جانبدارانہ سیاست کے دوررس اثرات
✍️ مولانا عبدالحمید نعمانی
_________________
انصاف و اعتدال کے خلاف جانبدارانہ سیاسی اقدامات اور سرگرمیوں سے مرتب ہونے والے غلط اثرات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جا رہا ہے، سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس محض ایک نعرہ اور جملہ ہو کر رہ گیا ہے، پارٹی سیاست اور جانبداری، اس قدر حاوی ہو گئی ہے کہ اس کے اثرات، راشٹر پتی بھون، اور لوک سبھا، راجیہ سبھا کے اسپیکر پر بھی صاف صاف نظر آ رہے ہیں، راجیہ سبھا کے اسپیکر اور نائب صدر جمہوریہ، جگدیپ دھنکڑ صاحب تو پارلیمنٹ میں تک میں آر ایس ایس کا گن گان کرتے ہوئے اس سے اپنی 25سالہ وابستگی کا کھل کر اظہار کرتے ہیں، یہ اتفاق ہے کہ لوک سبھا، راجیہ سبھا دونوں کے اسپیکر، آر ایس ایس سے وابستگی رکھنے کا پس منظر رکھنے والے ہیں، ان کی جانب داری اور اسپیکر ہوتے ہوئے بھی پارٹی سیاست کے زیر اثر کام کرنے پر پارلیمنٹ کے کئی ارکان نے کھلے، اشارے میں تنقید کی ہے لیکن کچھ وجوہ سے اپنے رویے و روش میں بہتر تبدیلی پر کوئی خاص توجہ نہیں دے رہے ہیں، ملک میں عورتوں/لڑکیوں، بچیوں کے ساتھ ہونے والے بہیمطانہ و وحشیانہ واقعات و سانحات پر عوام و خواص میں شدید ناراضی ایک اچھی علامت ہے لیکن اس سلسلے میں عورتوں/ لڑکیوں کی عصمت دری اور وحشیانہ قتل کے بہت سے واقعات کی ان دیکھی کر کے جانبداری کا رویہ اختیار کرنا، ایک منصفانہ بہتر معاشرے اور غیر جانبدار سیکولر بھارت کی تشکیل میں بڑی رکاوٹ اور ملک کے مستقبل کے بارے میں مایوسی کی راہ ہموار کرتا ہے، صدر جمہوریہ، اور اسپیکر دھنکڑ کے خواتین کے وقار کے تحفظ کے متعلق بیانات پر سلیکٹیو ہونے اور جانبداری کے ساتھ کسی پارٹی کے منتخب سیاسی رویے کے اثرات صاف صاف نظر آتے ہیں، اتر کھنڈ، مدھیہ پردیش، مہا راشٹر، یوپی، بہار، آسام ،راجستھان وغیرہ میں ہونے والے، عصمت دری، قتل، چھیڑخانی کے واقعات کو نظرانداز کر کے صرف مغربی بنگال کی عصمت دری اور قتل کے حوالے اور پس منظر میں اظہار خیال و تبصرے میں جانبداری کی جھلک پائی جاتی ہے، اتر کھنڈ کی انکتا بھنڈاری اور ڈاکٹر تسلیم جہاں کو نظرانداز کرنے پر کئی سارے سوالات کھڑے ہوتے ہیں، ڈاکٹر تسلیم جہاں کا معاملہ، مغربی بنگال کے واقعہ سے کسی طرح سے بھی کم نہیں ہے بلکہ کئی جہات سے زیادہ بھیانک اور بڑھ کر ہے، اس کے متعلق صدر جمہوریہ، اور راجیہ سبھا کے اسپیکر کے علاوہ عدلیہ، سیکولر، غیر سیکولر سیاسی پارٹیوں، مبینہ نیشنل میڈیا حتی کہ معروف سوشل میڈیا اور نیوز پورٹلز کی بے توجہی بھی بہت ہی تعجب خیز ہے انقلاب جیسے اردو اخبار کے سوا دیگر زبانوں کے الیکٹرانک، پرنٹ میڈیا میں ڈاکٹر تسلیم جہاں وغیرہ کے واقعے کا سرے سے کوئی ذکر بھی نظر نہیں ہے، اس کے نا قابل توجہ ہونے کے پس پشت کار فرما اسباب کو جاننے کی بڑی ضرورت ہے، اس سلسلے میں ہمیں اپنی کمیوں پر بھی توجہ دیتے ہوئے ان کو دور کرنا ہوگا، ایسی حالت میں ایک بااثر میڈیا نیٹ ورک قائم کرنے کی ضرورت شدت سے محسوس ہوتی ہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ ملک کے فرقہ وارانہ ماحول اور جانبداری کی آندھی میں ہم ڈاکٹر تسلیم جہاں اور محنت کش عوام خصوصا مسلم اقلیت کے ساتھ سرکاری، غیر سرکاری طور سے ہونے والے نا روا سلوک کے بہت سے واقعات و سانحات کو مین اسٹریم، میڈیا اور سماج کے سامنے لانے میں کامیاب نہیں ہو پاتے ہیں، ہریانہ میں نام نہاد گاؤ رکشکوں کے قاتلانہ حملوں میں بھی اسے دیکھا جا سکتا ہے، مدھیہ پردیش کے اعلی افسر کا یہ کہنا کہ ہمیں صرف مسلمانوں کے مکانوں، دکانوں کو منہدم کرنا ہے سے بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ فرقہ پرستی اور کھلی جانبداری کا زہر ہلاہل کس حد اور کہاں تک سرایت کر گیا ہے، ملک کے مختلف حصوں خصوصا بی جے پی اقتدار والی ریاستوں میں انہدامی کارروائیوں اور مسلم اقلیت کے خلاف کیے جانے والے سرکاری، غیر سرکاری اقدامات میں فرقہ پرستی اورمذموم جانبداری کا کھلی آنکھوں مشاہدہ و نظارہ کیا جا رہا ہے، اس سلسلے میں یوپی، آسام، مدھیہ پردیش اتر کھنڈ، ہریانہ، راجستھان وغیرہ کے وزراء اعلی نے تو ہندو مسلم نفرت انگیز سیاست، فرقہ پرستی اور جانبداری کی حد کر دی ہے، آسام کے وزیر اعلی ہیمنت بسوا سرما کا کھلی جانبداری کو لے کر انتہائی شرم ناک کردار ہے، انھوں نے اسمبلی تک میں یہ کہا کہ ہم جانبداری سے کام لیں گے، آپ کیا کر سکتے ہیں، ان کا یہ زہر آلود ذہن کب پروان چڑھا ہے، اس پر توجہ کی ضرورت ہے، 2015 میں بی جے پی آنے کے ساتھ فرقہ پرستی اور مسلم دشمنی میں خطرناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے، اس پر فی الحال بی جے پی میں سوچنے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا ہے، جب کہ وزیر اعظم مودی نے حال کے کچھ مسلم ممالک کے دورے کے دوران کہا کہ یہاں ہندو، مسلم کس طرح پیار، یگانگت کے ساتھ رہتے ہیں، ہمارے یہاں ہندو مسلم تنازعات کونکراتاہے ، حالاں کہ ان کو اسباب کا علم دیگر سے زیادہ ہے، ہمنت بسوا سرما جیسے لوگ کیا ہندو مسلم میں یگانگت و ہم آہنگی پیدا ہونے دیں گے؟ان کو پتا ہے کہ بی جے پی ،آر ایس ایس کے نعرے سب کا ساتھ ،سب کا وکاس، سب ہندستانیوں کا ڈی این اے ایک ہے کو بے معنی اور عمل سے عاری کون سے عناصر بنا رہے ہیں، ؟ فرقہ پرستی اور کھلی جانبداری نے بھارت اور اس کے سیکولر کردار کو بری طرح مجروح کر کے رکھ دیا ہے، اس صورت حال نے بی جے پی مسلم نام والے افراد اور آر ایس ایس کے مسلم راشٹریہ منچ میں شامل لوگوں کے وجود کو پوری طرح بے فائدہ اور بے معنی کر دیا ہے، وہ بی جے پی اور آر ایس ایس کے لیڈروں، نمائندوں کی ننگی جارحیت، کھلی فرقہ پرستی اور مذموم جانبداری کے خلاف بھی کچھ کہنے سنانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، یہ خاموشی ان کی حیثیت اور پارٹی، تنظیم میں ہونے پر سوالیہ نشان لگاتا ہے، یہ بالکل صاف نظر آتا ہے کہ بی جے پی وزراء اعلی اور وزراء میں ہندوتو کا چمپین بننے میں ہوڑ لگی ہوئی ہے اور ان میں زبردست مقابلہ آرائی ہو رہی ہے مذکورہ وزراء اعلی اور گری راج سنگھ جیسے بی جے پی لیڈروں کے گفتار و کردار سے ایسا بالکل نہیں لگتا ہے کہ وہ عوام کے نمائندے اور ذمےداری کے منصب پر فائز ہیں، وہ یک طرفہ طور سے کھلی جانبداری کے ساتھ فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے اور فرقہ پرست طاقتوں کی پشت پناہی میں پوری مستعدی سے لگے ہوئے ہیں، وہ اپوزیشن پارٹیوں سے بھی ایشوز پر اظہار خیال کے بجائے مسلمانوں کے تناظر اور پس منظر کے ساتھ باتیں کرتے نظر آتے ہیں، تادیبی کارروائیوں کے نام پر بھی یک طرفہ طور سے انہدام اور گرفتاریاں کی جاتی ہیں، ایسا تباہ کن، غیر آئینی، غیر انسانی اقدامات پر نہ تو بی جے پی کی مرکزی قیادت کی طرف سے کوئی روک ٹوک ہے اور نہ آر ایس ایس اور صدر جمہوریہ، نائب صدر جمہوریہ وغیرہ کی طرف سے کوئی اظہار خیال کیا جاتا ہے، دھنکڑ صاحب نے ابھی چند دنوں پہلے دہرادون میں منعقد ایک پروگرام میں خطاب کرتے ہوئے پہلے کی طرح مغربی بنگال کے عصمت دری اور قتل کے واقعے پر سخت قانون بنانے کی طرف توجہ مبذول کرائی لیکن اتر کھنڈ کی ڈاکٹر تسلیم جہاں کے ساتھ ہونے والے وحشیانہ تشدد و سلوک پر بالکل خاموش رہے، اس طرح کے جانبدارانہ رویے سے ملک، بیرون ممالک میں بھارت کی غیر جانبداری کی شبیہ پر منفی اثر مرتب ہوتا ہے ،پارٹی لیڈروں کی طرف سے فرقہ وارانہ اور طبقاتی بھید بھاؤ اور جانبداری کا اظہار کوئی زیادہ تعجب خیز نہیں ہے لیکن صدر جمہوریہ، نائب صدر جمہوریہ اور لوک سبھا، راجیہ سبھا کے اسپیکر گفتار و کردار سے جانبداری اور امتیاز کا اظہار تعجب خیز اور افسوس ناک ہے، کئی دیگر مواقع و واقعات میں جانبداری، بھید بھاؤ اور کسی مخصوص پارٹی کے مقاصد و عزائم کی راہ پر گامزن ہونا، اعلی مناصب کے شایان شان قرار نہیں پا سکتا ہے ،ان کا غیر جانب دار ہونے کے ساتھ غیر جانب دار ہونا نظر بھی آنا بھی چاہیے، ان کی طرف سے اپوزیشن پارٹیوں پر تنقید اور ان کو ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث بتانے سے سماج میں ایک الگ ہی قسم کا پیغام جاتا ہے، آدانی وغیرہ جیسے معاملے پر جانبدارانہ تبصرے کر کے ایک پلڑے میں وزن ڈالنے کا عمل اور منی پور، آسام وغیرہ میں ہونے والے واقعات پر پوری طرح خاموشی سے ملک کے جمہوری نظام اور غیرجانبدارنہ، منصفانہ کردار پر کئی سارے سوالات جنم لیتے ہیں، اس کی طرف حزب اختلاف کے لیڈر، راہل گاندھی نے ایک بہتر طریقے سے توجہ مبذول کرائی ہے، انہدامی کارروائیوں کے خلاف سپریم کورٹ کے تبصرے بھی بہت کچھ بتا رہے ہیں، جانبداری کے سلسلے میں الیکشن کمیشن کے عمل کو بھی رکھا جا سکتا ہے، جمہوری اداروں کے کسی ایک طرف جھکاؤ سے جمہوری منصفانہ نظام پر دوررس اثرات مرتب ہوتے ہیں، بھارت کے منصفانہ سیکولر کو بچانے کی ذمہ داری سب کی ہے،