مدارس سیکولرازم کے منافی نہیں
–
مدارس سیکولرازم کے منافی نہیں
✍️محمد نصر الله ندوی
___________________
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس چندر چوڑ نے جاتے جاتے مدرسہ بورڈ کے حوالہ سے اہم فیصلہ دیا،مدرسہ ایکٹ 2004 پر فیصلہ سناتے ہوئے انہوں نے جو کچھ کہا،وہ بہت معنی خیز ہے،انہوں نے ہائی کورٹ کی لکھنؤ بینچ کے فیصلہ کو پوری طرح خارج کرتے ہوئے ہائی کورٹ کو سیکولرازم کا مفہوم سمجھنے کی نصیحت دے ڈالی،انہوں نے کہا کہ مدرسہ کا وجود سیکولرازم کے منافی نہیں ہے،چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ جب تمام مذاہب کے مخصوص ادارے موجود ہیں،تو صرف مدارس سے دقت کیوں ہے؟اس ملک میں سرسوتی ششو مندر ہیں،گروکل ہیں،تو مدرسوں سے پریشانی کیوں؟انہوں نے صاف لفظوں میں کہا کہ ہمیں سیکولرازم کے مفہوم کو سمجھنے کی ضرورت ہے،انہوں نے آئین کی دفعہ 21 کی بھی وضاحت کی اور کہا کہ اس کے تحت ملک کے ہر شہری کو اپنے مذہب پر عمل کرنے،اس کی تعلیم دینے اور اس کی تبلیغ کرنے کی آزادی ہے۔
واضح رہے کہ 22مارچ کو لکھنؤ ہائی کورٹ کی بینچ نے مدرسہ ایکٹ 2004 کو غیر آئینی قرار دیدیا تھا،کورٹ نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ سرکاری اخراجات پر مذہب کی تعلیم دینا آئین کے منافی ہے،کورٹ نے حکم دیا کہ مدرسہ میں پڑھنے والے تمام بچوں کو سرکاری اسکولوں میں منتقل کیا جائے،اس فیصلہ سے ایک ہنگامہ برپا ہوگیا تھا،17 لاکھ طلبہ کا مستقبل تاریک نظر آنے لگا تھا اور اسی کے ساتھ ساتھ دس ہزار اساتذہ کی ملازمت بھی خطرہ میں پڑ گئی تھی،اس فیصلہ کے خلاف مدرسہ یونین کے اساتذہ نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا،کورٹ نے 5/اپریل کو ہائی کورٹ کے فیصلہ پر اسٹے لگا دیا ،پھر اس کیس میں تفصیلی سماعت ہوئی اور 5/نومبر کو سپریم کورٹ نے فائنل فیصلہ سنایا،جس کو چندر چوڑ کے آخری فیصلوں میں سے ،یادگار فیصلہ سمجھا جارہا ہے،جو آئندہ مدارس کے حوالہ سے ایک سنگ میل ثابت ہوگا۔
یادش بخیر ابھی کچھ دنوں پہلے این سی آر ٹی نے سپریم کورٹ کے سامنے ملک کے تمام غیر سرکاری مدار س مثلا : دیوبند،ندوہ،مظاہر علوم وغیرہ کو بند کرنے کی سفارش کی تھی،سپریم کورٹ نے اسے خارج کردیا اور حکومت کے اس نوٹس پر اسٹے لگادیا،جس میں ان اداروں کو بند کرنے کی بات کہی گئی تھی،ابھی اس مسئلہ پر حتمی فیصلہ باقی آنا ہے،تاہم سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ کا اس پر ضرور اثر پڑے گا اور امید ہے کہ سپریم کورٹ اس بابت راہنما خطوط جاری کرے گا۔
ملک کے طول وعرض میں پھیلے مدارس کی شاندار تاریخ رہی ہے،آج بھی محدود وسائل کے باوجود یہ مدارس علم وآگہی کی شمع روشن کئے ہوئے ہیں،لیکن جو علم کے دشمن ہیں اور جہالت سے جن کا رشتہ مضبوط ہے،ان کو مدارس کا وجود گوارا نہیں،ان کو آشرم پر کو ئی اعتراض نہیں،جہاں عصمتیں نیلام ہوتی ہیں اور اخلاق وکردار کا جنازہ نکالا جاتا ہے،ان کو شراب خانوں سے بھی کوئی دقت نہیں ہے،اور نہ ہی قحبہ خانوں سے کوئی پریشانی ہے،جہاں بنت حوا کی آبرو فروخت ہوتی ہے،ان کو بس مدارس کا غم کھائے جارہا ہے،جہاں تعلیم وتربیت کے جام لنڈھائے جاتے ہیں اور انسانیت سازی کے کل پرزے تیار کئے جاتے ہیں۔
مدرسہ بورڈ کے حوالہ سے سپریم کورٹ کا فیصلہ خوش آئند اور لائق ستائش ہے،اب مسلم یونیورسیٹی کے اقلیتی کردار پر بھی فیصلہ آنے والا ہے،چیف جسٹس چندر چوڑ حساب برابر کرنے کیلئے جانے جاتے ہیں،ایسا نہ ہو کہ مدرسہ دیکر ہم سے یونیورسیٹی چھین لی جائے،خدا نہ کرے ،اگر ایسا ہوا تو ہندوستانی مسلمانوں کا بہت بڑا نقصان ہوگا،ہمیں امید ہے کہ مسلم یونیورسیٹی کے مسئلہ میں بھی عدالت عظمی عدل وانصاف کے تقاضوں پر کھرا اترے گی اور ایسا فیصلہ سنائے گی جس سے ملک میں انصاف کی جڑیں مضبوط ہوں گی۔