ستم یہ ہے کہ انساں نوع انساں کا شکاری ہے !
ستم یہ ہے کہ انساں نوع انساں کا شکاری ہے !
از: محمد قمر الزماں ندوی
_________________
آج (24/نومبربروزیک شنبہ) دوپہر سے ہی جب سے شہر سنبھل سے متعلق خبریں موصول ہوئیں ہیں کہ وہاں جامع مسجد کے مسئلہ کو لے ماحول کشیدہ ہے، حالات اچھے نہیں ہیں، دو تین مسلم نوجوان شہید ہوگئے ہیں، تو دل و دماغ بہت متاثر اور طبیعت بجھی ہوئی ہے اور اس ملک کے مستقبل کو لے کر دماغ میں طرح طرح کے اور عجیب و غریب خیالات اور وسوسے آرہے ہیں اور اب یہ سمجھ میں آرہا ہے کہ حضرت مولانا علی میاں ندوی رح تحریک پیام انسانیت کے لیے، اس قدر فکر مند، کوشاں اور متحمس کیوں نظر آتے تھے، اور وہ اس ملک میں سلامتی اور امن و امان کے لیے، عدم تشدد ، نامذھبیت اور جمہوریت کو کیوں ضروری سمجھتے تھے، اور ان چیزوں کی اہمیت پر اور ان کے قائم رہنے پر اس قدر زور کیوں دیتے تھے؟ ۔
آج مولانا مرحوم وہ خطابات اور ان کی تقریروں کے وہ اقتباسات اور ٹکڑے یاد آرہے ہیں۔
آج کی مجلس میں اس ملک کی سالمیت کے لیے اور امن و شانتی کے لیے اور لوگوں کو مانوتا اور انسانیت بتانے کے لیے ہم مفکر اسلام حضرت علی میاں ندوی رح کے دل کی آواز اور درد کو ان کی تقریروں سے پیش کریں گے اور ہم اپنے قارئین سے یہ درخواست کریں گے،کہ اس کا ہندی ترجمہ اور انواد کرکے سماج کے مہذب طبقہ اور انسانیت نواز و امن پسند لوگوں تک بھیجیں اور انہیں بتائیں کہ ملک و قوم کی فکر کریں ورنہ کشتی ڈوبے گی تو کشتی کے ہم سارے مسافر غرق ہو جائیں گے ،ہلاک اور برباد ہو جائیں گے۔
مولانا نے ایک موقع پر ہندوستان کے کشیدہ اور تعفن زدہ ماحول میں کہا تھا :
،، عدم تشدد کے پودہ کے نکال دینے اور تباہ کردینے سے آج تشدد کا اژدہا منھ پھاڑ کر نکل آیا ،اور اس نے سارے ہندوستان میں قتل و غارتگری اور ظلم و سفاکی کا میدان گرم کردیا ،ایک ملک کے رہنے والے انسان کا، اسی ملک کے رہنے والے انسان پر ایسا ہاتھ اٹھا اور ایک فرقہ نے دوسرے فرقہ کے ساتھ سنگ دلی اور بے رحمی کا ایسا مظاہرہ کیا،جس کا نمونہ درندوں اور جانوروں میں بھی کم دیکھنے میں آتا ہے،شاعر کا یہ مصرعہ یاد آتا ہے کہ
ستم یہ ہے کہ انساں نوع انساں کا شکاری ہے
ہم نے کبھی نہیں سنا، اور آپ نے بھی نہیں سنا ہوگا کہ کسی جنگل میں ایک علاقہ کے بھیڑیوں نے فوج بنا کر دوسرے علاقہ کے بھیڑیوں پر حملہ کیا اور آپ برا نا مانیں کسی شہر کے ایک محلہ کے کتوں نے دوسرے محلہ کے کتوں پر لشکر کشی کی، اور اجتماعی طور پر ان سے زور آزمائی کی، لیکن ہندوستان میں جو اپنی امن پسندی ،انسانیت دوستی اور اہنسا کے لیے باہر کی دنیا میں مشہور تھا،وہاں آئے دن ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں، جو اس ملک کے نام کو بٹہ لگاتے ہیں اور ملک سے باہر جانے والوں کو شرمندگی سے سر جھکا لینا پڑتا ہے ،، ۔۔
مولانا مرحوم نے ہندوستان کے نازک صورتحال، پر ایک موقع پر فرمایا تھا کہ
