۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

مخدوم شیخ سعد الدین خیرآبادی قدس سرہٗ: أحوال و آثار

مخدوم شیخ سعد الدین خیرآبادی قدس سرہٗ: أحوال و آثار

✍️محمد شہباز عالم مصباحی

سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی

کوچ بہار، مغربی بنگال

___________________

مخدوم شیخ سعد الدین خیرآبادی قدس سرہٗ کا شمار پندرہویں اور سولہویں صدی عیسوی کے نامور علما اور مشائخ میں ہوتا ہے۔ آپ کی علمی و روحانی عظمت کا اعتراف بڑے بڑے علما و مشائخ نے کیا ہے۔ آپ کی پیدائش 814ھ کے قریب ہوئی اور آپ کا پورا نام قطب العالم حضرت مخدوم شیخ سعد الدین بن قاضی بڈھن اناوی خیرآبادی قدس سرہٗما تھا۔ آپ کا تعلق اناؤ (اتر پردیش) سے تھا اور اپنے دور کے بڑے جید عالم دین اور صوفی بزرگ تھے۔ آپ کے والد محترم، قاضی بڈھن بھی عالم دین تھے اور قضا کے منصب پر فائز تھے۔

خاندانی پس منظر:

مخدوم شیخ سعد الدین خیرآبادی ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد گرامی کا نام مکرم تھا، البتہ وہ اپنے عرفی نام "بڈھن” سے مشہور تھے۔ اس بات کی تصدیق آپ کی تصنیف "شرح اشعار لباب الاعراب” کے دیباچے سے ہوتی ہے، جہاں آپ نے اپنے والد کا ذکر مکرم المعروف قاضی بڈھن کے نام سے کیا ہے۔ آپ کے والد کا مزار مبارک اناؤ ریلوے اسٹیشن کے قریب واقع ہے، جو آج بھی زائرین اور عقیدت مندوں کے لیے ایک مقدس زیارت گاہ ہے۔

علمی مقام و مرتبہ:

مخدوم شیخ سعد الدین خیرآبادی علوم ظاہری و باطنی دونوں میں یکتائے زمانہ تھے۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب "اخبار الاخیار” میں آپ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ شیخ مینا کے مرید تھے اور شریعت و طریقت کے محافظ، بلند ہمت اور زہد و تقویٰ کی اعلیٰ مثال تھے۔ آپ کے بارے میں مزید بیان کیا کہ آپ ترک و تجرید کی کیفیت میں رہتے تھے، یعنی دنیاوی زندگی سے کنارہ کشی اختیار کیے ہوئے تھے، اور اپنے پیر و مرشد شیخ مینا کی طرح مجرد، یعنی غیر شادی شدہ زندگی گزارتے تھے۔

آپ علوم شریعت و طریقت دونوں کے بڑے عالم تھے۔ آپ کی علمیت کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ علامہ غلام علی آزاد بلگرامی فرماتے ہیں کہ آپ نے اپنے مرشد کے طریقے پر زندگی گزاری اور سالہا سال تک تدریس و ارشاد کی مسند کو زینت بخشی۔ آپ کی تصانیف میں مختلف علوم و فنون کی شرحیں شامل ہیں جو آج بھی علمی دنیا میں مشعل راہ ہیں۔

تصانیف:

مخدوم شیخ سعد الدین خیرآبادی کی علمی میراث ان کی بے شمار کتب و تصانیف میں جھلکتی ہے۔ آپ نے اصول فقہ، علم نحو، اور علم تصوف پر کئی اہم کتابیں تحریر کیں۔ ان میں سے چند مشہور تصانیف درج ذیل ہیں:

  • 1. شرح اصول بزدوی: یہ امام فخر الاسلام بزدوی کی مشہور کتاب اصول فقہ کی شرح ہے۔
  • 2. شرح ارشاد النحو: علامہ شہاب الدین دولت آبادی کے متن نحو کی شرح ہے۔
  • 3. شرح حسامی: امام حسام الدین اخسیکثی کے رسالہ اصول فقہ کی شرح ہے۔
  • 4. شرح مصباح: علم نحو میں علامہ عبد القاہر جرجانی کے رسالہ المصباح کی شرح ہے۔
  • 5. شرح لباب الاعراب: یہ کتاب علم نحو کی مہتم بالشان تصنیف ہے اور اسے آپ نے اپنے بھتیجے شیخ محمود کے لیے تحریر فرمایا تھا۔
  • 6. مجمع السلوک: یہ ایک ضخیم کتاب ہے جو تصوف میں شیخ قطب الدین دمشقی کے رسالہ مکیہ کی شرح ہے اور اس میں آپ نے اپنے مرشد شیخ مینا کے ملفوظات و احوال بھی درج کیے ہیں۔

مظہرِ امام احمد بن حنبل:

قاضی ارتضا علی خان گوپاموی لکھتے ہیں کہ آپ کو علوم شرعیہ میں اتنا تبحر حاصل تھا کہ ایک مرتبہ ایک عارف نے عالم خواب میں حضور ﷺ سے سوال کیا کہ شیخ سعد کا علما میں کیا مرتبہ ہے؟ حضور ﷺ نے فرمایا کہ شیخ سعد اجتہاد میں امام احمد بن حنبل کے مرتبے پر فائز ہیں۔

خدمت خلق اور جود و سخا:

