Slide
Slide
Slide

سر سید احمد خان کا خواب اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی: عظمت سے زوال تک اور احیاء کی ضرورت

سر سید احمد خان کا خواب اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی: عظمت سے زوال تک اور احیاء کی ضرورت

✍️ تفہیم الرحمن

__________________

سر سید احمد خان (1817-1898) ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ایک فکری اور تعلیمی انقلاب کا نام ہیں۔ 1857 کی جنگ آزادی کے بعد جب دہلی کا جائزہ لیا تو دیکھا کہ ہندوستاں میں برادران وطن ترقی کے منازل پہ درپہ طئے کر رہے ہیں لیکں مسلمان؛
‎ خصوصاً جامع مسجد کے سامنے، مسلمان بدقسمتی سے زوال کی طرف بڑھ نہیں رہے ہیں بلکہ اپنی زوال کی بد ترین عبارت نقش کررہے ہیں ۔ سر سید نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ مسلمان مرغے کی لڑائی، بٹیر کی لڑائی، جوا، شرطیں لگانا اور نشہ خوری جیسی بے مقصد سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ یہ وہ علامات تھیں جو ایک ہاری ہوئی قوم کی نشاندہی کرتی تھیں، جو اپنی عزت اور امید کھو چکی تھی۔

سر سید نے اس زوال پذیر حالت کو دیکھ کر یہ فیصلہ کیا کہ ہندوستان چھوڑنے کے بجائے، مسلمانوں کو بیدار کیا جائے تاکہ وہ خود کو جدید دنیا کے تقاضوں کے مطابق ڈھال سکیں اور عزت و وقار کی زندگی گزار سکیں۔ ان کے دل میں یہ بات بیٹھ چکی تھی کہ اگر مسلمان اپنے طریقے نہیں بدلیں گے اور علم کی طرف رخ نہیں کریں گے تو نہ صرف ان کا مقام ختم ہو جائے گا، بلکہ وہ دوسرے قوموں کی نظر میں بھی بے وقعت ہو جائیں گے۔

‎اسی شعور کے تحت، سر سید نے مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے علی گڑھ تحریک کا آغاز کیا اور 1875 میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج (MAO) کی بنیاد رکھی، جو بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) بن گئی۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا قیام صرف ایک تعلیمی ادارہ بنانے کا عمل نہیں تھا؛ بلکہ سر سید کا خواب تھا کہ مسلمانوں کو فکری اور علمی طور پر بیدار کیا جائے اور انہیں جدید علوم میں مہارت حاصل کرنے کے لیے تیار کیا جائے تاکہ وہ دوبارہ عزت و وقار کی زندگی گزار سکیں۔

سر سید کا پیغام بالکل واضح تھا: اگر مسلمان اپنی حالت نہیں بدلیں گے اور جدید تعلیم اور سائنسی ترقی کو نہیں اپنائیں گے تو وہ ہمیشہ پسماندگی کا شکار رہیں گے۔ انہوں نے مسلمانوں کو یہ باور کرایا کہ علمی اور سائنسی ترقی ہی وہ راستہ ہے جس کے ذریعے مسلمان اپنے کھوئے ہوئے مقام کو دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں۔

لیکن آج جب اس دانشکدے کا جائزہ لیا جاتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ سر سید کا خواب اس کی تعبیر سے صرف دور ہی نہیں ہے بلکہ گمنام راستوں پر جل پڑا ہے۔

حال ہی میں مجھے ہندوستان کے آئی آئی ٹی (انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی) جیسے ممتاز اداروں کا دورہ کرنے کا موقع ملا۔ وہاں کی تعلیمی اور تحقیقی ثقافت، طلبہ کی مصروفیات، اور ان کی قائدانہ صلاحیتوں کو دیکھ کر حیرت ہوئی۔ ہر سال ان اداروں میں مزید بہتریاں اور مثبت تبدیلیاں شامل ہو رہی ہیں۔ آئی آئی ٹی میں طلبہ کا تعلیمی ماحول اور فکری ترقی ایک ایسی کامیابی کی داستان بیان کرتی ہے جو مسلسل ترقی کی طرف گامزن ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

‎لیکن جب میں نے حال ہی میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا دورہ کیا، جو خاکسار کا مادر علمی بھی ہے تو مجھے صورتحال بالکل برعکس نظر آئی۔ جہاں آئی آئی ٹی میں ترقی پسندانہ سوچ اور تعلیمی مصروفیات عروج پر تھیں، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا ماحول جامد اور پرانی روایات میں پھنسا ہوا دکھائی دیا۔ ایسا لگا کہ یونیورسٹی میں وہ علمی اور فکری جذبہ نہیں رہا جو کسی اعلیٰ تعلیمی ادارے کی پہچان ہونا چاہیے۔ طلبہ میں بڑے خواب دیکھنے اور قومی یا بین الاقوامی سطح پر کامیابیاں حاصل کرنے کی وہ حوصلہ افزائی نہیں کی جا رہی جو سر سید کا خواب تھا۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) ہر سال شمالی ہندوستان کے ہزاروں باصلاحیت مسلمان طلبہ کو داخلہ دیتی ہے، جو سخت امتحانات کے بعد یہاں داخل ہوتے ہیں۔ یہ وہ ذہین اور محنتی نوجوان ہیں جو اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر اس عظیم ادارے کا حصہ بنتے ہیں، لیکن افسوس کہ ان کا مستقبل یہاں داخل ہوتے ہی دھندلا جاتا ہے۔ اے ایم یو کے اسکولوں میں تعلیم کا معیار اتنا کمزور ہے کہ تقریباً 95 فیصد طلبہ قومی مقابلے کے امتحانات میں کامیابی کے معیار تک پہنچنے سے قاصر رہتے ہیں۔ جس ادارے کو ان کے روشن مستقبل کی ضمانت بننا تھا، وہ دراصل ان کی قابلیت اور صلاحیتوں کو برباد کر رہا ہے۔

یونیورسٹی کے اسکولوں کا معیار صرف خراب نہیں، بلکہ خطرناک حد تک ناقص ہو چکا ہے۔ وہ تعلیمی فضیلت اور فکری معیار، جس کی امید اس قومی ادارے سے کی جاتی ہے، آج یہاں ندارد ہے۔ اور المیہ یہ ہے کہ اس پر کوئی سوال بھی نہیں اٹھا سکتا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اے ایم یو جیسے ادارے، جو ملک بھر کے بہترین ذہین طلبہ کا انتخاب کرتا ہے، ان طلبہ کو تعلیمی پستی کی طرف دھکیل دے؟ اس ناکامی کا ذمہ دار کون ہے؟ اور اس سب کے باوجود، کسی سے جوابدہی نہیں کی جاتی۔

‎دنیا بھر میں پھیلے ہوئے علی گڑھ کے سابق طلبہ یقیناً اس صورتحال پر سوال اٹھا سکتے تھے، لیکن بدقسمتی سے اے ایم یو نے اپنے طلبہ میں ایک ایسا کلچر پیدا کیا ہے، جسے مقامی زبان میں “مکھن بازی” کہا جاتا ہے—یعنی خوشامد اور بے جا تعریف۔ وہ سابق طلبہ، جنہیں یونیورسٹی کے انتظامیہ سے جواب طلب کرنا چاہیے تھا، وہ بھی اسی چاپلوسی کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں۔ لیکن ان کی ذمہ داری کہیں زیادہ ہے۔ عالمی معیار اور دنیا کے مختلف نظاموں سے واقفیت کی بدولت، وہ بخوبی سمجھتے ہیں کہ اس نظام میں خامیاں کہاں ہیں۔ شاید ان کی تنقیدی آواز ہی یونیورسٹی کی انتظامیہ کو بیدار کر سکے اور اے ایم یو کو دوبارہ اس عظمت کی طرف لے جائے، جس کا خواب سر سید احمد خان نے دیکھا تھا۔

