نبی اکرم ﷺ کی عادات اکل و شرب
پیغمبر اسلامؐ کو مفلوک الحال،غریب اور قابل رحم بنا کر پیش نہ کیا جائے
✍️ عبدالغفارصدیقی
_______________
سیرت رسول اکرم ﷺ بیان کرنے والوں نے نبی اکرم ﷺ کی زندگی کو کچھ اس طرح پیش کیا ہے جس سے آپ کی شخصیت ایک غریب،مفلوک الحال،پریشان اور انتہائی قابل رحم شخص کی شکل میں سامنے آتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ آپؐ کے گھر میں چالیس چالیس دن تک چولہا نہیں جلتا تھا،آپؐ کو اکثر فاقوں سے سابقہ پیش آتاتھا،آپؐ کے گھر میں کھانے پینے کی اشیاء کا فقدان تھا۔ایک بار حضرت فاطمہ ؓ نے آدھی روٹی لے جاکر حضور اکرم ؐ کی خدمت میں پیش کی تو آپؐ نے اسے کھاکر فرمایا۔”بیٹی تین دن میں یہ پہلا نوالہ ہے جو منہ میں رکھاہے۔“اس تصویر کو پیش کرنے والوں کے نزدیک ساری دنیا کے سردار،امام الانبیاء اور خاتم النبیین نعوذ باللہ ایک فقیر اور حاجت مند کی سی زندگی گزارتے تھے۔اسی لیے امت مسلمہ میں تصوف سے وابستہ لوگ اچھا کھانا کھانے اور عمدہ لباس پہننے سے گریز کرتے ہیں بلکہ ایسا کرنے کو خلاف تقویٰ شمار کرتے ہیں۔یہ بات سمجھ سے پرے ہے کہ جس ذات کے مالدار ہونے کے بارے میں اللہ کی گواہی ہو:۔”وَ وَجَدَکَ عَآءِلًا فَاَغْنٰی“(الضحیٰ۔ 8)”اور تمہیں حاجت مند پایا پھر غنی کردیا“۔یہاں غنی کا لفظ عائلاً کے مقابل میں استعمال ہوا ہے اس لیے اس کے معنی مالدار کے ہی ہیں۔جس ذات کے اردگرد ایسے جاں نثاروں کا ازدحام ہو،جو آپ ؐ کے ایک اشارے میں اپنا سب کچھ قربان کردینے کو تیار ہوں،جہاں حضرت عثمان ؓ جیسے کروڑ پتی موجود ہوں،جہاں عبدالرحمان بن عوف ؓ ہوں جن کا لقب ہی تاجرالرحمان تھا، جہاں حضرت زبیر رضی اللہ عنہ جیسے غنی پائے جاتے ہوں، جن کے متعلق بخاری کی روایت ہے کہ ۵ کروڑ سے زائد مالیت کی جائیداد چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوئے۔(کتاب الجہاد بخاری شریف)وہاں یہ کیسے ممکن ہے کہ حضور اکرم ﷺ تین تین دن تک کچھ نہ کھائیں،تین دن رات کوئی معمولی وقفہ نہیں ہے۔یہ بھی ممکن نہیں کہ سایہ کی طرح ساتھ رہنے والے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو آپ کے فاقوں کا علم نہ ہو۔اندازہ ہوتا ہے کہ دنیاکے بیشتر مذاہب میں چونکہ فاقہ کشی،اور جسم کو تکلیف دینے کو عبادت سمجھاجاتا ہے اور اسے قرب الٰہی کی ضمانت خیال کیا جاتا ہے اسی سے متاثر ہوکر اہل اسلام نے بھی اپنے پیغمبر کی صورت اس طرح پیش کردی ہو۔مگر اس تصور سے یہ نقصان ہوا کہ امت مسلمہ نے دنیاوی سہولیات سے استفادے کو خلاف تقویٰ خیال کیا۔لذیذ کھانا کھانے،عمدہ لباس پہننے،کار کی سواری کرنے،گھروں میں اے سی لگوانے وغیرہ کو خلاف شرع گردانا اور ایسا کرنے والوں کے تقویٰ ہی نہیں ایمان و اسلام کی معتبریت پر اشکالات وارد کیے۔
میں اس بات سے انکار نہیں کرتا کہ آپ کی تئیس سالہ نبوی زندگی میں کبھی کوئی فاقہ نہ ہوا ہو،یا آپ معاشی تنگی کا شکار نہ ہوئے ہوں،لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ایسے واقعات اکا دکا ہی ہیں اور یہ اکادکا واقعات بھی اختیاری ہیں۔ورنہ آپؐ اشارہ فرمادیں تو آسمان سے من و سلویٰ سے بھی قیمتی اور لذیذ غذاؤں کی برسات ہوجاتی۔آپ ؐ نے جان بوجھ کر فاقہ اس لیے کیا کہ آپؐ تمام انسانوں کے لیے اسوہ تھے۔ اس لیے سماج کے غرباء اور تنگ دست افراد بھی آپؐ کی زندگی کے فاقوں سے خود کو مطمئن کرسکتے تھے۔ آپ ؐ بہت زیادہ سخی تھے،دنیا میں کوئی انسان آپ سے زیادہ فیاض نہیں تھا۔اس لیے آپ کے پاس جو کچھ ہوتا وہ سائل کو دے دیتے تھے،آپ قناعت پسند تھے اس لیے جو زائد ہوتا اسے گھر میں نہ رکھ کر ضرورت مندوں میں تقسیم فرمادیتے، آپ ؐ کے ساتھ اصحاب صفہ کی ایک بڑی تعداد تھی اس لیے ان کی کفالت پر خرچ کردیتے۔ آپ پوری زندگی حالت جنگ میں رہے اس لیے بھی آپ نے اپنے سرمائے کو جنگی ضرورتوں اور شہداء کے ورثاء پر صرف کرنے کو ترجیح دی۔ظاہر ہے ان حالات و وجوہ کی موجودگی میں کوئی نبی کس طرح پرتعیش زندگی گزار سکتا ہے۔ اکل و شرب کے باب میں جن روایات میں آپ کے پیٹ بھر کر نہ کھانے کا ذکر ہے تو اس سے مراد قلت طعام(کم کھانا)ہے،یہی آپ ؐ کی تعلیم بھی ہے کہ پیٹ کے تین حصے کرلیے جائیں،ایک کھانے کے لیے،ایک پانی کے لیے اور ایک تنفس کے لیے۔
کھجور،پنیر،بکری اور اونٹنی کا تازہ دودھ،انجیر اور زیتون اس زمانے کی معروف غذائیں تھیں۔جن کا استعمال آپ ؐ کثرت سے فرماتے تھے نیز ان غذاؤں کے استعمال میں چولہا جلانے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔اس کے علاوہ بکری اور اونٹ کا گوشت اس علاقہ میں عام تھا۔مکہ میں سبزیوں کا نام و نشان تک نہ تھا،مدینہ میں بھی باہر سے ہی سبزیاں آتی تھیں۔اوراق سیرت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کے دستر خوان پر بکری کا گوشت ہوتا تھا جسے آپ شوق سے سے کھاتے تھے۔بکری کے حصہ ئ دست کی پسنددیگی کا ذکر کتب حدیث میں پایا جاتا ہے۔سبزیوں میں کدو اورلوکی آپ کو پسند تھے۔وادی غیر ذی ذرع میں گیہوں نہیں پایا جاتا تھا اس کے بجائے جو کا استعمال ہوتا تھا البتہ گندم یمامہ اور دیگر شہروں سے پہنچتا تھا،مکہ کے متمول حضرات گیہوں کا ستعمال کرتے تھے،نبی اکرم ﷺ سے بھی گیہوں کے استعمال کی روایات ملتی ہیں۔