اسلام میں ایک سے زیادہ شادیاں
از: مسعود جاوید
_________________
اسلام میں ایک سے زیادہ شادیوں پر اعتراض کرنے والوں کو اہل علم نے بارہا نہ صرف مدلل، منطقی ، عقلی و نقلی مسکت جواب دیا ہے بلکہ ان سے یہ بھی پوچھا ہے کہ آپ کی کالونی، محلہ، شہر یا گاؤں میں آپ کتنے ایسے مسلمانوں کو جانتے ہیں جن کی چار بیویاں ہیں!
دین اسلام فطرت سے قریب ترین مذہب ہے اسی لئے مسلمان کی زندگی گزارنے کا کوئی بھی طور طریقہ ایسا نہیں ہے جو فطرت کے منافی اور شرعی احکام سے متصادم ہو ؛ تجارت، شراکت، مضاربت، زراعت، ملازمت، کفالت، معاشرت ، نکاح، طلاق، خلع ، بیوہ اور رنڈوا کی شادی وغیرہ ہر بابت نقلی اور عقلی جواز اور سماج کی نہ صرف موافقت بلکہ ستائش بھی ہے۔
ایک سے زائد شادی کی بابت قرآن مجید میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے واضح آیت کے ذریعے ہماری رہنمائی کی ہے کہ ضرورت کے تحت، اگر تم ان کے ساتھ انصاف کر سکتے ہو تو ایک سے زائد دو تین یا چار عورتوں کو اپنے نکاح میں رکھ سکتے ہو۔
ضرورت کیوں اور کب ہوتی ہے؟
جنسی خواہش ایک فطری عمل ہے۔ اللہ تبارک وتعالی نے ہر انسان مرد وعورت ، نر مادہ حیوان، چرند پرند میں یہ خواہش ودیعت کی ہے اور عورت مرد ، نر مادہ کے اختلاط سے نہ صرف جنسی تلذذ اور آسودگی حاصل ہوتی ہے بلکہ افزائش نسل کا ذریعہ بھی یہی جنسی عمل (سیکس) ہے ۔ بعض مردوں میں جنسی خواہش اس قدر شدید ہوتی ہے کہ اس کی تسکین ایک عورت سے نہیں ہو پاتی۔ اب اس شدید خواہش کی تسکین کے لیے اس کے پاس دوسری بیوی ہو یا وہ وہ قحبہ خانہ یا لیو ان ریلیشن شپ کی پناہ لے۔
یا بعض عورتوں کو ایسا کوئی مرض، پیدائشی یا بلوغت کے بعد، لاحق ہوتا ہے جو علاج کے باوجود تولید کی لائق نہیں ہوتیں۔ ایسی صورت میں مرد ایک سے زیادہ شادی کر سکتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے بھی شرط مقرر کر دی ہے کہ اگر تم ان کے ساتھ انصاف کر سکو۔۔۔ انصاف صرف نان نفقہ سکن میں ہی نہیں وظیفہ زوجیت میں بھی۔ نئی بیوی اور پہلی بیوی/ بیویوں کے ساتھ معاشرت میں یکساں سلوک اور وقت گزاری۔ یہ شرط پوری کرنے پر اگر قادر نہیں ہے تو وہ اجازت منسوخ سمجھی جائے گی یعنی آپ ایک سے زیادہ شادی نہیں کر سکتے۔
ایک سے زیادہ شادی بسا اوقات ایک سماجی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ دین اسلام میں مجرد زندگی محبوب نہیں ہے خواہ وہ متقی پرہیزگار صوفی با صفا ہو ، پیر ہوں، علماء ہوں، خانقاہوں اور آستانوں کے سربراہ ہوں یا عام مسلمان مرد وعورت ہوں، جنسی خواہش کو کچلنے کی اجازت نہیں ہے ۔ بعض چرچ کے پادریوں اور مندروں میں پجاریوں کی زیارت کے لئے جانے والی خواتین اور بچے بچیوں کے ساتھ ان کی رضامندی سے یا بالجبر جنسی تعلق قائم کرنے کی خبریں اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں یہ اسی فطرت کے منافی مجرد زندگی اپنانے کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اس غیر فطری روش کے سدباب کے لئے اسلام کسی کو مجرد زندگی، کرونک بیچلر، رنڈوا یا بیوگی کی زندگی گزارنے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ مساجد اور خانقاہوں میں ننوں اور داسیوں کی طرح مرد و زن کا اختلاط اسی مصلحت کے تحت ممنوع ہے ۔
ایک سے زیادہ بیوی کی اجازت کے پیچھے یہی سوچ کارفرما ہے کہ کوئی مجرد زندگی نہ گزارے۔ خواہ وہ رنڈوا اور بیوہ کیوں نہ ہو۔ بر صغیر ہند کے مسلمانوں کے غیر مسلموں کے ساتھ اختلاط کے نتیجے میں بہت سے رسم و رواج مسلمانوں میں در آئے ہیں ان ہی میں سے رنڈوا اور بیوہ کی عقد ثانی بھی ہے۔ ہندو مصلح راجہ رام موہن رائے جو مدرسہ کے فارغ التحصیل عربی اور فارسی زبانوں پر مہارت رکھتے تھے انہوں نے شوہر کی موت کے بعد بیوی کو شوہر کی چتا پر دکھیل کر جلا دینے کا رواج” ستی” کے خاتمے کے لئے کام کیا اور انگریزی حکومت سے اس ظلم و جبر پر مبنی رواج کے خلاف قانون بنوایا۔ ستی پرتھا اسی سوچ کی پیداوار تھی کہ شوہر کے بغیر اب وہ اپنی جنسی ضروریات کیسے پوری کرے گی ۔۔ دوسری شادی کی اجازت ان کے دھرم میں نہیں ہے تو لا محالہ وہ ناجائز طریقے اختیار کرے گی یا ہوس کے پجاری لوگوں کی شکار ہوگی۔ اسلام نے ستی پرتھا کی بجائے دوسری شادی کا نظام قائم کیا ۔ بیوہ کے علاوہ بہت سی کنواری لڑکیوں کی شادی کی عمر نکل گئی ان کے لئے بھی مردوں کو دوسری شادی کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے ۔ یہ ہوس lust نہیں ایک سماجی ضرورت ہے ۔ جنگ عظیم کے بعد یورپ میں یہ ایک بہت بڑا مسئلہ کی شکل میں ظاہر ہوا مرد جنگ میں فوت ہوئے اور ان کی بیویاں اکیلی رہ گئیں نتیجتاً جنسی بے راہ روی نے جگہ بنا لی۔
ایک سے زیادہ عورت سے نکاح معیوب ہے یا ناجائز جنسی تعلقاتِ ؟ کوا چلا ہنس کی چال اپنی ہی چال بھول گیا! عورت مرد کے درمیان ناجائز جنسی تعلق ہر مذہب اور سماج میں معیوب ہے۔ اسلام نے نکاح کے ذریعے اسے منظم کیا تو مغربی ممالک اور اس کی نقل کرتے ہوئے دنیا کے بے شمار ممالک بشمول ہندوستان نے :لیو ان ریلیشن شپ’ یعنی "زنا بالرضا” کو قانونی حیثیت دی۔
نکاح میں اس عورت کے حقوق اور اس کے بچوں کو نام ، پرورش اور وراثت میں حصہ کی ضمانت ہوتی ہے۔