ان کی اپنی لےنہیں تھی بلکہ حکومت کے سر میں سر ملارہے تھے لیکن ان کے اس موقف کو مفتی عتیق الرحمٰن صاحب عثمانی مرحوم کی جو اس وقت جمعیۃ العلما کے صدر تھے حمایت حاصل نہیں تھی ۔ دوسری طرف ڈاکٹر سید محمود صاحب اور اس اجلاس کی ضرورت پر متفق دوسرے حضرات کی یہ مستحکم رائے تھی کہ جماعت اسلامی اور مسلم لیگ کو علیحدہ رکھ کر یہ اجلاس بلانا بے معنی ہوگا۔ چنانچہ ہر طرف سے اسعد میاں صاحب پر زور ڈالا جانے لگا کہ وہ اپنے موقف کو ترک کرکے اس اجلاس میں جمعیۃ کی نمائندگی پر راضی ہوجائیں اور خود جمعیۃ کی صفوں میں بھی اس مسئلہ پر دوگروپ ہوگئے بالآخر تصفیہ یہ ہوا کہ اس مسئلہ پر غور کرنے کے لئے جمعیۃ العلما کی مجلس عاملہ کی ایک نشست طلب کی جائے اورجو اس کا فیصلہ ہو اس کے مطابق عمل کیا جائے۔ جمعیۃ العلما کی مجلس عاملہ کی یہ نشست7اگست کو لکھنؤہی میں منعقد ہوئی ۔ اس نشست سے قبل درون پر دہ زعماے ملت کی طرف سے مسلسل کوششیں ہوتی رہیں جس کے نتیجہ میں بالآخر جمعیۃ کی مجلس عاملہ نے ندوہ کے اجتماع میں شرکت کے حق میں فیصلہ دے دیا اور اس طرح اسعدمیاں کی کوششوں کے علی الرغم ندوہ کے اجلاس اور کل ہند مسلم مجلس مشاورت کے قیام اور اس کے اغراض ومقاصدکےمتعلق گفتگو کرنے میں جمعیۃ العلما کی نمائندگی رہی ۔

لیکن اسعد میاں اپنی افتاد طبع کے تقاضوں سے مجبور ہوکر مجلس مشاورت سے علیحدہ ہونے کے بہانے ڈھونڈتے اور اپنی حمایت میں اپنے گروپ کو مضبوط کرتے رہے۔ جلدی ہی یعنی کل ہند مسلم مجلس مشاورت کی تشکیل کے تین مہینہ بعد ہی انہیں ایک موقع ہاتھ آگیا ۔ نومبر٫1964میں مشاورت کے صدر ڈاکٹر سید محمودصاحب نے مجلس مشاورت کی 21رکنی مجلس عاملہ کی تشکیل کی جس کا اجلاس ندوہ میں کیاگیا تھا، تو اس وقت اسعد میاں صاحب نے اسی پرانے عذر کے ساتھ کہ جس پلیٹ فارم پر جماعت اسلامی اورمسلم لیگ موجود ہوں اسی پلیٹ فارم پر جمعیۃ العلما کا بھی ہونا جمعیۃ کے مسلک کے خلاف ہے، مشاورت سے علیحدگی اختیار کرلی اس کے بعد خاصے طویل عرصہ تک مختلف دردمندان ملت کی طرف سے اس بات کی کوشش ہوتی رہی کہ اسعد میاں کوملت کے سواد اعظم کے ساتھ اشتراک عمل کے لئے آمادہ کرلیا جائے لیکن وہ نہیں مانے اوریہی صورتحال اب تک قائم ہے ۔ “

ان تمام تاریخی شواہد کو سامنے رکھئے اور آج کے حالات کا جائزہ لیجئے ، کیا من و عن وہی حالات آج نہیں ہیں ۔ تعصب ،نفرت اورامتیاز ہرانسانی سماج میں رہا ہے اور رہے گا۔ اس کی وجہ سے بڑے بڑے سماج اور تہذیبیں صفحۂ ہستی سے مٹ گئی ہیں۔ ایک انسانی گروہ جب سماج میں مناسب حصہ داری ، سیاسی اقتداراورمعاشی غلبے کے حصول کے لئے اترتاہے تو وہ طبقاتی کشمکش اورمذہبی،نسلی علاقائی اور سماجی آویز شیں پیداکرتا ہے۔ ایسی حالت میں طاقتورگروہ کمزورگروہ کو سیاسی ،معاشی اورسماجی طورپر پسماندہ اور مغلوب بنانے کی کوشش کرتا ہے لیکن ایک عرصہ کے بعد طاقتور گروہ بھی مٹ جاتا ہے لیکن آویزش اور ٹکراؤ میں نفرت ،تعصب ،تشدد اور جارحیت کاجو خوفناک ماحول پیدا ہوچکا ہو تاہے، وہ دونوں گروہوں کی زندگی اجیرن کردیتا ہے۔ اب تو ماحول یہ ہے کہ ملک کی ہر مصیبت کےلئے اقلیتی گروہوں کو ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے،نفرت اور تعصب کی ایک زبردست لہر چل پڑی ہے۔ تحریر، تقریر ،تصویر،تر سیل وابلاغ کے ہرذریعے اور حربے کو مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تعصب پیدا کرنے اور اسے پھیلانے کےلئے استعمال کیاجارہا ہے۔ منصوبہ بند فسادات میں حکام کی جانب داری،بے حسی ،چشم پوشی ، پولیس اور پیراملٹری فورسیز اور ایجنسیوں کی زیادتی،جبر وتشدد اور من گھڑت مقدمات زندگی کا معمول بن گئے ہیں۔ کئی حساس علاقوں میں مسلمان محصور محسوس کر رہے ہیں۔ ہندوستان کے دستور کو عملاکالعدم اور سیکولرزم کی پالیسی کو معطل کردیاگیا ہے۔

لیکن اس کے باوجود ایسا لگتا ہے ہمارے قائدین نے خود کو نہ بدلنے کا تہیا کر لیا ہے ، بظاہروہ ہندوستان کےمستقبل کی تعمیر میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں لیکن اس کی توانائیاں اس قدر بکھری ہوئی اور ترجیحات اس قدر متفرق اور بے ترتیب ہیں کہ آج اس کو ملک کی اجتماعی زندگی میں کوئی خاص مقام حاصل نہیں ہے، بلکہ آبادی کے لحاظ سے بھی دیگر کم تعداد کے تہذیبی،مذہبی اور ثقافتی گروہوں کے مقابلہ میں بھی اس کا وقاراوراہمیت کم تر ہوگیاہے۔ ہزاروں بھیانک تجربات سے گزرنے کے باوجود وہ باہمی چپقلش اور چھوٹے چھوٹے فقہی اور مسلکی اختلافات کے سبب ایک دوسرے کی تذلیل وتوہین کے مرض سے چھٹکارا نہیں پاسکےہیں اور اسی کا نتیجہ ہے کہ ہماری قیادت کے مراکز بھی مستحکم نہیں ہیں۔ قول وعمل کے تضاد ،کھوکھلے نعروں اور جھوٹے وعدوں سے اس سرزمین کے لوگ خواہ کسی بھی مسلک یامذہب سے تعلق رکھنے والے ہوں، بیزارہیں۔ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے قائدین تاریخ سے کچھ سبق لیں گے یا پھر تاریخ کو ویسے ہی دہراتے رہیں گے ؟

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: