چائلڈ ٹریفکنگ کے نام پر کم عمر طلبۂ مدارس کی ہراسانی اور ہماری کوتاہی
نایاب حسن
پچھلے کئی سالوں سے ہرسال شوال کے مہینے میں، جبکہ مدارس میں تعلیمی سال کا آغاز ہونے والا ہوتا ہے اورطلبۂ مدارس بڑی تعداد میں ملک کے ایک حصے سے دوسرے حصے کا سفر کرتے ہیں،ایسے متعدد واقعات پیش آتے ہیں کہ بعض افراد یا بچوں کی سمگلنگ اور ٹریفکنگ وغیرہ کے خلاف سرگرم اداروں کی شکایات پر ریلوے سٹیشنوں پر سے یا دوران سفر ریل کے اندر سے مدرسے کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو اتار لیا جاتا ہے،انھیں تھانے لے جایا جاتا ہے اور پھر مختلف ملی تنظیموں یا شخصیات کی مداخلت اور بڑی دوڑ دھوپ کے بعد ان بچوں کو چھڑایا جاتا ہے۔اس سال بھی مدرسوں کے کھلنے کے ساتھ ایسی خبریں آنے لگی ہیں،ابھی کل ہی کا واقعہ ہے کہ ارریہ(بہار) سے تیس سے زائد بچوں کا قافلہ ایک استاذ کے ساتھ تمل ناڈو کے لیے پا بہ رکاب تھااور جیسے ہی وہ داناپور سٹیشن پر گاڑی میں سوار ہوئےبچپن بچاؤ نامی مبینہ تنظیم نے انھیں اتار کر پولیس کے حوالے کردیا،کل سے امارت شرعیہ کے ذمے داران ان کی بازیابی کی کوششوں میں مصروف ہیں،اتنی بڑی تعداد میں کٹوائے ریلوے ٹکٹوں پر خرچ ہونے والے پیسے ایک طرف، خواہ مخواہ کی ذہنی و نفسیاتی پریشانی ایک طرف ۔اسی طرح کا ایک اور واقعہ میری نظر سے گزراہے ۔
یہ تو حقیقت ہے کہ بچوں کو ٹرینوں سے اتارکر یا سٹیشنوں سے پکڑ کر پولیس کے حوالے کرنے والے لوگ یا نام نہاد تنظیمیں اچھی طرح جانتی ہیں کہ یہ بچوں کی ٹریفکنگ کا معاملہ نہیں،یہ لوگ تعلیم حاصل کرنے کے لیے باہر کہیں جارہے ہیں،محض اپنی بدمعاشی اور معصوم بچوں اور ان کے گھروالوں کو ہراساں کرنے کے لیے یہ خبیث ایسی حرکت کرتے ہیں؛لیکن یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہر سال اس قسم کے واقعات رونما ہونے کے باوجود آخر ہمارے لوگ(ان بچوں کو لے جانے والے علمااور ان کے گارجین) سمجھتے کیوں نہیں ہیں،کیا بہار، جھارکھنڈ، اڈیشہ میں اچھے مدرسے نہیں ہیں؟وہاں بچوں کی تربیت کا معقول انتظام نہیں ہے؟ان مدرسوں میں تعلیم اچھی نہیں ہوتی؟
بات یہ ہے کہ ان ریاستوں میں بھی یہ سارے انتظامات ہیں۔خصوصاً کم عمر کے بچوں اور ناظرہ و حفظ اور فارسی و عربی کی متوسطات تک کی تعلیم علاقائی اور نسبتاً چھوٹے مدرسوں میں جتنی اچھی ہوتی ہے اور جتنی اچھی تربیت و نگہداشت کا ان مدرسوں میں اہتمام ہوتا ہے،اتنا دور دراز کےشہروں میں نہیں ہوتا،وہاں جاکر عموماً بچے شترِ بے مہار اور علمی اعتبار سے کورے ہوجاتے ہیں،کہ نئی اور بڑی جگہوں پر چھوٹے بچوں کا ذہن پڑھنے لکھنے سے زیادہ دوسری لغویات میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ ہم نے تو دیوبند جیسے مرکزِ علم میں دیکھا کہ دارالعلوم دیوبند کے علاوہ جتنے چھوٹے چھوٹے مدرسے ہیں،ان میں پڑھنے والے نیچے درجات کے بچے عموماً لاخیرے ہوجاتے ہیں۔اسی وجہ سے ہندوستان کی بیشتر ریاستوں اور خود ہمارے دیار(شمالی بہار) کے مدارس میں آج بھی عمومی مزاج یہ ہے کہ عربی ششم ،ہفتم کے بعد ہی طلبہ دیوبند یا دوسرے بڑے مدارس کا رخ کرتے ہیں۔ ناظرہ، حفظ، فارسی میں تو دور دراز جانے کا تصور نہ کے برابر ہے، متوسط عربی درجات میں بھی پچھلے دس بارہ سال سے طلبہ اپنے علاقے سے باہر جانے لگے ہیں، ان کی تعداد بھی کم ہی ہوتی ہے۔ کوئی بچہ اگر علاقے میں پڑھنے کو بالکل آمادہ نہیں ، والدین اور گھروالوں کو بہت زیادہ پریشان کرتا ہے، تو کسی قریبی رشتے دار کی سرپرستی میں دور کے شہر حصولِ تعلیم کے لیے بھیجنے کی بات اور ہے؛ لیکن گاڑی بھر بھر کر اور تیس تیس چالیس چالیس بچوں کی تشکیل کرکے اپنے علاقے میں اچھا سے اچھا تعلیمی ادارہ ہوتے ہوئے اور وہ بھی موجودہ ناگفتہ بہ حالات میں، انھیں بہار سے تملناڈو، تلنگانہ، گجرات یا مہاراشٹر وغیرہ کا سفر کروانا کسی طور مناسب نہیں ہے، ایسا کرنے والے مولویوں اور بچوں کے سرپرستوں کو سمجھانا چاہیے، مقامی علما اور مدارس کے ذمے داروں کو ان سے بات کرکے اپنے یہاں ان بچوں کو داخل کرنا چاہیے ۔ امارت شرعیہ نے آج اسی قسم کی اپیل بھی کی ہے، جسے زیادہ سے زیادہ پھیلانے اور لوگوں کو اس پر توجہ دلانے کی ضرورت ہے۔