اب وقت آگیا ہے کہ علی گڑھ کے سابق طلبہ آگے بڑھ کر سوال کریں کہ کیوں یہ باصلاحیت طلبہ ایک ایسے تعلیمی نظام کی نذر ہو رہے ہیں، جو ان کی کامیابی کے خواب کو چکنا چور کر رہا ہے؟ ان کا عالمی تجربہ اور بصیرت شاید وہ چنگاری ہو جو اے ایم یو کو اس عظیم مقام پر واپس لے جائے، جہاں سے یہ ادارہ نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر میں ایک علمی مینار کی حیثیت سے اپنی شناخت دوبارہ قائم کر سکے۔

‎سر سید نے مسلمانوں کو فکری اور سماجی انقلاب کے ذریعے بیدار کرنے کی کوشش کی تھی، اور ان کا خواب تھا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایک علمی اور تحقیقی مرکز بنے۔ تاہم، آج یونیورسٹی میں مباحثہ کلچر، جو کبھی علمی اور فکری ترقی کا ذریعہ تھا، اب جامد ہو چکا ہے۔ وہ مکالمے اور مباحثے، جو طلبہ کو فکری طور پر مضبوط بنانے کا سبب بنے تھے، اب جوش و جذبے میں شدید کمی دیکھی جا سکتی ہے ۔

یہ بھی پڑھیں:

‎یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ، جو کبھی قومی اور بین الاقوامی سطح پر کامیابیاں حاصل کرتے تھے، آج وہ نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر رہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ طلبہ اب زیادہ تر پیشہ ورانہ کورسز میں داخلے کے لیے داخلی کوٹے internal shop کا فائدہ اٹھانے کی طرف مائل ہیں، اور ان کے اندر وہ جوش و جذبہ نہیں رہا جو سر سید چاہتے تھے۔جب طالب علم کا خواب چھوٹے ہوں تو اس کی تعبیر اور چھوٹی ہو جاتی ہے۔ علی گڑھ میں یہی ہورہاہے ۔ اقربا پرستی نے اس ادارے کے اساتزوں سے طالب علموں سے وہ رعب سلب کر لئے ہیں جو ایک مشفق استاد کے لئے ہونا چاہئے تھا

‎مزید برآں، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے خواتین کی تعلیم کے فروغ میں بھی ایک نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ سر سید کی تحریک کے نتیجے میں خواتین کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بہترین مواقع ملے اور یونیورسٹی نے ہمیشہ خواتین کو ایک محفوظ اور سازگار تعلیمی ماحول فراہم کیا ہے۔ آج بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی خواتین کے لیے ایک محفوظ تعلیمی مرکز کے طور پر جانی جاتی ہے، جہاں طالبات بلا خوف اپنی تعلیم مکمل کر سکتی ہیں۔لیکں اس میدان میں جو ہمارے اصلاف کرکے۔ لے گئے اسی کو بچائے رکھنا کسی دانشکدے کی ترقی نہیں کہی جاسکتی بلکہ حالیہ دنوں کے ذمداران کے وہ اقدام جس سے اس ادارے مین کوئی مٽبت تبدیلی آئے ایسی کوئی سرگرمی نہیں دکھتی

‎علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو آج اپنے تعلیمی معیار اور تحقیقی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ سر سید احمد خان کا خواب تھا کہ یہ یونیورسٹی ایک علمی اور تحقیقی مرکز بنے، جہاں سے فارغ التحصیل طلبہ دنیا میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوائیں۔ لیکن آج، یونیورسٹی کی صورتحال اس خواب سے بہت دور نظر آتی ہے۔

‎سر سید احمد خان کا خواب صرف ایک تعلیمی ادارے کا قیام نہیں تھا؛ وہ چاہتے تھے کہ مسلمان علمی، فکری اور معاشرتی ترقی کے ذریعے دنیا میں دوبارہ اپنا مقام حاصل کریں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو دوبارہ اپنے بنیادی اصولوں کی طرف لوٹنا ہوگا اور تعلیمی اور تحقیقی معیار کو بہتر بنانا ہوگا تاکہ یہ یونیورسٹی ایک بار پھر قومی اور بین الاقوامی سطح پر علمی روشنی کا مینار بن سکے۔

‎ وقت آگیا ہے کہ علی گڑھ کے سابق طلبہ آگے بڑھ کر سوال کریں کہ کیوں یہ باصلاحیت طلبہ ایک ایسے تعلیمی نظام کی نذر ہو رہے ہیں، جو ان کی کامیابی کے خواب کو چکنا چور کر رہا ہے؟ ان کا عالمی تجربہ اور بصیرت شاید وہ چنگاری ہو جو اے ایم یو کو اس عظیم مقام پر واپس لے جائے، جہاں سے یہ ادارہ نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر میں ایک علمی مینار کی حیثیت سے اپنی شناخت دوبارہ قائم کر سکے۔

‎سر سید نے مسلمانوں کو فکری اور سماجی انقلاب کے ذریعے بیدار کرنے کی کوشش کی تھی، اور ان کا خواب تھا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایک علمی اور تحقیقی مرکز بنے۔ تاہم، آج یونیورسٹی میں مباحثہ کلچر، جو کبھی علمی اور فکری ترقی کا ذریعہ تھا، اب جامد ہو چکا ہے۔ وہ مکالمے اور مباحثے، جو طلبہ کو فکری طور پر مضبوط بنانے کا سبب بنے تھے، اب جوش و جذبے میں شدید کمی دیکھی جا سکتی ہے ۔

‎یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ، جو کبھی قومی اور بین الاقوامی سطح پر کامیابیاں حاصل کرتے تھے، آج وہ نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر رہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ طلبہ اب زیادہ تر پیشہ ورانہ کورسز میں داخلے کے لیے داخلی کوٹے internal shop کا فائدہ اٹھانے کی طرف مائل ہیں، اور ان کے اندر وہ جوش و جذبہ نہیں رہا جو سر سید چاہتے تھے۔جب طالب علم کا خواب چھوٹے ہوں تو اس کی تعبیر اور چھوٹی ہو جاتی ہے۔ علی گڑھ میں یہی ہورہاہے ۔ اقربا پرستی نے اس ادارے کے اساتزوں سے طالب علموں سے وہ رعب سلب کر لئے ہیں جو ایک مشفق استاد کے لئے ہونا چاہئے تھا

‎مزید برآں، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے خواتین کی تعلیم کے فروغ میں بھی ایک نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ سر سید کی تحریک کے نتیجے میں خواتین کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بہترین مواقع ملے اور یونیورسٹی نے ہمیشہ خواتین کو ایک محفوظ اور سازگار تعلیمی ماحول فراہم کیا ہے۔ آج بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی خواتین کے لیے ایک محفوظ تعلیمی مرکز کے طور پر جانی جاتی ہے، جہاں طالبات بلا خوف اپنی تعلیم مکمل کر سکتی ہیں۔لیکں اس میدان میں جو ہمارے اصلاف کرکے۔ لے گئے اسی کو بچائے رکھنا کسی دانشکدے کی ترقی نہیں کہی جاسکتی بلکہ حالیہ دنوں کے ذمداران کے وہ اقدام جس سے اس ادارے مین کوئی مٽبت تبدیلی آئے ایسی کوئی سرگرمی نہیں دکھتی

‎علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو آج اپنے تعلیمی معیار اور تحقیقی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ سر سید احمد خان کا خواب تھا کہ یہ یونیورسٹی ایک علمی اور تحقیقی مرکز بنے، جہاں سے فارغ التحصیل طلبہ دنیا میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوائیں۔ لیکن آج، یونیورسٹی کی صورتحال اس خواب سے بہت دور نظر آتی ہے۔

سر سید احمد خان کا خواب صرف ایک تعلیمی ادارے کا قیام نہیں تھا؛ وہ چاہتے تھے کہ مسلمان علمی، فکری اور معاشرتی ترقی کے ذریعے دنیا میں دوبارہ اپنا مقام حاصل کریں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو دوبارہ اپنے بنیادی اصولوں کی طرف لوٹنا ہوگا اور تعلیمی اور تحقیقی معیار کو بہتر بنانا ہوگا تاکہ یہ یونیورسٹی ایک بار پھر قومی اور بین الاقوامی سطح پر علمی روشنی کا مینار بن سکے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: