۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

اندھیرا قائم رہے

اندھیرا قائم رہے

از: آنند ہندی دیناج پوری

___________________

اندھیرا قائم رہے۔ یہ ایک ایسا جملہ ہے جو کسی ہندی فلم کے ویلن کے منہ سے سننے کو ملا، اور یقین جانیے کہ یہ جملہ آج ہمارے معاشرے میں بھی کسی نہ کسی شکل میں زندہ ہے۔ وہ ویلن جو معاشرے میں روشنی کے خلاف تھا، اندھیرا بنائے رکھنا چاہتا تھا تاکہ اس کا غنڈہ راج ہمیشہ برقرار رہے۔ اس ویلن کے ارادے شاید ہمیں فلم میں مضحکہ خیز لگیں، لیکن افسوس کہ آج ہمارے سماج میں بھی ایسے "ولنز” موجود ہیں جو روشنی سے نفرت کرتے ہیں اور اندھیرا قائم رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں

بات ہورہی ہے بریلوی مسلک کے اسٹیجی اور روایتی مولویان کی، جو عوام کو جذباتی بناکر انہیں کیش کرتے ہیں۔ ان کے لیے "اندھیرا قائم رہے” کا جملہ محض ایک فلمی ڈائیلاگ نہیں، بلکہ ان کی روز مرہ کی حکمت عملی ہے۔ یہ مولویان اپنے جذباتی خطبات اور رنگین نعروں سے عوام کو ایسے جال میں پھنسا دیتے ہیں کہ انہیں سچائی اور فکر و بصیرت کی روشنی سے دور رکھا جا سکے۔ ان کے لیے فکر و بصیرت کی روشنی وہ خطرہ ہے جو ان کے غنڈہ راج کو ختم کر سکتی ہے۔

یہ اسٹیجی مولویان عوام کو اسٹیجوں پر جذباتی کر کے نعرے بازی، نعروں کے شور، اور جذباتی تقاریر کے سحر میں مبتلا رکھتے ہیں۔ ان کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ عوام کے ذہنوں میں فکر کی بجائے جذبات کی اندھیریاں چھائی رہیں، تاکہ انہیں روشنی سے روشناس نہ کیا جا سکے۔ یہ مولویان خود کو دین کے محافظ کے طور پر پیش کرتے ہیں، لیکن حقیقت میں وہ دین کے نہیں، اندھیروں کے محافظ بنے ہوئے ہیں۔

اندھیرا قائم رکھنے کے لیے یہ مولویان علم کی اہمیت کو کم کرنے، سوالات کو دبانے، اور اختلافی آوازوں کو خاموش کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر عوام کو علم اور بصیرت حاصل ہوگئی تو وہ ان کے جال سے نکل جائیں گے اور ان کے خود ساختہ مسلکی راج کا خاتمہ ہو جائے گا۔

دوسری جانب، کچھ روشن خیال اور بصیرت مند علماء ہیں جو معاشرے میں روشنی پھیلانے کے لیے کوشاں ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ دین اسلام کا اصل پیغام علم، فہم، اور بصیرت کی روشنی پھیلانا ہے۔ وہ عوام کو شعور دینا چاہتے ہیں تاکہ وہ اندھیروں سے نکل کر فکر و بصیرت کی روشنی میں قدم رکھ سکیں۔ لیکن ان علماء کی راہ میں روایتی مولویان کی شکل میں بڑے رکاوٹیں ہیں، جو چاہتے ہیں کہ "اندھیرا قائم رہے”۔

یہ روشن خیال علماء اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ دین کی اصل خدمت اس میں ہے کہ عوام کو شعور دیا جائے، انہیں فکر و بصیرت کی روشنی سے منور کیا جائے، اور انہیں اندھیروں سے نکالا جائے۔ لیکن یہ کام آسان نہیں، کیونکہ روایتی مولویان کے پس پشت اندھیروں کا ایک بڑا لشکر کھڑا ہے جو ہر روشنی کے چراغ کو بجھانے کے لیے تیار ہے۔

آخر میں، یہ کہنا بجا ہوگا کہ معاشرے کو اندھیروں سے نکالنے کے لیے ہمیں ان روشن خیال علماء کا ساتھ دینا ہوگا جو علم کی روشنی پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اندھیرا قائم رکھنا، نہ صرف دین کے خلاف ہے بلکہ معاشرے کے مستقبل کے لیے بھی انتہائی نقصان دہ ہے۔ روشنی کو پھیلنے دیں، تاکہ اندھیروں کا راج ختم ہو اور علم و فکر و فراست کی روشنی ہر دل میں جاگزین ہو۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: