بے شک ہم بٹیں گے نہیں!
بے شک ہم بٹیں گے نہیں!
ووٹوں کی تقسیم کے بعد حالات سے شکوہ کرنے کی بجائے پہلے ہی غوروفکر سے کام لیں
✍️ڈاکٹر غلام زرقانی
چیئرمین حجاز فاؤنڈیشن ، امریکہ
_____________________
ہمیں اعتراف ہے کہ ملک کے زمینی حالات بہت تیزی کے ساتھ بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ فرقہ پرستی، مذہبی منافرت اور اپنے مفاد کے لیے علاقے میں عداوت ودشمنی کو ہوادینے کی روایت پہلے نہیں تھی، بلکہ آزادی کے بعد سے ہی ملک کی سرزمین پر گاہے بگاہے ایسے حادثات ہوتے رہے ہیں ، جن میں ہزاروں جانیں تلف بھی ہوئیں، لاکھوں معذور بھی ہوئے اور سینکڑوں آبادیاں نذر آتش بھی کردی گئیں ۔ تاہم عصرحاضر میں فرقہ پرستی نے جو شکل اختیارکرلی ہے ، وہ دو اعتبارات سے بہت مختلف ہے۔ پہلی یہ کہ مذہبی منافرت عام طورپر ذمہ دارعہدوں پر فائز سیاسی عمائدین نہیں پھیلاتے تھے اور دوسری یہ کہ اسے معاشرے میں معیوب سمجھا جاتاتھا ، اس لیے ڈھکے چھپے الفاظ میں رازداری کے ساتھ اس کی چنگاری سلگائی جاتی تھی۔ اور اب توحالات ایسے ہیںکہ لوگ نہ تواپنے عہدے کا پاس رکھ رہے ہیں اور نہ ہی ملک کی جمہوری روایات کا۔
یہ توسبھی جانتےہیں کہ یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی ادتھیہ ناتھ نے ’بٹیں گے نہیں توکٹیں گے نہیں ـ‘ کس تناظر میں کہا ہے ، لیکن مجھے ایسا لگتاہے کہ اس کی درست تعبیر کے لیے ہماری مثا ل بہت موزوں ہے ۔یقین نہیں آتا توآزادی کے بعد سے لے کر آج تک سارے مرکزی اور صوبائی انتخابات کی تاریخ پر ایک سرسری نگاہ ڈال لیجیے ، حقیقت دوپہر کی دھوپ کی طرح عیاں ہوجائے گی۔ یہ بات میں پوری ذمہ داری کے ساتھ کہہ رہاہوں کہ وہ علاقے جہاں مسلم ووٹ کی بنیادپر فیصلہ کن نتائج برآمد ہوسکتے ہیں ، وہاں ہمارے ووٹ اپنے لوگوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں اور کوئی ناپسندیدہ شخصیت فتح کے جھنڈے گاڑدیتاہے ۔ مثال کے طورپر یوپی کے سابقہ صوبائی انتخابات کا جائزہ لیجیے ۔ یہاں پچاسو ں سیٹیں ایسی تھیں ، جہاں سے مختلف سیاسی پارٹیوں نے اپنے اپنے طورپر مسلم نمائندے کھڑے کیے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ علاقے کے مسلمانوں کے ووٹ تقسیم ہوگئے اور فرقہ پرستی عناصر کے نمائندے کامیاب ہوگئے ۔ اس طرح آپ پورے وثوق سے کہیے کہ ہمارے باہم بٹ جانے سے تکلیف دہ صورت حال سامنے آگئی ، جو اب ناقابل برداشت ہوتی جارہی ہے۔
عام طور پرلوگ باہمی اتحاد واتفاق کی اہمیت پر لمبی چوڑی گفتگو کرتے ہیں ۔ مجھے اس سے قطعی اختلاف نہیں ہے ، لیکن اتحاد واتفاق کے لیے جو پرانی مثالیں دی جاتی ہیں ،ان کے مفاہیم جس نہج پر ہمیں لے جانا چاہتےہیں ، وہ عصرحاضر میں کارآمد نہیں ۔ اسے یوں سمجھیے کہ اتحاد واتفاق کے لیے ایک مثال یہ دیتے ہیں کہ ایک تنکا بہ آسانی توڑا جاسکتاہے ،لیکن اگر دس بیس تنکے باہم ملاکر دیے جائیں ، تووہ ٹوٹ نہیں پاتے ۔ ہم اس مثال سے یہ سمجھتے ہیں کہ کسی کے خلاف تنہا آواز بلند نہ کریں ، بلکہ سب کے سب کھڑے ہوکر آواز سے آواز ملا کے مطالبہ کریں ، یا کسی پر زیادتی ہورہی ہو، توہم سب مل کر اسے روکنے کی کوشش کریں ۔ اب آپ ذرا عصرحاضر میں متذکرہ مفاہیم کو چسپاں کرکے دیکھیے ۔ ایک شخص بڑے عہدے پر بیٹھ کر ظلم وزیادتی کررہاہے ، اب اگر سب مل کر اس کے خلاف آواز بلند کریں ، توکیا یہ کسی طورمفید ثابت ہورہاہے ۔ معاف کیجیے گا اگر واقعی یہ کارگر ہوتا، تو فلسطین میں گذشتہ ایک سال سے قتل وخون اورظلم وبربریت کے لرزہ خیز حادثات کب کا تھم گئے ہوتے ۔ پوری دنیا کے مسلمان سڑکوں پر اجتماعی صدا لگاتے رہے ، لیکن اسرائیلی سرکشی وتعنت میں کوئی کمی نہ آسکی ۔ اورپھر ذرا متذکرہ مثال کے دوسرے مفہوم پر بھی غور کرلیجیے کہ اتحاد واتفاق سے مراد یہ ہے کہ سب مل کر ظلم وستم کے خلاف کھڑے ہوجائیں ۔ مجھے بتائیں کہ گذشتہ ایک سال سے آپ آئے دن فلسطین میں قتل وخون کی لرزہ خیز تصاویر دیکھ رہے ہیں ۔ روئے زمین پر مسلمانوں کی تعداد ایک ارب سے زیادہ ہے ۔ ایسا کیوں نہ ہوا کہ سب ایک جٹ ہوکر ظلم وبربریت کے خلاف کھڑے ہوجاتے ؟ظاہرہے کہ صرف باہمی اتحاد واتفاق کے سہارےظلم وستم پر روک نہیں لگائی جاسکتی ، بلکہ اس کے لیے وہ سب کچھ چاہیے ، بلکہ کچھ اور زیادہ ہی ، جو مدمقابل کے پاس ہے ۔ اور وہ ہے نت نئی ٹکنالوجی سے مزین فوجی سازو سامان اور تربیت یافتہ فوجی دستہ۔ اس لیے چار وناچار تسلیم کیجیے کہ اتحاد واتفاق کی قدیم مثالوں کو عصر حاضر کے نئے تقاضوں میں دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ پرانی مثالوں کے متذکرہ مفاہیم اس وقت کار آمد تھے ، جب جنگیں قوت بازو سے لڑی جاتی تھیں اور میدان جنگ میں دونوں فریق آمنے سامنے ہوتے تھے ۔ اب نہ جنگیں قوت بازو سے لڑی جاتی ہیں اور نہ ہی میدان جنگ میں فریق آمنے سامنے ہوتے ہیں ، بلکہ ظلم وبربریت کے انداز بدل چکے ہیں ۔ اب اصحاب اقتدار اپنے دفاتر میں بیٹھ کر ظلم وتشدد کی منصوبہ بندی کرتے ہیںاور قوت عقل ، فکری بصیرت اورذاتی قابلیت کے سہارےمیدان سرکیے جاتے ہیں۔
بہر کیف، میں عرض یہ کررہاتھا کہ ہمیں اتحاد واتفاق کی پرانی مثالوں کو عصرجدید کے تقاضوں کے آئینے میں دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ اور اس کی ایک بہترین مثال ہمارے سامنے ہے اور وہ ہے ووٹ کی طاقت کا درست استعمال۔اس کے درست استعمال کے لیے ہمیں دواقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیجیے کہ صوبائی انتخابات اور مرکزی انتخابات ، دونوں کے لیے ہماری ترجیحات مختلف ہونی چاہئیں ۔ صوبائی انتخابات میں اپنے اپنے طورپر ہر ایک حلقۂ انتخابات میں علاقے کے تعلیم یافتہ ، دانش ور اور تجربہ کار مسلمان باہم مشورے سے کسی ایک نمائندے کے لیے اپیلیں جاری کریں ۔ اور کسی بھی امیدوار کی پسندیدگی کے لیے صرف مذہبی وابستگی نہ دیکھی جائے ، بلکہ یہ دیکھیں کہ کو ن سب میں بہتر ہے ، جس کے فتحیاب ہونے کی قوی امید بھی ہے ۔اور دوسرا اقدا م یہ کریں کہ اپنے پسندیدہ نمائندے کے لیے انتخابی تشہیر میں سرگرمی سے حصہ لیں ۔ ظاہر ہے کہ اس طرح ہمارا ووٹ تقسیم نہیں ہوگا اور کسی قدر غنیمت شخصیت کے میدان مارنے کی توقعات بڑھ جائیں گی۔
ہمیں اعتراف حقیقت کرنا چاہیے کہ جب طاقت وقوت کے درست استعمال کے مواقع سامنے ہوتے ہیں ، توہم عشرت کدوں میں محو خواب ہوتے ہیں اور جب مصیبت سرپر چلی آتی ہے ، توسڑکوں پر صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے نکل پڑتے ہیں ۔ ہمیں یہ روش بدلنی ہوگی ۔ ایک جمہوری ملک میں اتحا د واتفاق کے مظاہرے کے لیے مرکزی اور صوبائی انتخابات سے بہتر کوئی دوسرا موقع نہیں ہوسکتا ۔ سچی بات یہ ہے کہ عہد جدید میں اتحاد واتفاق کی درست تعبیر کے لیے انتخابات سے بڑھ کر کوئی مثال پیش ہی نہیں کی جاسکتی ۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ جو مصیبت کسی ایک پر آرہی ہے ، اسے عالم تصور میں اپنے اوپر آتی ہوئی بھی محسوس کریں ، تاکہ ہمارے جذبات جوان رہیں اور ہم پوری طاقت وقوت کے ساتھ تعمیر ملت کے لیے آگے بڑھتے رہیں۔
صاحبو! کہتے ہیں نا کہ حقیقت کبھی کبھی غیروں کی زبان سے بھی سامنے آجاتی ہے ۔ میرے خیال میں جھارکھنڈاور مہاراشٹر کے انتخابات کے دوران حز ب اقتدار کی طرف سے جو زہریلا نعرہ ذرائع ابلاغ کے دوش پر تیزی سے گشت کررہاہے ، وہ حقیقت میں ہمارے اوپر حرف بہ حرف صادق آتاہے ۔ اے کاش ہم اسے اپنے حالات کی ترجمانی سمجھ لیں ، توکوئی وجہ نہیں کہ آنے والے انتخابات میں ہمارے اقدامات اتحاد واتفاق کی درست تعبیر نہ بن جائیں۔اس طرح ہماری توقعات کے مطابق نتائج بھی سامنے آجائیں گے اور ہمیں کسی حدتک ظلم وتشدد اور ذہنی اذیتوں سے نجات بھی مل جائے گی ۔