،، حضرات! اگر دل کو چیر کر یا آنسوؤں کو بہا کر اس ملک کے پہاڑوں درختوں اور دریاؤں کے ذریعہ ہم آپ کو اس ملک کی کراہ سنوا سکتے ،تو ضرور اس کراہ کو آپ تک پہنچاتے ،اگر درخت اور جانور بولتے تو وہ آپ کو بتاتے کہ اس ملک کا ضمیر مجروح ہوچکا ہے ،اس کی عزت اور ناموری کو بٹہ لگایا جاچکا ہے اور وہ زوال و آزمائش کے ایک بڑے خطرہ سے دو چار ہے ،آج سنتوں، مذہبی پیشواؤں، دانشوروں،مصنفوں اور معلموں کو میدان میں آنے ،نفرت کی آگ بجھانے اور محبت کے چراغ جلانے کی ضرورت ہے ،اس ملک کی ندیاں ہمالیہ پہاڑ اور ملک کے ذرات بھی آپ سے درخواست کر رہے ہیں کہ آپ انسانوں کا خون نہ بہائیے، نفرت کے بیج مت بوئیے، معصوم بچوں کو یتیم ہونے سے اور بیویوں کو بیوہ ہونے سے بچائیے ،ہندستان کو جن لوگوں نے آزاد کرایا تھا ،انہوں نے عدم تشدد رواداری اور جمہوریت کے پودوں کی حفاظت کی ذمہ داری ہمارے سپرد کی تھی اور ہدایت کی تھی کہ ان پودوں کی حفاظت کریں، آج ہم ان پودوں کی حفاظت میں ناکام ہوگئے، جس کے باعث تشدد و تصادم کا عفریت اور دیو ہمارے سامنے منھ کھولے کھڑا ہے ،نفرت اور تشدد کی آگ ہماری ساری روایات کو جلا دینے پر آمادہ ہے ۔جن کے لیے ہم ساری دنیا میں مشہور تھے اور عزت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے ۔ (کاروان زندگی/ حصہ پنجم)
پیام انسانیت کے ایک جلسہ میں خطاب کرتے ہوئے ایک موقع پر آپ نے فرمایا تھا :
"اگر انسان کو انسان سے محبت نہ ہو ،انسان کو انسان کے دکھ درد کا احساس نہ ہو ،انسان انسان پر ترس نہ کھائے ،انسان انسان سے ہمدردی نہ کرے، تو وہ انسان نہیں بھیڑیا ہے اور کون ہے جو بھیڑیے کی تعریف کرتا ہے اور کون ہے جو بھیڑیے سے نفرت نہیں کرتا اور کون ہے جس کا بھیڑیے کی برائی سے دل نہیں دکھتا ہے ،اتنے بڑے مجمع میں ہے کوئی شخص ہے، جو یہ کہے کہ آپ بھیڑیے کی برائی کیوں کر رہے ہیں ،لیکن جب انسان بھیڑیا بن جائے تو کیوں آپ کا دل نہیں دکھتا، کیوں آپ کے دل پر چوٹ نہیں پڑتی،اس کے نام سے نفرت کا اظہار کیوں نہیں ہوتا،انسان بھیڑیا بننے کے لیے بنایا گیا ہے؟ انسان تو فرشتہ بننے کے لیے بنایا گیا ہے، انسان تو ولی بننے کے لیے بنایا گیا ہے ،انسان تو ہمدرد خلائق بننے کے لیے بنایا گیا ہے ،انسان کو تو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا ہے اور ہماری شاعری ،ہماری بول چال ہمارے احساسات اور ہماری مجلسوں میں اسی حیثیت سے اس کا تذکرہ کیا گیا ہے اور بھیڑیا بھیڑیا ہے ،آج تک بھیڑیا ہے ،سیکڑوں برس سے بھیڑیا ہے ،اور میں نے نہیں دیکھا کسی شاعر نے بھیڑیے کی شان میں قصیدہ کہا ہو اور کسی صحیح الدماغ آدمی نے بھیڑیے کو اپنا ہیرو بنایا ہو اور اپنا آئیڈیل سمجھا ہو، سانپ سے تو ہم نفرت کریں ،بھیڑیے اور تیندوے سے تو ہم نفرت کریں شیر اور چیتے سے تو ہم نفرت کریں اور وہی کام ہم کریں اور ہمیں شرم نہ آئے "-
"میں تو کہتا ہوں کہ ایک انسان کا ایک انسان پر ہاتھ اٹھتا کیسے ہے،اس ہاتھ کو دیکھنا چاہیے اس کو ڈاکٹروں کے پاس لے جانا چاہیے ،اس کی طبی جانچ کرانا چاہیے اس ہاتھ کو دیکھنا چاہیے کہ اس کے اندر کون سی چیز بھری ہے اور کس کا خون اس کے اندر دوڑ رہا ہے ؟،یہ ہاتھ انسان پر اٹھنے کے لیے نہیں بنایا گیا تھا، یہ ہاتھ بنایا گیا تھا ،انسان پر ظلم روکنے کے لیے ،انسان خواہ یورپ کا ہو، انسان خواہ افریقہ کا ہو، انسان خواہ امریکہ کا ہو، اس پر جہاں بھی زیادتی ہو ہمارا ہاتھ اٹھنا چاہیے اور زیادتی کو روکنا چاہیے،اگر گھر میں ہے تو وہاں بھی، راستہ چل رہا ہے تو وہاں بھی، بازار میں ہے تو وہاں بھی،مولانا حالی کہتے ہیں ،،
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرو بیاں