مولانا کلیم صدیقی ’ قصوروار ‘!
✍️ شکیل رشید ( ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز )
________________
داعی اسلام مولانا کلیم صدیقی اور مبلغ ڈاکٹر عمر گوتم سمیت ۱۴ افراد کو ہندوؤں کا مذہب تبدیل کرانے کا ’ مجرم ‘ قرار دے دیا گیا ہے ۔ لکھنؤمیں ’ این آئی اے – اے ٹی ایس ‘ کی کورٹ نے مذکورہ افراد کو قصور وار قرار دیتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ ’ سزا ‘ بدھ کے روز سُنائی جائے گی ۔ عدالت کے اس فیصلے پر کوئی حیرت نہیں ہے ، کیونکہ استغاثہ نے کچھ اس طرح سے مولانا کلیم صدیقی اور دیگر افراد کے ’ جرائم ‘ عدالت کے سامنے پیش کیے تھے جیسے کہ مولانا اور دیگر افراد ملک کے سارے ہندوؤں کو مسلمان بنانے کے مجرم ہیں ، اور ان پر بالکل ترس نہیں کھانا چاہیے ۔ لہذا عدالت سے کوئی توقع نہیں تھی کہ وہ رحم کا مظاہرہ کرتے ہوئے مولانا اور دیگر کو بری کرتی ۔ سچ تو یہ ہے کہ جب سے اترپردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت میں بی جے پی کی سرکار بنی ہے تبھی سے یہ راگ الاپا جانے لگا ہے کہ مسلمان علماء ہندوؤں کو مسلمان بنانے کی تحریک چھیڑے ہوئے ہیں ، اور کہیں جبراً تو کہیں روپیے پیسے کا لالچ دے کر ہندوؤں کو مسلمان بنایا جا رہا ہے ۔ یو پی کے وزیراعلیٰ یوگی نے باضابطہ تبدیلی مذہب روکنے کا قانون بھی بنایا ہے ، جس میں کوئی غیر مسلم اگر مسلمان بنے تو بڑی جانچ پڑتال سے گزرنا پڑتا ہے ، پھر بھی نجات نہیں ملتی ، اور اگر کوئی مسلمان ہندو بن جائے تو کوئی کارروائی نہیں کی جاتی ہے ۔ یہ مذہبی عصبیت کی ایک بدترین مثال ہے ۔ مذکورہ قانون بننے کے بعد یو پی میں بڑی تعداد میں مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے اور ان کا حوصلہ توڑنے کی کاروائیاں شروع ہوئیں ، جو مسلسل جاری ہیں ۔ ایسے ہی ایک معاملہ میں ۲۰۲۱ ء میں مدرسہ جامعہ امام ولی اللہ پھلت کے چیف مولانا کلیم صدیقی کی گرفتاری ہوئی تھی ۔ گرفتاری کے وقت متعدد حلقوں سے یہ سوال اٹھا تھا کہ کیا یہ گرفتاری سیاسی نہیں ہے ؟ یہ سوال اس لیے بھی تھا کہ یوگی سرکار ، سیاسی مسلم رہنما ہوں یا سماجی اور مذہبی رہنما ، ان لوگوں کو سیاست کے لیے فرضی مقدمات میں پھنساتی رہی ہے ۔ اس کا ایک مقصد یہ بھی تھا اور آج بھی ہے کہ عام مسلمان اس خیال سے ہی خوفزدہ ہو جائیں کہ اگر محمد اعظم خان اور مولانا کلیم صدیقی جیسے سماج کے بڑے سمجھےجانے والوں کو یوگی سرکار جیل بھیج سکتی ہے تو پھر معمولی لوگوں کی کیا حیثیت ہے ۔ مولانا پر غیر ممالک سے فنڈ وصولنے کا الزام بھی عائد کیا گیا تھا ۔ جب حضرت مولانا کی گرفتاری ہوئی تھی تب یو پی اے ٹی ایس نے ان پر عجیب و غریب الزامات عائد کیے تھے ۔ یہ کہا تھا کہ وہ ہندوؤں سے کہتے تھے کہ مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ کرکے اکثریت میں لانا ہے تاکہ اس سرکار پر قبضہ کرسکیں ! کیا اگر کوئی ہندوؤں سے یہ کہے کہ مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ کے لیے وہ مسلمان بن جائیں تو وہ مسلمان بن جائیں گے ؟ یقیناً نہیں ، لیکن یہ الزام لگا اور مولانا و دیگر جیل پہنچے ، مدت تک سلاخوں کے پیچھے رہے ، ضمانت پر باہر آئے ، اور اب مجرم قرار دے دیے گئے ہیں ! گرفتاری کے بعد یہ خبر میڈیا میں تقریباً روزانہ شائع ہوتی تھی کہ مولانا کلیم صدیقی کے پاس چندے کی شکل میں ملک اور بیرون ملک سے موٹی موٹی رقمیں آ رہی ہیں ، تاکہ ان روپیوں سے ہندوؤں کو مسلمان بنایا جائے ۔ یہ الزامات کوئی نئے نہیں ہیں ، پہلے سے مسلم مدارس اور اداروں و شخصیات پر لگتے رہے ہیں ، اور غلط ثابت ہوتے رہے ہیں ۔ اب عدالت کا فیصلہ آگیا ہے ، سزا میں عمر قید بھی ہو سکتی ہے اور دس سال کی بھی سزا ۔ یہ فیصلہ نچلی عدالت کا ہے ، اوپر کی عدالتیں ابھی باقی ہیں ، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے دروازے کھٹکھٹائے جا سکتے ہیں ۔ یہ مقدمہ پوری طاقت کے ساتھ لڑنے کی ضرورت ہے ، تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے ، اور یہ سچ سامنے آ جائے کہ مولانا کلیم صدیقی اور دیگر واقعی قصور وار ہیں یا انہیں پھنسایا گیا ہے ۔ رہی یہ بات کہ اس ملک میں کون سا شخص ہندو سے مسلمان اور مسلمان سے ہندو ہونا چاہتا ہے ، اس کا فیصلہ حکومتیں نہیں کر سکتیں ، فیصلہ تو عام جنتا کو ہی کرنا ہے ۔ اگر لوگوں کو تبدیلیٔ مذہب سے روکنا ہے تو ، ان کے اندر اپنے اپنے مذہب پر مکمل یقین رکھنے کا جذبہ پیدا کرنا ہوگا ، نہ کہ ان پر جبر کرنا ۔