جشن میلاد النبی ﷺ کے حوالے سے مجیزین و مانعین کا موقف: ایک تقابلی مطالعہ
✍️ محمد شہباز عالم مصباحی
سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی، کوچ بہار۔ مغربی بنگال
______________________
اسلامی تاریخ میں جشن میلاد النبی ﷺ منانے کا مسئلہ ایک اہم اور زیرِ بحث موضوع رہا ہے۔ اس مسئلے پر علماء کے دو بڑے مکاتبِ فکر ہیں: ایک بڑا گروہ اس کو جائز قرار دیتا ہے، جبکہ دوسرا اسے ممنوع اور بدعت سمجھتا ہے۔ اس مضمون میں ہم مجیزین (جشن میلاد کو جائز قرار دینے والے) اور مانعین (اسے ممنوع قرار دینے والے) کے دلائل کا تقابلی مطالعہ پیش کریں گے، تاکہ قاری کو ان دونوں نقطہ ہائے نظر کی بہتر تفہیم ہو سکے۔
جشن میلاد کی ممکنہ دو صورتیں:
جشن میلاد النبی ﷺ منانے کی ممکنہ دو صورتیں ہو سکتی ہیں:
1. صورت ممنوعہ (جس پر علماء کا اتفاق ہے):
علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ اگر میلاد النبی ﷺ کے جشن میں کوئی غیر شرعی اور ممنوع کام انجام پائے، تو یہ جشن حرام اور ناجائز ہوگا۔ مثال کے طور پر:
– مردوں اور عورتوں کا بے پردہ اختلاط۔
– موسیقی (ڈی جے) کا استعمال
– نبی اکرم ﷺ کے ساتھ غلو یعنی انہیں الوہیت یا ربوبیت کی صفات سے متصف کرنا۔
2. صورت مختلف فیہ (جس میں علماء کا اختلاف ہے):
دوسری صورت وہ ہے جس میں لوگ نبی کریم ﷺ کی سیرت اور شمائل کا تذکرہ کرتے ہیں، آپ ﷺ کی مدح میں قصائد پڑھتے ہیں، درود و سلام کا اہتمام کرتے ہیں، اور اگر ممکن ہو تو کھانے کا انتظام بھی کرتے ہیں۔ اس صورت میں علماء کا اختلاف ہے: جمہور علماء اسے جائز قرار دیتے ہیں، جبکہ بعض اسے ناپسندیدہ سمجھتے ہیں۔
مجیزین (جائز قرار دینے والے) کا موقف:
جشن میلاد النبی ﷺ کو جائز قرار دینے والے علماء کی بڑی تعداد ہے، جن میں ماضی اور حال کے بہت سے معروف اور معتبر علماء شامل ہیں۔ ان علماء کا کہنا ہے کہ میلاد کے موقع پر نبی کریم ﷺ کی سیرت کا ذکر کرنا، آپ کی مدح سرائی کرنا، درود و سلام پڑھنا، اور لوگوں کو کھانے کھلانا جائز اور مستحب ہے۔ ان علماء کے دلائل درج ذیل ہیں:
1. اجتماعِ خیر:
مجیزین کے مطابق میلاد النبی ﷺ کا جشن دراصل ایک اجتماعِ خیر ہوتا ہے، جس میں نبی کریم ﷺ کی سیرت کو بیان کیا جاتا ہے، درود و سلام پڑھا جاتا ہے، اور لوگوں کو دین کی تعلیم دی جاتی ہے۔ یہ سب اعمال خود قرآن و حدیث سے ثابت ہیں اور ان کی ترغیب دی گئی ہے۔
2. نبی کریم ﷺ کا یومِ ولادت منانا:
نبی کریم ﷺ نے خود اپنے یومِ ولادت کو اہمیت دی تھی، جیسا کہ آپ ﷺ ہر پیر کے دن روزہ رکھتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ یہ وہ دن ہے جس دن میں پیدا ہوا تھا۔ اس سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کا یومِ ولادت ایک مبارک دن ہے اور اسے یاد رکھنا اور منانا ایک مستحب و مسنون عمل ہے۔
3. قرآن میں انبیاء کے ولادت کا تذکرہ:
قرآن مجید میں حضرت عیسیٰ اور حضرت یحییٰ علیہما السلام کی ولادت کا ذکر کیا گیا ہے۔ جب انبیاء کی ولادت کا تذکرہ خود قرآن میں کیا گیا ہے، تو نبی کریم ﷺ کی ولادت کا ذکر کرنا اور اسے منانا اس سے زیادہ اہم اور مستحب ہے۔
4. مقام ولادت کی تعظیم:
حدیث میں آتا ہے کہ جب نبی کریم ﷺ کو معراج کی رات بیت لحم کی زیارت کرائی گئی، تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ وہ مقام ہے جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے تھے، اس لئے یہاں نماز پڑھیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مقام ولادت کی تعظیم شریعت میں جائز ہے، اور اسی پر قیاس کرتے ہوئے وقت ولادت کی تعظیم بھی جائز ہے۔
5. شکر گزاری کی مثال:
ایک اور اہم دلیل یہ ہے کہ جب نبی کریم ﷺ مدینہ پہنچے تو آپ نے یہودیوں کو یومِ عاشورہ کا روزہ رکھتے ہوئے پایا۔ جب آپ نے اس کا سبب دریافت کیا، تو انہوں نے بتایا کہ یہ وہ دن ہے جس دن حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے فرعون سے نجات دی تھی، اس لئے وہ شکرانے کے طور پر روزہ رکھتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہم موسیٰ علیہ السلام کے زیادہ حقدار ہیں، اور آپ نے بھی اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ اس سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ کسی اہم دن کی یاد میں شکر گزاری کے طور پر عبادات کرنا سنت سے ثابت ہے۔
6. علماء کی تائید:
جشن میلاد کو جائز قرار دینے والے علماء میں امام ابن حجر عسقلانی، امام جلال الدین سیوطی، امام ابن جوزی، امام شمس الدین سبکی، امام ابن کثیر، اور امام ذھبی شامل ہیں۔ انہوں نے اپنی کتابوں میں میلاد النبی ﷺ کے جواز کو بیان کیا اور اس کے فوائد و برکات کا ذکر کیا۔
مانعین (ممنوع قرار دینے والے) کا موقف:
مانعین کے نقطہ نظر کے مطابق، میلاد النبی ﷺ منانا بدعت ہے، کیونکہ یہ عمل نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام سے ثابت نہیں ہے۔ ان کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں:
1. عدمِ وجود دلیل:
مانعین کا کہنا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی زندگی میں، یا صحابہ کرام کے زمانے میں میلاد منانے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ اگر یہ عمل اتنا ہی اہم اور مستحب ہوتا، تو یقیناً صحابہ کرام اور تابعین اس کا اہتمام کرتے۔
2. میلاد منانا بدعت :
مانعین میلاد منانے کو ایک نیا عمل قرار دیتے ہیں، جس کی دین میں کوئی اصل نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دین میں کسی بھی نئے عمل کا اضافہ بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: "کل بدعة ضلالة، وكل ضلالة في النار” (ہر بدعت گمراہی ہے، اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے)۔
3. شخ ابن تیمیہ اور دیگر علماء کا موقف:
شیخ ابن تیمیہ نے اپنی کتاب "اقتضاء الصراط المستقیم” میں لکھا ہے کہ میلاد منانا ایک بدعت ہے۔ تاہم، انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ بعض لوگوں کے لئے اس میں اجر ہو سکتا ہے، اگر ان کی نیت نیک ہو اور وہ نبی کریم ﷺ کی تعظیم کے لئے یہ عمل کریں۔ ان کے علاوہ امام ابن الحاج المالکی اور امام فاکہی جیسے علماء نے بھی میلاد کو ناپسندیدہ قرار دیا ہے۔
تقابلی جائزہ اور نتیجہ:
جشن میلاد النبی ﷺ کے حوالے سے مجیزین اور مانعین دونوں کے دلائل کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دونوں مکاتب فکر اپنے مخصوص اصولوں اور تشریحات پر قائم ہیں۔ تاہم، مجیزین کا موقف زیادہ وسیع تر ہے، کیونکہ یہ نبی کریم ﷺ کی سیرت، شخصیت اور آپ ﷺ کی محبت کے اظہار کو محور بناتا ہے۔
1. محبتِ رسول ﷺ کا اظہار:
مجیزین کے مطابق، میلاد منانا ایک ایسا عمل ہے جو محبتِ رسول ﷺ کے جذبے کو تقویت دیتا ہے۔ قرآن و سنت میں رسول اللہ ﷺ سے محبت کو ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: "تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اس کے والدین، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔” (صحیح بخاری)
