رسالتِ محمدی کا مقام و مرتبہ — توہین رسالت کے محرکات واسباب —-گستاخ رسول کے خلاف ہمارا رد عمل ؟
✍️: مفتی شکیل منصور القاسمی
_________________
ظلمت و تاریکی روشنی کا دشمن ہوتی ہے ، ظلم وجبر کو عدل وانصاف کبھی برداشت نہیلں ہوتا ۔نجاست و گندگی، غلاظتوں تعفن ، طہارت و پاکیزگی کی بوے جاں نواز کو پابند سلاسل دیکھنا چاہتی ہے۔
غار حراء سے پھوٹنے اور پھوٹ کر پوری دنیا پہ چھا جانے والے سراج منیر “ اسلام “ کی روحانی اور غیبی طاقت سے تمام طاغوتی طاقتیں خوفزدہ ہوگئیں ، اس چراغ کو گل کردینے کی سازشیں ہونے لگیں ، اس کی روز افزوں مقبولیت اور ترقی سے خوف کھاکر اس کے خلاف سازشی تانے بانے بنے جانے لگے ، دین اسلام کی شبانہ روز کی ترقی دشمنان اسلام کو کبھی ہضم نہ ہوئی ،اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف ، اوچھے ہتھکنڈوں ، نازیبا اتہامات و الزامات اور اہانت آمیز ریمارکس کے ذریعے اس کی صاف ستھڑی شبیہ خراب کرنے کی نت نئی کوششیں شروع دن سے جاری وساری ہیں:
قَدْ بَدَتِ ٱلْبَغْضَآءُ مِنْ أَفْوَٰهِهِمْ وَمَا تُخْفِى صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ
(آل عمران – 118۔۔۔ان کے منہ سے عداوت ظاہر ہوچکی ہے اور جو کچھ ان کے دلوں میں پوشیدہ ہے وہ تو بہت ہی بڑھ کر ہے)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ساحر ومجنون وغیرہ جیسی ہفوات سے تمسخر اڑانا ، ٹھٹھہ اور تنقیص وتوہینِ شان کرنا اسی قلبی بغض وحسد کا مظہر ہے جو شروع دن سے اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف چلا آرہا ہے :
﴿ وَإِذَا رَأَوْكَ إِن يَتَّخِذُونَكَ إِلَّا هُزُوًا أَهَٰذَا الَّذِي بَعَثَ اللَّهُ رَسُولًا﴾
[ الفرقان: 41۔۔۔اور (اے نبی ! ) یہ جب آپ کو دیکھتے ہیں تو ایسے تمسخر ہی کرتے ہیں کہ کیا یہ وہی ہے کہ جس کو اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے۔]
اسلام اور پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخیاں کرنا ابتداے اسلام سے ہی اسلام دشمن عناصر کا وطیرہ رہا ہے ؛ بلکہ پیش رو انبیاء کے ساتھ بھی یہ جاہلانہ سلوک روا رکھا گیا :
وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّن قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِينَ سَخِرُوا مِنْهُم مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ(الأنبياء – 41۔۔اور تم سے پہلے بھی (بہت) سے رسولوں کی ہنسی اڑائی۔ پھر ہنسی اڑانے والوں پر (وہی) بلا آپڑی کہ جس کی وہ ہنسی اڑایا کرتے تھے۔)
﴿ وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّن قَبْلِكَ فَأَمْلَيْتُ لِلَّذِينَ كَفَرُوا ثُمَّ أَخَذْتُهُمْ ۖ فَكَيْفَ كَانَ عِقَابِ﴾
[ الرعد: 32۔۔اور البتہ آپ سے پہلے بھی رسولوں کے ساتھ ہنسی کی گئی ہے۔ پھر ہم نے منکروں کو مہلت دی۔ پھر ان کو پکڑ لیا پھر دیکھو ہمارا کیسا عذاب تھا۔]
