دیکھیں، سمجھیں اور غور کریں!!!
دیکھیں، سمجھیں اور غور کریں!!!
🖋 غلام مصطفےٰ نعیمی
روشن مستقبل دہلی
__________________
شملہ:
شملہ میں مسجد پر ہوئے تنازع کے بعد مقامی ہندوؤں نے مسلمانوں کا اقتصادی بائکاٹ کرنے کے لیے "سناتنی دکان” کا بیڑا اٹھایا ہے۔جس کے تحت سبزی، پرچون اور دودھ وغیرہ کا کام کرنے والے مسلمانوں کا بائکاٹ کرنے کے لیے ہندو دکانوں پر "سناتنی دکان” کا بورڈ لگانے کی مہم شروع کی گئی ہے تاکہ بھولے سے بھی کوئی ہندو کسی مسلمان سے سامان نہ خرید لے۔ہندو تنظیمیں گھوم گھوم کر بورڈ لگانے اور ہندو دکان داروں ہی سے سامان خریدنے کی مہم چلا رہی ہیں تاکہ آئندہ مسلمان کوئی بھی مسجد یا مدرسہ بنانے اور ہندوؤں سے آنکھ ملانے کی ہمت نہ کرے۔
ممبئی:
بارہ اکتوبر کی رات کو ممبئی کے مشہور سیاسی لیڈر بابا صدیقی کا قتل کر دیا گیا۔بابا صدیقی تین بار کے ایم ایل اے اور سابق وزیر تھے۔ان کا بیٹا ذیشان انہیں کی سیٹ سے ممبر اسمبلی ہے۔فی الحال بابا صدیقی بی جے پی الائنس کا حصہ تھے۔ان کے قتل کا الزام لارینس بشنوئی گینگ پر لگ رہا ہے۔جیسے ہی بابا صدیقی کے قتل اور اس میں ایک ہندو گینگ کی شمولیت کی خبر عام ہوئی، فوراً ہی شدت پسندوں نے جشن منانا شروع کر دیا۔زیادہ دن نہیں گزرے جب لارینس گینگ نے راجپوت کرنی سینا کے صدر سُکھ دیو سنگھ کو اس کے گھر ہی میں گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔اس وقت سارے شدت پسند مارے غصے کے باہر تھے لیکن آج مرنے والا مسلمان نکلا تو سبھی لوگ خوشیاں منا رہے ہیں اور بشنوئی کو رام بھکت کہہ کر اس کا گن گان کر رہے ہیں۔
اجمیر شریف:
ستائیس ستمبر کو اجمیر کے دیوانی کورٹ میں درگاہ غریب نواز کے خلاف ہندو سینا کے صدر وشنو گپتا نے کیس فائل کیا ہے۔گپتا کا دعوی ہے کہ درگاہ اصل میں مہا دیو مندر ہے جسے مسلم حملہ آوروں نے توڑ دیا اور اسی پر خانقاہ تعمیر کر ڈالی۔اس کا مطالبہ ہے کہ عدالت مسلمانوں سے درگاہ خالی کرائے اور وہاں مندر تعمیر کرنے کی اجازت دے۔اس سے پہلے مہا رانا پرتاپ سینا اور ہندو شکتی دَل جیسے شدت پسند گروپ بھی درگاہ غریب نواز کے خلاف پروپیگنڈہ کر چکے ہیں کہ درگاہ، شو مندر توڑ کر بنائی گئی ہے لیکن اب یہ لوگ پروپیگنڈے سے ایک قدم آگے بڑھ کر کورٹ پہنچ گیے ہیں۔آہستہ آہستہ یہ پروپیگنڈہ عوام تک پھیلایا جارہا ہے کہ درگاہ غریب نواز ایک ناجائز قبضہ ہے جسے خالی کرانا بے حد ضروری ہے۔
ہہرائچ
تیرہ اکتوبر 2024 کو ضلع بہرائچ کے مہسی گاؤں میں اس وقت فساد برپا ہوگیا جب ایک ہندوؤں کی شوبھا یاترا مسلم اکثریتی محلے سے گزری۔موصولہ اطلاعات اور سابقہ روایات کے مطابق ڈی جے اور شوبھا یاتری دونوں ہی آپے سے باہر تھے۔دوران مستی ایک گھر پر اسلامی جھنڈا نظر آیا جسے گرانے کے لیے گوپال مشرا نامی نوجوان چھت پر چڑھ گیا۔نیچے کھڑی بھیڑ نہایت جوشیلے نعروں سے اس نوجوان کا حوصلہ بڑھا رہی تھی نوجوان نے اسلامی جھنڈے کو اتنی زور سے کھینچا کہ جھنڈے کے ساتھ ساتھ چھت کی منڈیر بھی اکھڑ گئی۔نوجوان فاتحانہ انداز میں بازو لہرانے لگا اتنے میں کسی نے نیچے سے بھگوا جھنڈا پھینکا جسے اس نوجوان نے مسلم کی چھت پر اس طرح گاڑ دیا جس طرح کوئی دشمن کے قلعے پر اپنا جھنڈا لگاتا ہے۔ہندو عوام کے جوش وخروش کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ہنگامہ زیادہ بڑھا تو مسلمان بھی باہر نکلے تنا تنی ہوئی اور معاملہ بگڑ گیا۔بعد میں اس نوجوان کی گولی لگی لاش برآمد ہوئی۔پولیس نے وقتی طور پر معاملات کو سنبھالا لیکن اگلے دن ہندو عوام بے قابو ہوگئی اور انہوں نے بہت ساری دکانوں، مکانوں، اسپتال اور ایک گاڑی شو روم کو جلا ڈالا۔حالات اتنے بے قابو ہوئے کہ اے ٹی ایس چیف کو فیلڈ میں اترنا پڑا۔ہنوز معاملہ سرد نہیں پڑا ہے۔مسلمانوں کی مسجدوں اور املاک پر مسلسل حملے ہو رہے ہیں۔
