محمد فہیم الدین بجنوری
______________
15 اگست 1947 کی صبحِ آزادی، ملتِ اسلامیہء ہند کے لیے نئی اسارت کا تازیانہ لے کر آئی؛ اس جدید تجربے میں گہری ٹیس اور مخصوص کسک تھی؛ کیوں کہ نئے تناظر کے مطابق پورا بر صغیر آزادی میں نہال تھا اور غلامی کا سایہ تنگ ہو کر اسلامیانِ ہند تک محدود رہ گیا تھا، آزادی وطن کے ہنگاموں میں تقسیم ہند کا علانیہ اور خفیہ ایجنڈہ رکھنے والے ہر دو نظریے اپنی کامیابی کے نقارے بجا رہے تھے؛ جب کہ قوم پرست اور تقسیم مخالف موقف کو ہولناک ماتم کا سامنا تھا۔
غیر منطقی تقسیم کے نتیجے میں کھلنے والا ہجرت کا دروازہ بہت بد نصیب ثابت ہوا؛ آخر الذکر موقف کے نمائندے نئی صورت حال میں بے سمت تھے، جنھوں نے طالع آزمائی کی وہ یا تو ان دس لاکھ لاشوں کا حصہ بن گئے جو تقسیم کا فطری خون بہا تھیں، یا ان ڈیڑھ کروڑ خانما بربادوں میں گم ہو گئے جو ہجرت کا درد اور داغ تھے۔
تلخ سچائی کا سامنا نئی تدبیر کی راہ کھولتا ہے؛ مگر ہم برعکس واقع ہوے، ہم نے دوسروں کے گلستاں کو اپنا سمجھنے کی خوش فہمی اختیار کی، خود فریبی کو زادِ ِراہ قرار دیا اور اپنے تئیں آزاد ہوگئے، جب ہم آزاد نہیں ہوے تھے تو آسودہ کیوں ہوے؟ حرکت وعمل کو منزل آشنا کیوں کیا؟ دوسروں کی منزل کو اپنی منزل گمان کرنے کا جرم کیسے کیا؟ ہماری آزادی گروی تھی تو کدو کاوش کی وراثت سے سمجھوتہ کیوں کر ہوا؟
معرکہ آرائی میں حریف وسائل کا تجزیہ شاہ کلید ہے، داؤں کی تبدیلی فرار جیسے گناہ کو استثنا فراہم کرتی ہے، دیوبندی جماعت کے میر کارواں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی علیہ الرحمہ 1857ء کے آزمودہ کار تھے، مزاحمت کی ناکامی ان کے جذبہء عمل کو مسخر نہیں کرسکی، انھوں نے انگریزی استعمار کے تمام پہلؤوں کا جائزہ لیا اور موقع کی نزاکت کے پیش نظر اپنی یورش میں تبدیلی ناگزیر سمجھی اور دینی تعلیم گاہوں کا جال بچھا کر دینی، تہذیبی اور فکری استعمار کو مسدود کردیا اور سیاسی و حسی غلامی میں مبتلا ملت کے لیے، دارالعلوم دیوبند کی شکل میں ذہنی وفکری غلامی سے تحفظ کی ضمانت عطا کرنے والی سد سکندری تعمیر کی۔
یہ تاریخ کے اسباق ہیں، جو خود ہماری داستانوں میں درج ہیں؛ مگر ہم نے ان کی روشنی سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا؛ چناں چہ 2014ء کی ملی شکست کا کوئی تجزیہ دست یاب نہیں، ملت مجموعی طور پر بے حس ہے، حرکت وعمل مفقود ہے، پر تشدد مزاحمت ہی واحد راستہ نہیں، در پیش صورت حال میں جو کچھ پر امن طور پر ہو سکتا ہے اتنا تو کریں، معرکہ آرائی کی اہلیت سے عاری ہونا بے عملی کا لازمہ تو نہیں۔
اسیر یومیہ بنیاد پر کام کرتے ہیں، وہ وکیل سے رابطے میں کوئی وقفہ نہیں رکھتے، ان کی تدابیر میں متواتر پیش رفت ہوتی ہے، کام یابی سالوں کی گردش میں نصیب ہوتی ہے؛ مگر سرگرمیاں کبھی سرد نہیں ہوتیں، یاجوج ماجوج بھی ہر روز دیوار پر زور آزمائی کرتے ہیں؛ مگر ہماری اسارت نیاری ہے، ہمارے یہاں مہیب خاموشی ہے، سناٹوں کا راج ہے، تین افراد کا چلتی ٹرین میں مذہب کی بنیاد پر قتل ہوتا ہے اور ہمارا ہاضمہ متاثر نہیں ہوتا۔
پندرہ اگست کے شادیانے ہمارے لیے لمحہء فکریہ ہیں، ہماری آزادی کا آئینہ ابتدا ہی سے غبار آلود تھا، دو ہزار چودہ کے بعد کی سنگ باری نے اس میں بال بھی پیدا کردیے ہیں، ہمیں اس کی گرد بھی صاف کرنی ہے اور بال بھی دور کرنے ہیں، ملک کے موجودہ تانے بانے میں بھی ملی وجود کا احساس دلانے کے لیے درجنوں پر امن راستے ہیں، ان سے آنکھیں موندنے کی تو کوئی توجیہ ممکن نہیں، قانونی اور دستوری ہنگاموں کو تو زندہ کرتے رہیں، مظلومیت کا شور تو قرآنی استثنا ہے، چھٹے پارے کا آغاز اسی تلقین سے ہوتا ہے۔
جدید عالمی تناظر نے زبانی جمع خرچ کو بھی مستقل کارزار کی حیثیت عطا کردی ہے، آوازوں اور نعروں سے حکومتی ایوانوں کی فضا مکدر ہوتی ہے، زبان وقلم کے احتجاج حاکموں کا تفکر بڑھاتے ہیں، ملکوں کی ساکھ داؤ پر لگ جاتی ہے، منفی شبیہ سرمایہ کاری کو متاثر کرتی ہے، حریف بیانیہ مقتدرہ کا لطف کرکرا کرتا ہے، یہ اور اس قسم کے دسیوں تصورات ہیں جو آزادی کی شمع کو فروزاں رکھ سکتے ہیں اور بند کوٹھریوں میں نوع بہ نوع کے روشن دان متعارف کراسکتے ہیں؛ مگر جہد وعمل کی شرط ناگزیر طور پر وابستہ ہے۔