۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

آل انڈیا ملی کونسل کی "وقف کانفرنس

آل انڈیا ملی کونسل کی "وقف کانفرنس

انوار الحسن وسطوی

9430649112

___________________

گزشتہ آٹھ اگست 2024 کو اقلیتی فلاح کے مرکزی وزیر جناب کرن رجیجو کے ذریعہ لوک سبھا میں "وقف ترمیمی بل 2024” پیش کرنے کے بعد ہی سے ملک کے مسلمانوں میں خلجان اور اضطراب کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے – وجہ یہ ہے کہ مذکورہ بل کی زیادہ تر شقیں وقف کی جائیدادوں سے مسلمانوں کے اختیارات کو ختم کر کے اسے مکمل طور پر سرکاری تحویل میں لینے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے – اس بل کے ذریعہ مرکزی حکومت وقف کی املاک پر سرکاری تسلط قائم کرنا چاہتی ہے – اس طرح یہ وقف ترمیمی بل دراصل آئین میں درج بنیادی حقوق کی کھلی خلاف ورزی اور ملک کے سیکولر ڈھانچے کو بھی تباہ و برباد کر دینے والا ہے – لہذا اس بل کے تعلق سے مسلمانوں کی مخالفت جائز اور درست ہے – اس غیر آئینی اور غیر جمہوری بل کے خلاف ملک کی متعدد ملی تنظیموں کے ذریعہ اپنے اپنے طور پر میٹنگیں منعقد کرنے، اجلاس بلانے اور قرارداد منظور کر کے مشترکہ پارلمانی کمیٹی( جے پی سی) کے ممبران اور مختلف سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں کو اس بل کی مخالفت میں میمو رنڈم دینے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے – جن تنظیموں نے اس سلسلے میں اپنی فعالیت کا مظاہرہ کیا ہے ان میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ آل انڈیا ملی کونسل جمعیت العلماء، امارت شرعیہ بہار، اڑیسہ وجھارکھنڈ اور جماعت اسلامی کے نام خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں – ریاست بہار میں عوامی طور پر اس تحریک کے آغاز کا سہرا آل انڈیا ملی کونسل بہار کے سر جاتا ہے جس کے زیر اہتمام گزشتہ 25 اگست 2024 کو پٹنہ کے اے- این – سنہا انسٹی چیوٹ میں "وقف کی حفاظت اور وقف ترمیمی بل 2024″ کے عنوان سے زیر صدارت مفکر ملت حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی مدظلہ، نائب صدر، آل انڈیا ملی کونسل ایک عظیم الشان” وقف کانفرنس” کا انعقاد کیا گیا – جس میں صوبہ بہار کے مختلف اضلاع کے علماء، دانشوران، صحافی، وکلا، تنظیموں کے ذمہ داران، سیاسی کارکنان اور اوقاف کے متولیان نے بڑی تعداد میں شرکت کی – مجوزہ وقف بل کی مخالفت اور مسلمانوں کے احتجاج کی حمایت کرنے کے لیے پورنیہ کے رکن پارلیمنٹ پپو یادو جی، آرا کے رکن پارلیمنٹ سدامہ پرساد جی (مالے)، مجلس اتحاد المسلمین کے ایم ایل اے جناب اختر الایمان، کانگرس کے ایم ایل اے اظہار الحسنین، انظار نعیمی ایم ایل اے (راجد) یوسف صلاح الدین ایم ایل اے( راجد) ڈاکٹر خالد انور ایم ایل سی (جدیو)، قاری محمد صہیب ایم ایل سی (راجد) اظہار احمد سابق ایم ایل اے، امام غزالی( نمائندہ ایل جے پی) ارشاد علی آزاد، سابق چیئرمین شیعہ وقف بورڈ، پروفیسر توقیر عالم، سابق پرووائس چانسلر مولانا مظہر الحق عربی و فارسی یونیورسٹی پٹنہ سمیت متعدد علماء، وکلاء، سیاستداں اور سماجی و ملی کارکنوں نے کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے کھلے لفظوں میں اس مجوزہ وقف بل کی مخالفت کی اور اس بل کو اسلامی قانون ہی نہیں دستور ہند کی دفعہ 14، 25، 26 اور 29 کے خلاف قرار دیتے ہوئے حکومت سے اسے فوری واپس لینے کا مطالبہ کیا – ملی کونسل بہار کی اس وقف کانفرنس میں ملی کونسل کے عہدیداران کے ذریعہ یہ اعلان کیا گیا کہ اس مجوزہ اوقاف بل کے خلاف پورے ملک میں بطور خاص بہار میں زوردار تحریک چلائی جائے گی – اس منصوبے کے تحت ریاست بہار کے ہر ضلع میں” وقف کانفرنس” منعقد کرنے کا فیصلہ لیا گیا – ساتھ ہی یہ بھی طے کیا گیا کہ اس اجلاس کی تجاویز کے ذریعہ تیار کیے گئے مواد کی روشنی میں مجوزہ ترمیم سے ہونے والے نقصانات اور ناانصافیوں پر مشتمل میمورنڈم بھی ملی کونسل کی جانب سے جے پی سی(JPC) کے ممبران اور مختلف پارٹیوں کے ذمہ داران حضرات تک پہنچانے کا سلسلہ آگے بھی جاری رکھا جائے گا اور ان سے مل کر ان کے سامنے مسلمانوں کا موقف واضح طور پر پیش کیا جائے گا اور انہیں قائل کرنے کی بھی بھرپور کوشش کی جائے گی – اس تعلق سے راقم السطور کی تجویز ہے کہ سرکردہ مسلم تنظیموں کا ایک موقر وفد اقلیتی فلاح کے مرکزی وزیر جناب کرن رجیجو اور وزیراعظم جناب نریندر مودی سے بھی ضرور ملے اور ان کے سامنے اپنا موقف رکھنے کی ضرور کوشش کرے – ساتھ ہی مجوزہ بل کے خلاف اپنا احتجاج درج کرائے – کوشش کے باوجود اگر وزیراعظم مسلم رہنماؤں سے نہیں ملتے ہیں تو دنیا کو یہ بات ضرور ہی معلوم ہو جائے گی کہ وزیراعظم نے اس بل کے تعلق سے نہ بل پیش کرنے سے قبل اور نہ بل پیش ہونے کے بعد ہی مسلمانوں کے جذبات اور احساسات جاننے کی ضرورت محسوس کی- پھر وہ کس بنیاد پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ میں 140 کروڑ عوام کا نمائندہ اور چوکیدار ہوں- کانفرنس کے صدر مولانا انیس الرحمن قاسمی نائب صدر آل انڈیا ملی کونسل نے اس موقع پر دو ٹوک طور پر اپنی صدارتی تقریر میں اعلان کیا کہ "ہماری یہ تحریک اس وقت تک جاری رہے گی جب تک بل لوک سبھا سے واپس نہیں لے لیا جاتا ہے-” حضرت مولانا کے اس اعلان کا حاضرین نے زوردار خیر مقدم کیا اور انہیں اپنے ہر ممکن عملی تعاون کا یقین دلایا- ملی کونسل کا یہ عزم قابل تعریف ہے-

کانفرنس میں ملی کونسل کی جانب سے آٹھ تجاویز منظور کی گئیں اور اس بات پر بھی کونسل کی جانب سے زور دیا گیا کہ اگر کہیں متولیان یا عام مسلمانوں کے ذریعہ بھی وقف املاک پر قبضہ کر لیا گیا ہے تو یہ بھی سراسر غلط ہے – اس ملکیت سے لوگوں کو از خود دستبردار ہو جانا چاہیے – کانفرنس میں مسلمانوں اور بطور خاص اوقاف کے ذمہ داروں، متولیوں اور وقف کمیٹی کے ذمہ داران سے اپیل کی گئی کہ بہار میں جاری سروے کے سلسلے میں پوری مستعدی دکھائیں اور ذرا بھی سروے کے کام میں تساہلی نہ برتیں ورنہ مستقبل میں اس کا زبردست خمیازہ بھگتنا پڑے گا- کانفرنس میں مفتی ابو نصر ہاشم ندوی اور مولانا نجم الہدی قاسمی کا مرتبہ رسالہ” وقف کے احکام و مسائل” کانفرنس میں شریک تمام افراد کے درمیان تقسیم کیا گیا- اس موقع پر آل انڈیا ملی کونسل، بہار کی جانب سے شائع مولانا سید محمد عادل فریدی سکریٹری "ابوالکلام ریسرچ فاؤنڈیشن” پھلواری شریف، پٹنہ کی 96 صفحات پر مشتمل مرتبہ کتاب "وقف ایکٹ 1995 اور وقف ترمیمی بل 2024 کا تقابلی جائزہ” کا اجرا ڈائس پر تشریف فرما مہمانان کانفرنس کے ہاتھوں عمل میں آیا – مولانا سید محمد عادل فریدی نے نہایت خوبصورتی اور اختصار کے ساتھ وقف ایکٹ 1995 اور وقف ترمیمی بل 2024 کا تقابلی جائزہ پیش کیا ہے جس کے مطالعے سے وقف قانون بل 2024 کو سمجھنا آسان ہو گیا ہے – اس موقع سے 100 روپے قیمت کی اس کتاب کو صرف 50 روپے میں دستیاب کرانے کا اعلان کیا گیا، لیکن مجھے مایوسی تب ہوئی جب اس کتاب کو لے کر ایک صاحب سامعین کی نشستوں تک گئے لیکن راقم السطور نے مشکل سے تقریباً ایک درجن افراد کو ہی یہ کتاب خریدتے دیکھا۔

آل انڈیا ملی کونسل بہار کے زیر اہتمام منعقدہ اس "وقف کانفرنس” کا پیغام نہ صرف بہار بلکہ پورے ملک میں گیا ہے- امید قوی ہے کہ اوقاف کے تحفظ کے تعلق سے عوام و خواص میں ضرور بیداری آئے گی اور حکومت کو بھی اس بل کے تعلق سے مسلمانوں کے رد عمل کا اندازہ اور احساس ہوگا جس کے نتیجے میں حکومت بلا تاخیر بل کو واپس لینے پر مجبور ہوگی- یہ اسی وقت ممکن ہو سکے گا جب ہم متحد ہو کر اپنی آواز بلند کریں گے اور اپنی صفوں میں اتحاد باقی رکھیں گے-
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: