بہرائچ میں فرقہ وارانہ تشدد
🖋نازش ہما قاسمی ( ممبئی اردو نیوز )
____________________
اتر پردیش کے بہرائچ میں میں حالیہ فرقہ وارانہ تشدد نے علاقے میں ایک سنگین صورتحال پیدا کر دی ہے ۔ ہنگامہ درگا مورتی کے وسرجن کے دوران ایک ہندو شدت پسند نوجوان کے ، گولی مار کر قتل ہونے کے بعد شروع ہوا ۔ گولی مارنے کی واردات کے بعد علاقے بھر میں ہنگامہ برپا ہوا ، اور ہندو شدت پسندوں نے مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں پر حملے کیے ۔ ان حملوں میں نہ صرف توڑ پھوڑ کی گئی بلکہ کئی مقامات پر آتش زنی بھی کی گئی ۔ ایک اسپتال اور ہونڈا گاڑی کے ایک مال کو بھی آگ کے حوالے کردیاگیا ۔ بہرائچ کے حالات کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مقامی انتظامیہ نے فوراً کرفیو نافذ کر دیا اور انٹرنیٹ سروس کو معطل کر دیا ، اس کے نتیجے میں عوام میں خوف و ہراس پھیل گیا اور مختلف علاقوں میں مسلمان کمیونٹی کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کا عمل شروع کر دیا گیا ۔ یہ اقدام اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ حکومت کی طرف سے امن و امان کی بحالی کے لیے اقدامات کتنے ضروری ہیں ۔ پولیس نے تشدد کی صورتحال کو قابو میں رکھنے کے لیے اضافی فورسز طلب کیں ۔ اس معاملے میں ہوم سکریٹری اور اعلیٰ پولیس افسران کو بھی موقع پر بھیجا گیا ۔ تاہم ، پولیس کی کارروائیوں کے بارے میں عوامی رائے میں ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے ۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ پولیس نے مؤثر طریقے سے کارروائی نہیں کی ، جس کی وجہ سے تشدد بڑھتا گیا ۔ اس تشدد کے پیچھے کی وجوہات پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ عصبیت اور فرقہ وارانہ نفرت نے اس واقعے کو جنم دیا ہے ۔ مختلف سیاسی جماعتوں نے اس تشدد کی مذمت کی ہے اور حکومت کی کارکردگی پر سوال اٹھائے ہیں ۔ خاص طور پر اپوزیشن رہنماؤں نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت کو امن و امان کی بحالی کے لیے مؤثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ بہرائچ کے واقعے کے بعد ، وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ، پولیس کو سختی سے شرپسندوں سے نمٹنے کی ہدایت دی ہے ۔ انہوں نے افواہیں پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کی بھی ہدایت دی ہے ۔ اس کے باوجود ، عوام کا اعتماد حکومتی کارروائیوں پر بحال نہیں ہوا ہے ، خاص طور پر مسلمانوں میں خوف و ہراس کی کیفیت بڑھ گئی ہے ۔ یہ واقعہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ حکومت کو امن و امان کی بحالی کے لیے فوری طور پر مؤثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ ایک جانب جہاں حکومت کو ایسے واقعات کے پیچھے کی وجوہات کا تجزیہ کرنا چاہیے ، وہیں دوسری جانب عوامی اعتماد کو بحال کرنے کے لیے بھی اقدامات کرنے ہوں گے ۔ اس تشدد کی صورت حال نے ایک بار پھر اس بات کو واضح کیا ہے کہ معاشرتی ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے ہر ایک کی ذمہ داری ہے کہ وہ امن قائم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے ۔ عوام کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر رہنے کی ترغیب دینا ضروری ہے تاکہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات کی روک تھام کی جا سکے ۔ یہ واقعہ اس بات کی بھی عکاسی کرتا ہے کہ اتر پردیش کی حکومت کو اپنی مسلم مخالف شبیہ سے باہر نکل کر ایک جامع اور متوازن حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے ۔ ایسے حالات میں ، حکومت کو عوام میں اعتماد بحال کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کرنے ہوں گے ، علاوہ ازیں ، یہ بھی ضروری ہے کہ حکومت ایسے واقعات کے پیچھے کے عوامل کی نشاندہی کرے ۔ یہ صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری نہیں ہے ، بلکہ عوام کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے کوششیں کریں ۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ بہرائچ کے حالیہ واقعات نے نہ صرف علاقے بلکہ پورے ملک میں امن و امان کی صورتحال کو متاثر کیا ہے ۔ اگرچہ حکومت نے فوری طور پر کارروائیاں کی ہیں ، لیکن اس بات کی ضرورت ہے کہ عوامی اعتماد کو بحال کرنے کے لیے مزید اقدامات کیے جائیں ۔ اس کے بغیر ، نہ صرف بہرائچ بلکہ پورے ملک میں امن و امان کی بحالی ایک چیلنج بن جائے گی ۔