میلاد کے موقع پر نبی کریم ﷺ کی سیرت، آپ کے اخلاق، اور دین اسلام کے لئے آپ کی قربانیوں کا ذکر کرنا دراصل اس محبت کو تازہ کرنے اور دلوں میں ایمان کو مضبوط کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔
2. نبی کریم ﷺ کا پیر کے روز روزہ رکھنا:
نبی کریم ﷺ نے خود اپنے یومِ ولادت کی اہمیت کو اپنے روزے کے ذریعے ظاہر کیا، جیسا کہ پیر کے روز آپ ﷺ کا روزہ رکھنا آپ کے یومِ ولادت کی خوشی کا اظہار تھا۔ یہ ایک اہم دلیل ہے کہ نبی ﷺ کا یومِ ولادت ایک بابرکت اور یادگار دن ہے، اور اس کا اہتمام کرنا سنت کے منافی نہیں۔
3. اجتماعِ خیر:
مجیزین کا ایک اہم نقطہ یہ بھی ہے کہ میلاد کے اجتماعات دراصل خیر اور بھلائی کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ ان اجتماعات میں نبی کریم ﷺ کی سیرت سے آگاہی، درود و سلام، اور مسلمانوں کے درمیان اخوت و محبت کو فروغ دیا جاتا ہے، جو کہ اسلام کی روح ہے۔ اس قسم کے اعمال کو بدعت قرار دینا اس وسیع خیر کو محدود کرنے کے مترادف ہوگا، جو ان اجتماعات کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔
4. بدعت کا وسیع مفہوم:
مانعین بدعت کی تعریف کو انتہائی سختی سے لیتے ہیں، جبکہ بہت سے علماء بدعت کو دو اقسام میں تقسیم کرتے ہیں: بدعت حسنہ (اچھی بدعت) اور بدعت سیئہ (بری بدعت)۔ امام ابن حجر عسقلانی اور امام جلال الدین سیوطی جیسے معتبر علماء نے میلاد کو بدعت حسنہ قرار دیا ہے، جبکہ اس میں کوئی غیر شرعی عمل شامل نہ ہو۔
5. علماء کی تائید:
تاریخی اعتبار سے کئی بڑے اور معتبر علماء نے میلاد کے جواز کو تسلیم کیا ہے۔ امام جلال الدین سیوطی، امام ابن حجر عسقلانی اور امام سبکی جیسے علماء نے میلاد النبی ﷺ کو نہ صرف جائز بلکہ مستحب قرار دیا ہے۔ ان کے نزدیک یہ عمل دین میں کوئی اضافہ نہیں بلکہ نبی ﷺ کی محبت کا ایک فطری اور جائز اظہار ہے۔
6. شکر گزاری کا موقع:
مجیزین کی دلیل کے مطابق، جشن میلاد النبی ﷺ ایک طرح کی شکر گزاری ہے، جس میں اللہ تعالیٰ کی نعمت عظمیٰ یعنی نبی کریم ﷺ کی ولادت پر شکر ادا کیا جاتا ہے۔ جیسے یومِ عاشورہ پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نجات کی خوشی میں روزہ رکھنا جائز ہے، اسی طرح نبی کریم ﷺ کی آمد پر خوشی کا اظہار بھی جائز ہے۔
نتیجہ:
جب دنوں مکاتب فکر کے دلائل کو عمیق نظر سے دیکھا جائے، تو مجیزین کا موقف زیادہ قوی اور معقول نظر آتا ہے۔ نبی کریم ﷺ کی محبت، آپ کی سیرت کی ترویج، اور دین کی تعلیمات کی تذکیر جیسے اعمال نہ صرف اسلامی روح کے عین مطابق ہیں، بلکہ یہ مسلمانوں کے ایمان کو تقویت دینے والے بھی ہیں۔
میلاد النبی ﷺ کے جشن کو بدعت قرار دینا اس صورت میں درست نہیں جب کہ اس میں کوئی غیر شرعی کام نہ ہو۔ بلکہ، یہ ایک مستحب اور مبارک عمل ہے، جس کے ذریعے نبی کریم ﷺ کی ذات اور آپ کے احسانات کا شکر ادا کیا جاتا ہے۔ اس لئے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس مسئلے میں وسعت نظری سے کام لیں اور اس عمل کو محبت و احترام کے ساتھ اپنائیں، تاکہ نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کا پیغام عام ہو اور امت مسلمہ میں اتحاد و اتفاق پیدا ہو۔
حوالہ:
مختصر لكتاب الاحتفال بالمولد النبوي بين المجيزين والمانعين، عبد الفتاح بن صالح قديش اليافعي