حادثہ یا سازش؟
ہم نے ملک کے چار الگ الگ صوبوں کے چار واقعات سامنے رکھے ہیں۔یہ سبھی واقعات صرف ہفتے بھر کے اندر واقع ہوئے ہیں۔چاروں واقعات میں بہرائچ فساد کو چھوڑ کر ایک بھی معاملہ ایسا نہیں ہے جس میں براہ راست ہندو مسلم عوام کا ٹکراؤ ہوا ہو۔شملہ کا معاملہ مسجد کمیٹی اور میونسپلٹی کے درمیان ہے۔ممبئی حادثہ شوٹر گینگ اور صوبائی حکومت کا معاملہ ہے جب کہ اجمیر کا معاملہ سرے سے بات کیے جانے لائق ہی نہیں ہے لیکن پھر بھی تینوں ہی معاملات میں ہندو عوام کی جو دخل اندازی اور نفرت سامنے آئی ہے وہ حد درجہ تشویش ناک ہے۔اگر یہ صرف چند جذباتی لوگوں کی بات ہوتی تو وقتی جذباتیت سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا لیکن اس نفرت کو درست بل کہ ضروری ثابت کرنے کے لیے ہندو سماج کے تعلیم یافتہ اور مختلف میدانوں کے ماہرین ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔نیوز چینلوں سے سوشل میڈیا تک ایسے لوگ چوبیسوں گھنٹے ایکٹو ہیں جو مسلسل ہندوؤں کو اکسانے کا کام کر رہے ہیں۔اگر کوئی انصاف پسند ہندو ان کے خلاف کچھ کہہ دے تو ساری اخلاقیات بھول کر اسے "عبدل کا ناجائز بچہ” کہہ کر ماں بہن کی وہ گندی گندی گالیاں دیتے اور دلواتے ہیں کہ اچھا بھلا آدمی بیمار ہوجائے۔اس وقت شہروں سے لیکر دور افتادہ دیہاتوں تک مسلم دشمنی کے جذبات اس قدر پھیل گیے ہیں کہ اب نہ شہر کا مسلم دکان دار محفوظ ہے نہ گاؤں میں پھیری کرنے والا۔خاص بات یہ ہے ہر ہندو کے پاس مسلمانوں کے خلاف ایک جیسے ہی اعتراض ہیں، کیا یہ ساری باتیں محض اتفاق قرار دی جاسکتی ہیں؟
ایک جیسے اعتراض، ایک جیسا پیٹرن اور ایک جیسا ایکشن، صرف اتفاق مانا جا سکتا ہے؟
یہ سارے چیزیں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ سب منصوبہ بند اور مضبوط سازش کا حصہ ہیں۔جس کا بنیادی مقصد مسلمانوں کو نظریاتی اور اقتصادی طور پر اتنا بے دست و پا کر دینا ہے کہ وہ عزت اور خود داری سے جینا بھول جائیں۔ذلت اور رسوائی کو اپنا مقدر اور زندہ رہنے ہی کو غنیمت سمجھنے لگیں۔
غور تو کریں!
اس وقت کوئی مسجد محفوظ ہے نہ خانقاہ، دکان سلامت ہے نہ ٹھیلا، کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم سر جوڑ کر بیٹھیں اور بڑھتی ہوئی نفرت روکنے کی کوشش کریں؟
ارباب حل و عقد کی مسلسل خاموشی، یا اپنے روٹین کاموں میں مصروفیت کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔اب کوئی اس مغالطے میں نہ رہے کہ تعصب ونفرت کے واقعات صرف ہندو اکثریتی علاقوں ہی میں پیش آتے ہیں مسلم علاقے اس سے محفوظ ہیں۔اب تو شدت پسندوں کی ہمت اتنی بڑھ گئی ہے کہ انہوں نے اجمیر کلکٹریٹ میں سر عام غریب نواز کی شان میں بد کلامی کی۔خانقاہ رضویہ بریلی میں ہڑدنگ مچایا۔تاج محل میں پوجا اور جَل چڑھا دیا۔جب جہاں چاہیں مسلمانوں پر حملہ کر دیں کوئی روکنے والا نہیں ہے۔اس سے پہلے کہ یہ آگ سب کچھ جلا کر راکھ کر دے اٹھیے اور اسے بجھانے کی کوشش کیجیے۔عقل مندوں کی مجلس بلائیں، ان سے مشورہ کریں۔سر جوڑ کر بیٹھیں اور کوئی حل تلاشیں۔اگر اسی طرح اپنے اپنے کاموں میں لگے رہے تو ایک دن آپ بھی اسی نفرت کا نشانہ بن جائیں گے۔