اسلام اور مسلَّماتِ اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی اور بد گوئی گرچہ جرم عظیم اور بعض شرطوں کے ساتھ موجب گردن زدنی ہے ، ایسا ہذیان گو اپنے عبرتناک انجام بد کو ضرور پہنچتا ہے ؛ لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ اس شر انگیزی کے جلو میں بعض مثبت اور خیر کے پہلو بھی نہاں ہوتے ہیں
دین ومذہب سے دور اور کوتاہ عمل بعض مسلمانوں کی غیرتِ ایمانی اسی موقع سے جاگ اٹھتی ہے اور اس کے دل میں رگ ایمانی پہرک اٹھتی ہے ، وہ گستاخانہ حرکتوں کے رد عمل میں محبت رسول سے سرشار ہوجاتا اور دین اور اس کے احکام کے دفاع پہ تن من لٹا بیٹھتا ہے۔
ذرا یاد کیجئے ! ابو جہل نے ناموس رسالت میں گستاخی کی تھی اور نازیبا کلمات کہے تھے ۔
حضور کے چچا حضرت حمزہ اس وقت تک کافر تھے
شکار سے لوٹ کر گھر پہنچے تو باندیوں کے ذریعے اطلاع ملی کہ ابوجہل نے آپ کے بھتیجے محمد کے ساتھ گستاخانہ اور تکلیف دہ سلوک کیا ہے۔ یہ سنتے ہی جوشِ غضب میں آپے سے باہر ہوگئے ، کمان ہاتھ میں پکڑے حرم ِکعبہ میں جاپہنچے ، اورابو جہل وہاں مجلس جماے بیٹھا تھا ، اس کے سر پر اس زور سے ضرب لگائی کہ اس کا سر پھٹ گیا اور خون نکلنے لگا، پھر فرمایا: میرا دین وہی ہے جو میرے بھتیجے کا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللّٰہ کے رسول ہیں،اگر تم سچے ہو تو مجھے مسلمان ہونے سے روک کر دکھاؤ۔(معجمِ کبیر، ج 3،ص140،حدیث:2926)
ان أبا جهل نال من رسول الله صلى الله عليه وسلم وآذاه وشتمه، وكان حمزة في قنص له، فأقبل متوحشا فرجع إلى بيته، قالت له مولاته: يا أبا عمارة، لو رأيت ما لقي ابن أخيك آنفا من أبي الحكم بن هشام، فاحتمل حمزة الغضب لما أراد الله به من كرامته، فخرج سريعا، حتى إذا قام على رأسه رفع قوسه، فضرب بها أبا جهل ضربة شجه شجة منكرة وقال: أتشتمه وأنا على دينه، أقول ما يقول، فرد علي إن استطعت.(مختصر تلخيص الذهبي للمستدرك ج4/ص1740)وأبو نعيم الأصبهاني في حلية الأولياء (ج2/ص673) وابن هشام في السيرة ت السقا (ج1/ص291) والطبري في التاريخ (ج2/ص333)
گھر لوٹے تو شیطان نے وسوسہ ڈالا کہ تمہارا شمار قریش کے سرداروں میں ہوتا ہے کیا تم اپنا دین بدل دوگے؟ آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی پوری رات بے چینی اور اضطراب میں گزری، صبح ہوتے ہی بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اوراس پریشانی کا حل چاہا تو رحمت ِعالم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کی طرف توجہ فرمائی اور اسلام کی حقانیت اور صداقت ارشاد فرمائی، کچھ ہی دیر بعد آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کے دل کی دنیا جگمگ جگمگ کرنے لگی اور زبان پر یہ کلمات جاری ہوگئے: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ سچے ہیں (مستدرک، ج4،ص196، حدیث: 4930)
اگر ابوجہل یہ شر انگیزی نہ کرتا تو حضرت حمزہ کی غیرت وحمیت نہ جاگتی اور وہ باوجود کافر ہونے کے اپنے بھتیجے کے دفاع ونصرت پہ یوں کمر بستہ نہ ہوتے !
