مشرق وسطیٰ: ایک اور تباہ کن جنگ کا خدشہ
✍️ محمد شہباز عالم مصباحی
سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی
کوچ بہار، مغربی بنگال
_________________
دنیا اس وقت ایک اور تباہ کن اور نہ ختم ہونے والی جنگ کی دہلیز پر کھڑی ہے، اور اس کے آثار مشرق وسطیٰ میں دیکھے جا رہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ ایک بار پھر عالمی سطح پر سیاسی بحران اور بڑھتی ہوئی کشیدگی کی وجہ سے توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ اسرائیلی حملے میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کی شہادت کے بعد ایران کی طرف سے شدید طاقت کے ساتھ جوابی کارروائی نے عالمی برادری کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
ایران کا مؤقف: جنگ نہیں چاہتے، لیکن اگر مسلط کی گئی تو مقابلہ کریں گے:
ایران کی حالیہ جوابی کارروائی کے بعد یہ واضح پیغام دیا گیا ہے کہ ایران جنگ نہیں چاہتا، لیکن اگر کوئی جارحیت مسلط کرتا ہے تو وہ قصاص اور بدلے کے طور پر سخت جواب دینے کا حق رکھتا ہے۔ ایرانی قیادت کا کہنا ہے کہ وہ اپنے دفاع کے لیے آخری حد تک جائیں گے، حتیٰ کہ اپنے خون کا آخری قطرہ بھی بہا دیں گے۔ یہ بیان عالمی برادری کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا رہا ہے کیونکہ اس طرح کی کشیدگی خطے میں مزید تباہی کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔
دو عالمی جنگوں کا سبق: تیسری جنگ کی گنجائش نہیں:
دنیا پہلے ہی دو خوفناک عالمی جنگیں دیکھ چکی ہے، جنہوں نے لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا، بے شمار خاندان تباہ ہو گئے، اور انسانی بقا خطرے میں پڑ گئی۔ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کے دوران قحط اور خشک سالی کے باعث لاکھوں بچے بھوک سے مر گئے تھے، جو خود ایک بے رحمانہ اور وحشیانہ عمل تھا۔ ان جنگوں کے نتائج آج بھی دنیا کی تاریخ میں سب سے تباہ کن شمار کیے جاتے ہیں۔
تیسری عالمی جنگ کی گنجائش دنیا میں نہیں ہے۔ ٹیکنالوجی کے ترقی یافتہ دور میں جدید ہتھیاروں اور ایٹمی طاقتوں کے استعمال کا خطرہ بڑھ چکا ہے، اور اگر مشرق وسطیٰ میں یہ بحران مزید بڑھتا ہے تو اس کا دائرہ پوری دنیا میں پھیل سکتا ہے۔ اس لیے، فوری اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ مشرق وسطیٰ میں جاری کشیدگی کو کم کیا جا سکے اور عالمی امن کو یقینی بنایا جا سکے۔
مشرق وسطیٰ: دہائیوں سے جاری بحران اور بدامنی:
مشرق وسطیٰ ایک طویل عرصے سے سیاسی عدم استحکام اور بین الاقوامی طاقتوں کی مداخلت کا شکار رہا ہے۔ عراق، شام، یمن، اور فلسطین جیسے ممالک اس بحران کے بدترین نتائج بھگت رہے ہیں۔ یہ ممالک مسلط کردہ جنگ و جدل، غیر ملکی دہشت گردی اور مداخلت کی وجہ سے کافی تباہ ہو چکے ہیں۔ ہزاروں لوگ اپنی زندگیاں گنوا چکے ہیں، اور لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔
اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی ادارے ان مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہے ہیں، جس کی وجہ سے یہ بحران طول پکڑ رہا ہے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ عالمی برادری اس مسئلے کو سنجیدگی سے دیکھے اور مؤثر اقدامات کرے تاکہ مزید تباہی سے بچا جا سکے۔
اسرائیل کی نسل کش جارحانہ و جنگی پالیسی:
مشرق وسطیٰ میں جاری کشیدگی کی بڑی وجہ اسرائیل کی جارحانہ پالیسی ہے۔ اسرائیل جو یورپ کا ناجائز بچہ ہے، یہ خود ساختہ جارح ریاست نہ صرف فلسطینی مسلمانوں کے حقوق پامال کر رہی ہے بلکہ ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔ اسرائیل کی مسلسل جارحانہ کارروائیاں اور فلسطینی نسل کشی کو اب مزید نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔
دنیا کو اسرائیل کو الگ تھلگ کرنے اور اس کے جنگی جرائم کا احتساب کرنے کی ضرورت ہے۔ بین الاقوامی سطح پر مضبوط موقف اپنانا ناگزیر ہو چکا ہے تاکہ مسلمانوں کی مزید ناجائز نسل کشی اور جنگی جرائم کا خاتمہ کیا جا سکے۔
اقوام متحدہ کا کردار: فوری اور فیصلہ کن اقدامات کی ضرورت:
مشرق وسطیٰ میں جاری کشیدگی کو حل کرنے کے لیے اقوام متحدہ اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو اپنا کردار مؤثر انداز میں فوری ادا کرنا ہوگا۔ اگر عالمی برادری نے اس مسئلے کا بروقت نوٹس نہ لیا تو یہ بحران ایک بڑے عالمی جنگ میں تبدیل ہو سکتا ہے، جس کے نتائج تباہ کن ہوں گے۔
عالمی رہنماؤں کو جنگ کے خطرات کو سمجھتے ہوئے فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔ جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے، بلکہ یہ انسانیت کی تباہی اور بربادی کا پیش خیمہ بنتی ہے۔ اس لیے، ضروری ہے کہ اقوام متحدہ مشرق وسطیٰ میں دیرپا امن قائم کرنے کے لیے سنجیدہ اور مؤثر حکمت عملی اپنائے۔
نتیجہ: دنیا کو جنگ سے بچانا ہوگا:
آج دنیا کو ایک اور تباہ کن جنگ سے بچانے کے لیے عالمی برادری کو اپنی ترجیحات پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ جنگ سے حاصل کچھ نہیں ہوتا، بلکہ یہ صرف بربادی اور انسانی المیے کا سبب بنتی ہے۔ اگر عالمی برادری نے آج اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہ لیا تو کل شاید بہت دیر ہو جائے گی۔
مشرق وسطیٰ میں جاری بحران نہ صرف اس خطے کا مسئلہ ہے، بلکہ یہ عالمی امن کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ ہے۔ اس لیے، عالمی برادری کو فوری اور فیصلہ کن اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ اس جنگ کے بادل چھٹ جائیں اور انسانیت کو مزید تباہی سے بچایا جا سکے۔