سرکاری اسکولوں میں تعلیم کا گرتا معیار
سرکاری اسکولوں میں تعلیم کا گرتا معیار
از قلم: محمد علی صدیقی
ڈانٹنا نہیں، مارنا نہیں ،اور فیل نہیں کرنا ۔ یہ ہے موجودہ تعلیمی پالیسی کا ایک اہم حصہ۔ یعنی آج اسکولوں میں امتحانات تو بدستور ہوتے ہیں لیکن کسی بچے کو کسی کلاس میں فیل نہیں کیا جاتا اور نہ ہی کسی بچے کو کسی طرح کی کوئی سزا دی جا تی ہے۔ یہاں تک کہ کسی بچے کو سزا کے طور پر کلاس سے باہر بھی نہیں نکالا جا سکتا۔ اس تعلیمی پالیسی کا مقصد کیا ہے یہ تو پالیسی بنانے والے ہی جانیں لیکن اس پالیسی کی وجہ سے دو باتیں ضرور رونما ہوئی ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ بچے خوش ہو گئے ہیں۔ نہ صرف خوش ہو ئے ہیں بلکہ نڈر اور بے قابو بھی ہو گئے ہیں۔ اب انھیں اسکول میں کسی بات سے ڈر نہیں لگتا۔ نہ تو فیل ہونے کا ڈر اور نہ ہی کسی سزا کا ڈر۔ انھیں معلوم ہے اسکول میں بچوں کو سزا دینا یا مارنا اب ایک قانونی جرم بن چکا ہے۔ شکایت کر دینے پر پولیس اساتذہ کو گرفتار بھی کر سکتی ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ طلبا کو ملی اس آزادی کی وجہ سے سرکاری اسکولوں میں تعلیم کا کوئی معیار باقی نہیں رہ گیا ہے۔ ان اسکولوں کے تعلیمی معیار کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر آپ صاحب حیثیت ہیں اور بچوں کی تعلیم پر پیسہ خرچ کر سکتے ہیں تو آپ کا بچہ یقینا کسی پرائیویٹ اسکول میں پڑھ رہا ہوگا۔ اگر ایسا نہیں ہے تو آپکو اپنے بچے سے پیار نہیں ہے یا آپ تعلیمی معاملات کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ سرکاری اسکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ سے پوچھیں کیا انکے بچے انھیں اسکولوں میں پڑھتے ہیں جن میں وہ خود پڑھاتے ہیں۔ انکی اکثریت کا جواب آپ کو چونکنے پر مجبور کر دے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بچوں کو سزا دینے کے معاملے میں حد درجہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس پر لگی پابندی نے اساتذہ کو طلبا کی جانب سے بالکل ہی لا تعلق بنا دیا ہے۔ بھلا کون استاد کسی بچے کو سزا دے کر جیل جانا چاہے گا۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اساتذہ بچوں کو مارنے پیٹنے کا شوق رکھتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بچوں کے اندر خوف ہو تو اساتذہ کا کام بہت آسان ہو جاتا ہے۔ بچے شوق سے پڑھتے ہیں یا خوف سے۔ خوف تو کسی طرح کا رہا نہیں اور شوق کتنوں کے پاس ہے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
فرماں بردار اور پڑھنے کا شوق رکھنے والے بچوں کو ترغیب کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہوتی۔ اس لئے انھیں ڈانٹنے مارنے یا ڈرانے کی بھی کوئی ضرورت نہیں پڑتی۔ لیکن بگڑے ہوئے اور بدشوق بچوں کے لئے ترغیب بہت ضروری ہوتی ہے۔ خوف ترغیب کے لئے ایک آلہ کار کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب یہ پابندی نہیں تھی تب بھی اساتذہ ہر وقت بچوں کو مارا نہیں کرتے تھے بلکہ ڈراتے تھے کہ نہیں پڑھو گے تو سزا ملے گی۔ سبق یاد نہیں کرو گے تو سزا ملے گی۔ ننیانوے فیصد کام اسی خوف سے نکل جاتا تھا۔ کبھی سارے بچوں کو سزا دینے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔اب جبکہ سزا دینے کا حق ہی نہیں رہا تو یہ کام بھی ختم ہو گیا ہے اور بچے پڑھنے یا نہ پڑھنے کے لئے پوری طرح آزاد ہو گئے ہیں جس کا سیدھا اثر تعلیمی معیار پر پڑا ہے۔ اس معاملے میں پرائمری اور سکنڈری اسکولوں کا حال سب سے زیادہ خراب ہے۔ اس کا اثر ٹانوی درجات پر بھی پڑا ہے۔ آج حالت یہ ہے کہ سرکاری اسکولوں سے پاس ہونے والے بچے ڈگریاں تو حاصل کر لیتے ہیں لیکن اس ڈگری کے ساتھ جو لیاقت ہونی چاہئے وہ نظر نہیں آتی۔ ان میں کچھ ہی خوش قسمت بچے ایسے ہوتے ہیں جو اپنی خدا داد صلاحیت کے دم پر آگے بڑھتے ہیں اور زندگی میں کوئی مقام حاصل کر پاتے ہیں۔
سرکاری اسکولوں کا دوسرا بڑا مسلہ گارجیئن حضرات کا با شعور نہ ہونا ہے۔ ان اسکولوں میں پڑھنے والے بیشتر بچوں کے والدین تعلیمی اور معاشی طور پر پسماندہ ہوتے ہیں۔ نہ وہ تعلیم و تربیت کی باریکیوں کو سمجھتے ہیں اور نہ ہی اپنے بچوں کو گھر پر صحتمند ماحول فراہم کر پاتے ہیں ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچے بگڑ جاتے ہیں اور جب یہ بچے اسکول جاتے ہیں تو یہی بچے اسکول کے لئے بھی مسلہ بنتے ہیں۔ بہر حال یہ مسلہ پہلے بھی تھا لیکن سرکاری اسکولوں کا تعلیمی معیار کبھی اتنا پست نہیں تھا جتنا اب ہے۔ میں اپنے ذاتی تجربے کی بناء پر وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ یہ خرابی اسی وقت سے شروع ہوئی ہے جب سے سرکار نے طلبا کو فیل کرنے پر پابندی لگائی ہے اور سزا دینے کی گنجائش ختم کر دی ہے۔ ایسے ماحول میں جب بگڑے ہوئے بچے اسکول آتے ہیں تو سنورنے کی بجائے اور بگڑتے چلے جاتے ہیں۔
اگر سرکاری اسکولوں کا تعلیمی معیار ٹھیک کرنا ہے تو طلبا کے فیل ہونے پر جو پابندی عائد گئی ہے اسے ہٹانا ہوگا۔ رہی بات شوق کی تو شوق پیدا کرنے کے دو ہی طریقے ہیں۔ سزا یا انعام۔ چونکہ میں یہاں طلباء کو سزا دینے کی وکالت نہیں کر سکتا اس لئے یہ درخواست کروں گا کہ سزا نہیں دے سکتے تو انعام دیجئے۔ اگر یہ بھی منظور نہیں تو سرکار کوئی ایسا راستہ ضرور تلاش کرے کہ بد شوق طلبا بھی پڑھنے پر مجبور ہو جائیں تاکہ جب ڈگریاں آئیں تو ڈگریوں کے ساتھ ان کے پاس ضروری لیاقت بھی آئے۔