اسی گستاخی نے انہیں اسلام اور پیغمبر اسلام کا سچا اور جانباز ووفاشعار سپاہی بنایا۔
دنیا میں تغیر پذیر بعض واقعات وحوادث گوکہ اپنے ظاہر کے لحاظ سے کتنے ہی دل خراش واشتعال انگیز کیوں نہ ہوں ؛پَر ان میں بعض خیر کے مثبت پہلو بھی موجود ہوتے ہیں جو مآل کار کے اعتبار سے اسلام اور مسلمانوں کے مفاد میں ہی جاتے ہیں۔
ابوجہل کی شر انگیزی کے باعث سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کی بصیرت نور حق سے منور ہوئی یہاں تک کہ وہ اسلام کے بہترین لوگوں میں سے ایک بن گئے ، انہیں “اسد اللہ “ (شیر خدا ) کا لقب ملا ، مسلمانوں میں سب سے زیادہ غیرت رکھنے والے اور دین کے دشمنوں کے مقابلے میں ان میں سب سے زیادہ مضبوط اعصاب کے مالک تھے ۔ اور عظیم ترین دین کے دفاع پہ اپنا تن من سب کچھ وارتے ہوئے حرمت دین اور اس کے تقدس کے تحفظ میں شہید ہوگئے ۔
“محمد عربی “ (صلی اللہ علیہ وسلم ) روئے زمین کی تمام ارواح میں سب سے پاکیزہ ومقدس شخصیت کا نام ہے ،
“محمّد “ (صلی اللہ علیہ وسلم ) رب کائنات کا انتخاب ہیں ،
محمد عربی (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی تربیت خود رب ذو الجلال نے براہ راست کی ہے ، سب سے با اخلاق،
سب سے راست گو ، سب سے پاک باز وپاک طینت ، دوشیزہ سے زیادہ باحیاء ، سب سے کشادہ دست و کشادہ قلب ، نفس ونسب میں سب سے اشرف ، اعلی وبالا،
دشمنِ جان بھی جن کے صدق وامانت کی گواہی دیں،
سخی پیشہ ، شائستہ خلق، پاکیزہ طبعیت ، منبعِ خیر ومنتہاے جود وسخاء، محسن انسانیت ،غلاموں ، بے سہارا وبے آسرا کا ملجا وماوی ، جبر واستبداد ، ظلم وتعدی اور لوٹ کھسوٹ کے سخت خلاف ، رعایا کے حقوق کا ضامن و محافظ ، صبر وضبط ، عفو ودر گزر اور حلم وبردباری کے پیکر مجسم، مالک ومملوک، جوان ،بوڑھے، بچے ، مرد وعورت ، امیر وغریب ،اجنبی و شناسا ، قریب وبعید ،اپنے وپرائے ،سب کے محبوب وچہیتے ،اپنے محاسن و محامد اور کرم گستری کے باعث سب کے دلوں پہ راج کرنے والے دنیا کے اکلوتے “ دلوں کا حکمراں “
وحی الہی، عنایت ربانی ہمہ وقت ہو جن کی نگہباں ، جبرئیل ہوں جن کے رہبر ورہنما ، اور توفیق الہی ہو جن کے شانہ بہ شانہ !
اس ذات کے بلندیِ مرتبہ کا کیا ہے کوئی ٹھکانہ ؟
بدر منیر سا چمکتا چہرہ ، ہونٹوں پہ مسکراہٹ ، نرم گفتار نرم گداز وشیریں سخن ، پیشانی پہ نور ، دل خلق خدا کی محبت سے معمور، ہاتھ میں فتح مبین اور انقلاب واصلاح کی ایسی کنجی کہ:
مفاسد کا زیر و زبر کرنے والا
قبائل کو شیر و شکر کرنے والا
اتر کر حِرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا
مس خام کو جس نے کندن بنایا
کھرا اور کھوٹا الگ کر دکھایا
عرب جس پہ قرنوں سے تھا جہل چھایا
پلٹ دی بس اک آن میں اس کی کایا
رہا ڈر نہ بیڑے کو موجِ بلا کا
اِدھر سے اُدھر پھر گیا رخ ہوا کا
سوچئے تو سہی ! کوئی حد ہے ان کے عروج وکمال کی ؟
تلوار کی چھائوں اور تیر وتفنگ کی بوچھاڑ کے لمحات میں بھی صدق وصفاء ، رب کے حضور طاعت و انقیاد کا درس انسانیت کو دیتے رہے ۔
وہ رب کے ایسے دلارے ہیں ، جو ہر قسم کے زیغ وضلال اور انحراف سے یکسر پاک
ان کا کلام “قانون شریعت “ ، ان کافرمان “دین متین” اور ان کی سنت “وحی ربانی” ہے ۔
ایسے بدر منیر اور اکمل و اطہر پہ ہرزہ سرائی کرنا سورج پہ تھوکنے کی حماقت کرنے کے مرادف ہے
اس نبی مختار کی عزت وحرمت اور اس کے لائے ہوئے دین وکتاب کی نصرت و حمایت تاقیامت زندہ و جاوید رکھنے کی ذمہ داری رب کائنات کے ذمے ہے ، بد زبانوں کی بد گوئی اور گستاخوں کی گستاخی سے ناموس رسالت کو کوئی خطرہ ہے نہ اس کی عزت وشان میں سر مو فرق آنا ممکن ہے ، ابو جہل وابولہب ، کعب بن اشرف ،ابو رافع اور اس کے حواری موالی سب اپنے عبرتناک انجام بد کو پہنچے ہیں اور پہنچتے رہیں گے ان شاء اللہ !
ایسا ممکن نہیں کہ ناموس رسالت میں بے ادبی کا مرتکب خداوند کریم کی پکڑ سے بچ جائے :
فَحَاقَ بِالَّذِينَ سَخِرُوا مِنْهُم مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ(الأنبياء – 41۔۔اور تم سے پہلے بھی (بہت) سے رسولوں کی ہنسی اڑائی۔ پھر ہنسی اڑانے والوں پر (وہی) بلا آپڑی کہ جس کی وہ ہنسی اڑایا کرتے تھے)
توہین رسالت کے منصوبہ بند طاغوتی کوششوں کے موقع سے در اصل ہم مسلمانوں کے دین و ایمان کے بقاء کا خطرہ ہے ، ہمارے ایمان اور حب رسول کی آزمائش ہے کہ آیا ہم جماعتی ، ادارتی ، مسلکی ، قومی ، وطنی اور لسانی خولوں میں بٹ کر خاموش تماشائی بن کر دین و ایمان کا سودا کربیٹھتے ہیں یا ان تمام خولوں سے باہر نکل محض کلمے کی بنیاد پر متحد ہوں اور اس طوفان بلاخیز کے سامنے سینہ سپر ہوکر اس موج بلا کو پیچھے دھکیل دیں :
غبار آلودۂ رنگ و نَسب ہیں بال و پر تیرے
تُو اے مُرغِ حرم! اُڑنے سے پہلے پَرفشاں ہو جا
لعنت ہو ایسی زندگی پر
اس کے شب وروز پر
کہ ناموس رسالت پہ حملے ہورہے ہوں
سر مجلس حرمت رسول کا استہزاء کیا جارہا ہو اور ہم مصلحت اندیشی کی چادر تانے سو رہے ہوں۔
اگر ہم رسول بر حق کے دفاع کرنے سے عاجز ہوجائیں تو ہمارے لئے زمین کا اندرونی حصہ ظاہری حصہ سے زیادہ بہتر ہے۔
ضرورت ہے کہ فسطائی قوتوں کی اس شر انگیزی میں تمام مسلم تنظیموں، جماعتوں، اداروں ،دوراندیش قائدین، اورعاقبت اندیش مذہبی رہنما اپنے مسلکی، نظریاتی اور طریقہ کار میں اختلافات کے باوجود متحد ہوں ، ملکی آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اس کے خلاف متحدہ آواز بلند کریں ، قریہ قریہ ، شہر شہر پر آمن احتجاجات منظم کئے جائیں ، گستاخوں کو گرفتار کر قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کریں ، دنیا کی مختلف زبانوں میں مضامین لکھے جائیں ، مسلمانان عالم اور ان کے قائدین کی توجہ ادھر مبذول کرائی جائیں ، عالمی پیمانے پہ مذہبی شخصیات کے احترام وتکریم کو لازمی بنانے کے لئے مؤثر قانون سازی کا پرزور مطالبہ کیا جائے ۔