اکثر ایسا بھی ہوتا کہ آپ گوشت کو بغیر روٹی کے تناول فرماتے۔چھری سے کاٹ کر کھانے کا ذکر بھی احادیث میں ملتا ہے۔دعوتوں کا اہتمام بھی آپ فرماتے اور مہمانوں کو گوشت روٹی کھلاتے تھے۔آپ کے لیے بھی صحابہ کرام بکری ذبح کرتے اور اسے بھون کر آپ کی خدمت میں پیش کرتے۔عرب میں بکریاں تقریباًہر گھر میں پائی جاتی تھیں۔بعض لوگوں کے بڑے بڑے باڑے تھے،جن کے باڑے نہ تھے وہ دوچار بکریاں پالتے تھے۔خود نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک سو بکریاں تھیں۔ان بکریوں سے دودھ اور گوشت دونوں حاصل ہوتا تھا۔آپ خود ہی اندازہ لگائیے کہ جس ذات کے پاس سو بکریاں ہوں تواس کے یہاں فاقوں کی نوبت کیوں کر آئے گی۔بکرے اور اونٹ کے علاوہ کتب حدیث میں بھیڑ،گائے،ہرن،مچھلی،گھوڑا اورخرگوش کاگوشت کھانے کے بھی واقعات موجود ہیں۔پرندوں کے ذیل میں بٹیر(ضب)،ٹدی(جراد)،چڑیا(طیر) وغیرہ کے کھانے کے واقعات پائے جاتے ہیں۔آپؐ کے کھانوں میں ثرید لحمی اور ثرید غیر لحمی،حریسہ،حریرہ،تلبینہ،گھی اور مکھن کا ذکر کثرت سے ملتا ہے۔
عام طور پر اس وقت کے معاشرے میں گھروں میں کھانا بنانے کا رواج تھا۔لیکن بوقت ضرورت خباز(نان بائی) مردو خواتین کی خدمات بھی حاصل کی جاتی تھیں،آپ ؐ نے بھی ایک دعوت کے موقع پر روٹی پکانے والی خاتون کو بلایا تھا۔میٹھے کھانوں میں کھجور اور شہد عام تھے،دوسری چیزیں بھی ان دونوں حلویات پر مشمل ہوتی تھیں۔پینے کی اشیاء میں سب سے زیادہ پانی استعمال فرماتے،پانی کے علاوہ پھلوں کے مشروب بھی آپ استعمال فرماتے،ستو اور شہد کا شربت،دودھ کی لسی اور نبیذ وغیرہ بھی آپ کے مشروبات تھے۔دور نبوی میں ہوٹل،ریسٹورینٹ اور حلوائی کی دوکانوں یا آج کل کی طرح ڈبہ بند بسکٹ اور نمکین کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔اس لیے اس وقت بطور غذا استعمال ہونے والی ڈشیز گھروں میں ہی تیار کی جاتی تھیں۔نبی اکرم ؐ کے اوقات طعام دو ہی تھے،ایک دوپہرسے پہلے اوردوسرا رات کو مغرب کے بعد۔جمعہ کے دن آپؐ کا معمول تھا کہ بعد نماز جمعہ کھانا تناول فرماتے تھے۔عام طور پر آپ ؐ سے ملاقات کے اوقات بھی دو ہی تھے ایک سورج کی گرمی بڑھنے سے قبل اور دوسرا سورج ڈھلنے کے بعد۔ملاقات کے لیے آنے والے وفود کی آپؐ ضیافت فرماتے اور ان کے ساتھ خود بھی ماحضر تناول فرمالیتے۔
دور نبوی میں دعوتوں کا اہتمام اس کثرت سے پایا جاتا ہے کہ سیرت کا ایک طالب علم یہ سوچتا ہے کہ وہاں اوسطاً ہر ہفتہ دعوت ہوتی رہی ہوگی۔ آپ ؐ خود بھی اپنے صحابہ کی دعوت کرتے،آپؐ نے جو نکاح کیے ان پر ولیمہ کا اہتمام کیا،آنے والے وفود کی ضیافت میں دعوت کا نظم کیا،اصحاب صفہ کی دعوتیں کی۔اسی طرح آپ ؐ کے اصحاب بھی آپ ؐ کی دعوتیں کرتے رہتے تھے۔کبھی ایسا بھی ہوتا کہ آپؐ اپنے اصحابؓ کے ساتھ کسی رفیق کے گھر چلے جاتے اور وہ آپ سب کے لیے کھانے کا نظم کرتے۔امہات المومنین کے گھروں میں بھی دعوتوں کا سلسلہ رہتا۔کبھی ایسا بھی ہوتا کہ آپ ؐ کے ساتھی اپنے گھروں سے خوردنی اشیاء لے آتے اور اجتماعی کھانے کا اہتمام ہوتا۔عیدین،ولیمہ اورعقیقہ کے مواقع پر بھی دعوتوں کا نظم کیا جاتا۔ اس کے علاوہ غم کے موقع پر اہل خانہ و متعلقین کے لیے کھانے کا نظم کیا جاتا۔آپ ؐ نے اپنے گھر میں کھانا تیار کراکے ان لوگوں کو بھیجا جن کے یہاں کوئی موت یا حادثہ ہوگیاہو اور اس کی تاکید آپ نے صحابہ کرام ؓ کو بھی فرمائی۔دعوتوں اور اجتماعی کھانوں کے علاوہ آپ ؐ کی خدمت میں بطور تحفہ بھی کھانا پیش کیا جاتا۔حضرت سعد بن عبادہؓ روزانہ ایک وقت کھانے کا ایک بڑا پیالہ حضور اکرم ؐ کی خدمت میں بھیجا کرتے تھے۔ان کے علاوہ سعد بن معاذؓ،عمارہ ابن حزم ؓاور ابوایوب انصاری ؓ کے یہاں سے ہدایائے طعام کثرت سے آتے تھے۔یہ اصحاب آپ ؐ کے ہمسایہ بھی تھے۔حضرت ابوبکر ؓ کا معمول تھا کہ وہ روزانہ رات کا کھانا آپ ؐ کے ساتھ تناول فرماتے،اگر ان کے گھر مہمان بھی ہوتے تب بھی وہ ناغہ نہ کرتے تھے۔مالدار اصحاب ؓ زیادہ کھانا بناکر بطور ہدیہ دوسروں کے یہاں بھیجتے۔سعید بن العاص اموی ؓ روزانہ ایک اونٹ ذبح کرتے اور اس کا گوشت پکاکر لوگوں کو کھلاتے۔
مندرجہ بالا اشارات (تفصیل کے لیے عہد نبوی ؐ کا تمدن از پروفیسر یاسین مظہر صدیقی کا مطالعہ مفید ہوگا)کا خلاصہ یہ ہے کہ رسالت مآب ﷺ کھانا کھاتے تھے،جس میں گوشت،کھجور اور دودھ کااستعمال زیادہ تھا۔آپ ؐ یا اہل بیت کا فاقہ اختیاری تھا۔اس لیے آپؐ کی امت بھی لذیذ کھانوں اور مشروبات سے لطف اندوز ہوسکتی ہے۔اس سلسلہ میں اسلام کی ہدایات طعام کا خیال رکھنا ضروری ہے،جس کے تحت ایک مومن صرف حلال غذا ہی استعمال کرسکتا ہے،حسب استطاعت اپنے دستر خوان پر نعمت الٰہی کو سجا سکتا ہے البتہ اسے یہ خیال ضرور رہنا چاہئے کہ اس کے ہمسائے بھوکے نہ ہوں۔کھانوں اور دعوتوں میں فضول خرچی گناہ ہے۔ایک مومن کو چاہئے کہ وہ اپنے حالات،گردو پیش کے کوائف،انسانوں کی حاجات اور امت مسلمہ کی اجتماعی ضروریات کے پیش نظر اپنے دسترخوان کا مینو بنائے۔فضل الٰہی کی کثرت کے باوجود اچھا کھانانہ کھانا اور ضرورت مندوں،رشتہ داروں اور دوستوں کو نہ کھلانا کفران نعمت ہے۔حضرت عبداللہ بن عمروبن العاصؓ کہتے ہیں کہ رسول اکرم ؐ نے فرمایا:۔”اللہ اپنے بندے پر اپنی نعمت کا اثر دیکھنا چاہتا ہے۔“ (ترمذی)