وقف بل کے خلاف مہم:چند وضاحتیں
✍️محمد نصر الله ندوی
__________________
وقف ترمیمی بل کے خلاف زور شور سے مہم جاری ہے،ملت سے ہمدردی رکھنے والے افراد بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لے رہے ہیں اور لوگوں کو اس پر آمادہ کر رہے ہیں،کچھ دیوانے گلی کوچوں میں گھوم رہے ہیں اور گھر گھر اس پیغام کو پہنچانے کی سعی مسلسل کر رہے ہیں،اس سلسلہ میں دلی کے ایک امام کا ویڈیو سوشل میڈیا پر بہت وائرل ہورہا ہے،جس میں امام صاحب پیدل بازار میں گھوم رہے ہیں اور مائک کے ذریعہ لوگوں کو اپنی رائے دینے کی اپیل کر رہے ہیں،وہ بڑے درد کے ساتھ کہ رہے ہیں کہ وقف بل دراصل ہماری مسجدوں کو ہم سے چھیننے کیلئے لایا گیا ہے،یہ ویڈیو اتنا وائرل ہوا کہ خود مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور کرن رجیجو (جنہوں نے وقف بل کا ڈرافٹ تیار کیا ہے اور پارلیمنٹ میں پیش کیا)نے ایکس پر اس کو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ وقف بل کے بارے میں مسلمانوں کو گمراہ کیا جارہا ہے کہ اس بل کے ذریعہ ان کی مساجد کو نشانہ بنایا جائے گا،وزیر موصوف کی پریشانی بالکل بجا ہے ،اس لئے کہ وائرل ویڈیو نے ان کے جھوٹ کی پول کھول کر رکھ دی ہے،انہوں نے پارلمنٹ میں بل پیش کرتے ہوئے کئی جھوٹ بولے ،مثلا انہوں نے کہا کہ یہ بل مسلمانوں کے مطالبہ پر لایا گیا ہے،اب جب کہ سارے مسلمان یک طرفہ طور پر اس کو ریجیکٹ کرنے کی مانگ کر رہے ہیں ،تو وزیر موصوف کا جھوٹ زمیں بوس ہوتا ہوا نظر آرہا ہے،اس لئے ان کی کھسیاہٹ بالکل فطری بات ہے۔
یہ بل ابھی جے پی سی کے پاس زیر غور ہے،اس نے اس پر عوام کی رائے مانگی ہے،عوام میں برادران و طن بھی شامل ہیں،اس لئے ان کو بھی رائے دینے کا حق ہے،سوشل میڈیا کے کچھ لکھاری اس پر چراغ پا ہیں کہ غیر مسلموں سے رائے کیوں لی جارہی ہے،جب کہ یہ مسئلہ خالص مسلمانوں کا ہے،اس پر مسلم پرسنل لا کو اعتراض کرنا چاہئے،وغیرہ وغیرہ،معلوم ہونا چاہئے کہ جے پی سی ایک خود مختار کمیٹی ہے،اس کو کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے،وہ پرسنل لا بورڈ سے پوچھ کر نہیں کرے گا،یہ اعتراض پرسنل لا بورڈ کو نہیں ،جے پی سی کے مسلم ارکان کو کرنا چاہئے ،جو ہر میٹنگ میں شامل ہوتے ہیں۔
دوسری بات یہ کہ رائے لینے کا مطلب ووٹنگ نہیں ہے،کہ غیر مسلموں کی رائے اگر زیادہ ہوگئی تو بس الیکشن کے رزلٹ کی طرح اکثریت کے مطابق فیصلہ کردیا جائے گا،یہ صرف مسئلہ کو الجھانے کی ایک چال ہے،ابھی اس بل پر کئی مرحلے آئیں گے اور فائنل فیصلہ کیا ہوگا،کسی کو نہیں معلوم ،ابھی رائے عامہ کو ہموار کرنے کی لڑائی چل رہی ہے،حکومت نے اس بل کے جواز کیلئے یہ دلیل پیش کی کہ یہ مسلمانوں کا مطالبہ تھا، لیکن اب اس دلیل کی ہوا نکلتی نظر آرہی ہے،آئندہ جب یہ بل سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا،تو وہاں بھی یہ دلیل دی جاسکتی ہے کہ ،یہ مسئلہ خالص مسلمانوں کا ہے،اور سارے مسلمان اس بل کے خلاف ہیں،لہذا اسے کالعدم کیا جائے۔
جب مسلمان بڑی تعداد میں اس بل کے خلاف رائے دیں گے،تو ان پارٹیوں پر سخت دباؤ بنے گا،جو مسلمانوں کا ووٹ لیتی ہیں اور بل کی حمایت کرنے سے پہلے وہ سوبار سوچیں گی،نتیجہ یہ ہوگا کہ یہ بل پارلیمنٹ سے منظور نہیں ہوسکے گا،اسی طرح ان پارٹیوں کے اراکین جو جے پی سی میں شامل ہیں،ڈنکے کی چوٹ پر یہ کہ سکتے ہیں کہ جب مسلمان خود نہیں چاہتے تو آپ یہ بل کیوں لا رہے ہیں،اور اس طرح کی خبریں سننے میں بھی آرہی ہیں،ذرائع کے مطابق اس موضوع پر عام آدمی کے سنجے سنگھ اور بی جے پی کے ارکان کے درمیان میٹنگ میں تیکھی بحث ہوئی اور سنجے سنگھ کے اعتراض پر وہ بغلیں جھانکتے نظر آئے،یعنی مسلمانوں کی بیداری کے نتیجہ میں حکومت بیک فٹ پر نظر آرہی ہے اور اس کے حمایتی دن گزرنے کے ساتھ کم ہوتے جارہے ہیں،یہ مسلمانوں کی اخلاقی جیت ہےاور آئندہ بھی اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے،ایک جمہوری ملک میں لڑائی کے یہی سب طریقے ہوتے ہیں،ہماری ملی قیادت اس وقت ان تمام ذرائع کو اختیار کر رہی ہے،جو ایک جمہوری ملک میں رہتے ہوئے ممکن ہیں،مسلم پرسنل لا بورڈ کے وفد نے سیاسی رہنماؤں سے ملاقات کی ہے اور بل کی خامیوں کو ان کے سامنے اجاگر کیا ہے۔
لیکن مسلمانوں کا وہ طبقہ جو انتہا پسند ہے،اور جس کا کام ہی دن رات ملی قیادت کو برا بھلا کہنا اور ان مسلمانوں کو گالی دینا ہے،جو سیکولر پارٹیوں کے ذریعہ ہی بی جے پی کو کمزور کرنا چاہتے ہیں،اس طبقہ کو آخر یہ سب کچھ کیسے راس آسکتا ہے؟
دلچسپ بات یہ ہے کہ وقف بل کے مسئلہ میں وہ طبقہ کہتا ہے کہ 80 اور 20 میں ووٹنگ کیسے کرائی جا سکتی ہے؟لیکن الیکشن میں وہ اسی فارمولہ کو اپنانے کی بات کرتا ہے،آخر اس سے کوئی پوچھے کہ ہندوستان جیسے ملک میں 80 اور 20 کی بنیاد پر مقابلہ ہوگا تو مسلمانوں کی کیسے فتح ہوسکتی ہے؟یہ تو کھلا تضاد ہے کہ آپ اپنی سہولت کے حساب سے narrative بنائیں اور خود اس پر قائم نہ رہ سکیں۔
بعض لوگ وقف بل کو تین طلاق کے مسئلہ سے تشبیہ دے رہے ہیں ،کہ جس طرح اس وقت مسلمانوں نے کروڑوں کی تعداد میں لا کمیشن کو اپنی رائے بھیجی ،لیکن پھر بھی فیصلہ ہمارے خلاف آیا؟یہ سراسر ناواقفیت اورکم علمی کی دلیل ہے،تین طلاق کے مسئلہ میں خود سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت سے قانون بنانے کیلئے کہا تھا،چنانچہ حکومت نے اس موقع کو کیش کرالیا اور آنا فانا قانون بنادیا،چونکہ سپریم کورٹ کا اشارہ تھا،اس لئے مسلمانوں کو وہاں بھی شکست ہوئی،لیکن یہاں تو سپریم کورٹ نے کچھ کہا ہی نہیں ہے،حکومت خود اچھل رہی ہے،اس لئے سپریم کورٹ اس بل پر روک لگا سکتی ہے،یہ دونوں مسئلوں میں بنیادی فرق ہے،جس کو سمجھنا ضروری ہے۔