مووی "دی گوٹ لائف” کی کہانی جو چھپا لی گئی
ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
_________________
آجکل یہ انکشاف تیزی سے لوگوں پر ظاہر ہو رہا ہیکہ مووی گوٹ لائف کی کہانی ادھوری ہے۔۔اور یہ ادھوری کہانی سعودی عرب کا غلط چہرہ پیش کر رہی ہے۔ اصل کہانی اس مووی کے ریلیز ہونے سے تین سال پہلے عبدالرحمٰن نامی ایک سعودی شہری نے ایک tv پروگرام میں سنا رکھی ہے۔ جو بعد میں اس نے اپنے یوٹیوب چینل پر بھی شیئر کی تھی اور اس حوالے سے ٹوئٹ بھی کر دی تھی۔
میں نے بھی یوٹیوب پر وہ ویڈیو دیکھی ہے اور ٹوئٹ کے سکرین شارٹز بھی۔ اس حوالے سے کچھ انڈین یوٹیوبرز نے بھی ویڈیوز بنا کر ہندی میں ایمانداری سے خلاصہ پیش کِیا ہے۔
اصل کہانی نجیب کے ایئر پورٹ پر اترنے، کمپنی کیطرف سے
ریسیو نہ کرنے اور پھر ایک بدو کے ہتھے چڑھ کر 5 سال تک اس کی غلامی میں بِتانے تک فلم کیمطابق بھی درست ہے۔
مگر جہاں آکے بد دیانتی کی گئی وہ نجیب کے فرار والے مقام سے شروع ہوتی ہے۔۔۔ حقیقت میں نجیب کے ہاتھوں اس بدو کا قتل سرزد ہو جاتا ہے۔۔ہاتھا پائی کے دوران نجیب کے ہاتھ ایک لوہے کی سلاخ یا سریا لگ جاتا ہے، جسکی ضرب سے وہ عربی مر جاتا ہے۔۔
اس عربی کے بیٹے نجیب کیخلاف fir درج کرواتے ہیں۔۔نجیب گرفتار ہوتا ہے۔۔مقدمہ چلتا ہے قاضی نجیب کو پانچ سال قید کی سزا سنا دیتا ہے۔(شاید بعداز قید کے سزائے موت بھی) اور ایک لاکھ ستر ہزار ریال دیت بھی مقرر کر دی جاتی ہے اگر ورثا اسکے بدلے معاف کرنا چاہیں۔
بہرحال اُس زمانے میں انٹرنیٹ جیسی سہولت تو نہیں تھی۔۔ پھر بھی یہ خبر پوری کہانی کیساتھ سعودی عوام الناس تک پہنچی، عوام اس پردیسی کے متعلق سب جان کر بےحد رنجیدہ ہوئے انہوں نے نجیب کے حق میں ایک مہم شروع کی ۔۔ یاد رہے تب نجیب، نجیب نہیں تھا بلکہ ایک ہندو تھا کسی ہندو مذہب کے نام سے۔۔۔ تو لوگوں نے نجیب کیلئے ایک لاکھ ستر ہزار کی رقم جمع کرنا شروع کر دی جو آج کیطرح آسان نہیں تھا۔۔ایک ایک جگہ اور آدمی کے پاس جانا پڑتا۔۔ بالآخر کرتے کرتے مطلوبہ رقم جمع کر لی گئی۔۔لوگوں نے اس مقتول عربی کے بیٹوں سے رقم دینے کیلئے رابطہ کیا اور ساتھ یہ بھی گوشگزار کیا کہ اگرچہ اس کے ہاتھوں آپکے والد کی جان گئی مگر آپ منصفانہ سوچیں تو یہ اس نے اپنے دفاع میں کیا اور دوسرے یہ کہ اس پردیسی شخص نے اپنی زندگی کے 5 سال آپکے والد کی جبری غلامی میں گزار دیئے تو اسکے ساتھ صلح رحمی والا معاملہ ہونا چاہیئے۔۔۔
چنانچہ مقتول کے بیٹوں نے نجیب کو معاف کرتے ہوئے وہ دیت کی رقم بھی نجیب کو دے دی۔۔۔ کہتے ہیں نجیب نے ان عربی عام عوام جو اسکے لیئے اتنا کچھ کر رہے تھے سے پوچھا کہ آپ سب بھی مسلمان ہیں؟؟ تو انہوں نے کہا ہاں! لوگوں نے اندازہ لگا لیا کہ نجیب یہ کیوں پوچھ رہا ہے تو۔. انہوں نے اس سے کہا کہ دیکھو! اچھے اور برے لوگ مسلمانوں میں بھی ہوتے ہیں، نجیب ان سے بےحد متاثر تھا چنانچی اس نے بھی اسلام قبول کر لیا۔