مخدوم شیخ سعد الدین کی خانقاہ ایک مرکز فیض تھی جہاں علم کے پیاسے، بھوکے اور مسکین اپنے دکھوں کا مداوا پاتے تھے۔ آپ کی سخاوت اور خدمت خلق کا یہ عالم تھا کہ آپ کے لنگر میں روزانہ چودہ پندرہ من آٹا استعمال ہوتا تھا، جو صوفیوں، قوالوں، طلبہ اور مسافروں کے لیے خرچ ہوتا تھا۔ آپ کے مطبخ میں ہمہ وقت ضرورت مندوں کے لیے کھانا فراہم ہوتا، اور اگر کبھی آپ کے پاس کچھ نہ ہوتا تو تاجروں سے قرض لے کر ان کی ضرورت پوری کرتے۔

ذوقِ سماع اور شاعری:

مخدوم شیخ سعد الدین خیرآبادی ایک صاحب حال صوفی بزرگ تھے۔ آپ کو وجد و سماع سے گہری محبت تھی۔ آپ کے اشعار میں عشق حقیقی کی جھلک نظر آتی ہے اور آپ کا کلام عشق و عرفان کی معراج کو چھوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔

آپ کا مشہور کلام جو آج بھی محافل سماع میں بڑے ذوق و شوق سے پڑھا جاتا ہے، حسب ذیل ہے:

نشان بر تختۂ ہستی نبود از عالم و آدم
کہ دل در مکتبِ عشق از تمنای تو می بردم
برو ای عقلِ نامحرم کہ امشب با خیالِ او
چنان خوش خلوتی دارم کہ من ہم نیستم محرم
کہ دارد این چنین عیشی کہ در عشق تو من دارم
شرابم خون، کبابم دل، ندیمم درد، نُقلم غم
اگر پرسند سعد از عشق او حاصل چہا داری
ملامت ہای گوناگون، جراحت ہای بی مرہم

(۱)صفحۂ ہستی پر جب عالم و آدم کا وجود بھی نہیں تھا،اس وقت سے دل مکتب عشق میں تیرا شیدائی ہے۔
(۲)اے عقل نامحرم! آج تو دفع ہوجا، کیوں کہ آج کی رات اس کے خیال میں مجھے ایسی خلوت در پیش ہے کہ اس میں میں خود بھی محرم نہیں ہوں۔
(۳)تیرے عشق میں جو عیش زندگی مجھے حاصل ہے، وہ بھلا اور کس کو حاصل ہوگا، میرا خون شراب بن چکا ہے، دل کباب کی صورت میں ہے ، درد میرا ہمدم ہے اور غم میری خوراک ہے۔
(۴)اگر لوگ پوچھیں کہ سعد! اس کے عشق میں حاصل کیا ہوا؟ تو میں جواب دوں گا: دنیا بھر کی ملامتیں اور ایسے کاری زخم جن کا کوئی مرہم نہیں ہے۔

اس کلام میں آپ عشق حقیقی کی ایسی معراج بیان کرتے ہیں کہ دنیا و مافیہا کی چاہت مٹ جاتی ہے اور انسان صرف محبوب حقیقی کی طلب میں غرق ہوجاتا ہے۔

خلفاء:

مخدوم صاحب ایک باکمال مرشدو مربی بھی تھے۔ خلق خدا کی بڑی تعداد آپ سے فیض یاب ہوئی۔میر صاحب نے سبع سنابل میں ذکر کیا ہے:
’’ مخدوم- قَدَّسَ اللهُ رُوحَه -خلفا بسیار داشت وجملہ خلفاے او دانشمندانند، وبعضی دانشمند وحافظ ہم بودند۔‘‘( )
ترجمہ: مخدوم صاحب -قُدِّسَ سِرُّه- کے بکثرت خلفا تھے اور آپ کے تمام خلفا عالم ودانش مند تھے اور بعض دانش مند اور حافظ دونوں تھے۔
آپ کے مشہور خلفا میں سے چند کے نام درج ذیل ہیں:
شیخ محمود بلخی، شیخ مبارک لکھنوی،شیخ ملک حسین آبادی، قاضی محمد من اللہ کاکوروی، شیخ ملک شمس آبادی، شیخ چاند، قاضی راجہ میاں خیرآبادی، شیخ سکندر نصراللہ خیرآبادی، قاضی بڈھ عماد بلگرامی، شیخ ابراہیم بھوج پوری، شیخ ابراہیم راجو، شیخ عبد الصمد عرف مخدوم صفی سائیں پوری [صفی پوری] رَحِمَهُمُ اللهُ أَجْمَعِیْن۔

وفات اور مزار:

حضرت مخدوم شیخ سعد الدین خیرآبادی رحمۃ اللہ علیہ کا وصال **922ھ** (1516ء) میں ہوا۔ آپ کا مزار پُر انوار خیرآباد میں واقع ہے۔ آپ کا مزار آج بھی اہل عقیدت کے لیے مرجع خلائق ہے اور آپ کی یاد ہمیشہ دلوں میں زندہ ہے۔ آپ کی علمی، روحانی اور سماجی خدمات کا فیض آج بھی جاری و ساری ہے۔

مخدوم شیخ سعد الدین خیرآبادی کا شمار ان بزرگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی زندگی علم و عرفان کی روشنی پھیلانے اور انسانیت کی خدمت میں بسر کی۔ آپ کی علمی خدمات، صوفیانہ تعلیمات اور خدمت خلق کے کارنامے تاریخ میں ہمیشہ روشن رہیں گے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: