داعی کے اوصاف سیرت انبیاء کی روشنی میں
داعی کے اوصاف سیرت انبیاء کی روشنی میں
خلاصہ انفرادی دعوت
از: ڈاکٹر سلیم انصاری
جھاپا، نیپال
______________________
اسلام کی دعوتی تعلیمات انبیاء کرام علیہم السلام کی مبارک سیرت پر مبنی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کو انسانوں کی رہنمائی اور ہدایت کے لیے منتخب کیا اور ان کی زندگیوں کو دعوت کے اعلیٰ اصولوں کا نمونہ بنایا۔ انبیاء کی دعوت کا مقصد لوگوں کو اللہ کی طرف بلانا، ان کی اصلاح کرنا اور انہیں دنیا و آخرت کی کامیابی کا راستہ دکھانا تھا۔ انبیاء کی سیرت ہمیں داعی کے اوصاف اور اس کے طرزِ عمل کی رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ دعوت کے میدان میں انبیاء کا پیغام ہمیشہ توحید پر مبنی رہا۔ انہوں نے اپنی قوموں کو یہی پیغام دیا: *یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ* (سورۃ الاعراف: 59) یعنی اللہ کی بندگی کریں اور اس کے سوا کسی کو معبود نہ بنائیں۔ یہ دعوتی اصول ہر داعی کے لیے مشعلِ راہ ہے کہ وہ لوگوں کو اللہ کی بندگی کی طرف بلائے اور ان کے دلوں کو توحید کے نور سے روشن کرے۔
صاحبِ علم ہونا
داعی کے لیے علم اولین شرط ہے۔ علم کے بغیر دعوت دینا غیر مؤثر بلکہ نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ قرآن مجید میں رسول اللہ ﷺ کو دعا سکھائی گئی: *وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا* (سورۃ طٰہٰ: 114) یہ دعا ہر داعی کے لیے اہم ہے، کیونکہ علم دین کو سمجھنے، مسائل کو حل کرنے اور مخاطب کے سوالات کے جوابات دینے کا ذریعہ ہے۔ داعی کو قرآن و سنت کا علم، حکمت، اور موجودہ دور کے مسائل کا فہم ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنی دعوت کو مؤثر انداز میں پیش کرسکے۔ قرآن مجید میں کہا گیا: *قُلْ هَٰذِهِۦ سَبِيلِى أَدْعُوا۟ إِلَى ٱللَّهِ عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا۠ وَمَنِ ٱتَّبَعَنِى* (سورۃ یوسف: 108) یعنی بصیرت اور گہرے علم کے ساتھ دعوت دینا انبیاء کا طریقہ ہے۔ داعی کو چاہیے کہ وہ خود کو مسلسل علم حاصل کرنے میں مشغول رکھے تاکہ اس کی دعوت حقیقت پر مبنی ہو اور لوگوں کے دلوں پر اثر کرے۔
صاحبِ عمل ہونا
داعی کا کردار اس کے پیغام کی سب سے بڑی دلیل ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں سختی سے تنبیہ کی گئی: *لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ* (سورۃ الصف: 2) یعنی جو باتیں انسان خود نہیں کرتا، ان کی دعوت دینا منافقت کے زمرے میں آتا ہے۔ داعی کو چاہیے کہ وہ اپنے اعمال سے اپنی بات کی تصدیق کرے تاکہ اس کی دعوت پر لوگ یقین کریں اور اس کے کردار کو دیکھ کر متاثر ہوں۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے فرمایا: *وَمَا أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَىٰ مَا أَنْهَىٰكُمْ عَنْهُ* (سورۃ ہود: 88) یعنی داعی کا قول و فعل میں تضاد نہیں ہونا چاہیے۔ ایک داعی کو اپنے پیغام پر عمل کرکے لوگوں کے لیے عملی نمونہ پیش کرنا چاہیے، جیسا کہ انبیاء کرام نے کیا۔ یہ عملی دعوت مخاطب کے دل میں گھر کر جاتی ہے اور ایمان کو مضبوط کرتی ہے۔
اللہ سے ہی اجر کی امید رکھنا
داعی کو دنیاوی مفاد یا شہرت کی خواہش نہیں کرنی چاہیے۔ اس کا مقصد صرف اللہ کی رضا ہو، جیسا کہ تمام انبیاء کا طریقہ رہا: *”لَا أَسْلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا ۖ إِنْ أَجْرِىَ إِلَّا عَلَى ٱللَّهِ”* (سورۃ ھود: 29) یہ اخلاص داعی کے پیغام کو طاقت بخشتا ہے۔ جب داعی کسی ذاتی مفاد کے بغیر دعوت دیتا ہے تو اس کا پیغام دلوں میں اثر پیدا کرتا ہے اور مخاطب کو اپنی طرف مائل کرتا ہے۔ یہ رویہ انبیاء کی سیرت میں بار بار نظر آتا ہے۔ دنیاوی مفاد سے پاک دعوت صرف اللہ کے لیے ہوتی ہے اور اسی پر توکل کے ساتھ دی جاتی ہے۔ داعی کو چاہیے کہ وہ اپنی نیت کو خالص رکھے اور دنیاوی فوائد کی بجائے آخرت کی کامیابی کی امید کرے۔ یہی نیت داعی کو مضبوط اور پرعزم بناتی ہے۔
صرف اللہ کا خوف
دعوت کا راستہ مشکلات سے بھرا ہوا ہے، لیکن ایک داعی کو کسی کی مخالفت یا مزاحمت سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا: *ٱلَّذِينَ يُبَلِّغُونَ رِسَـٰلَـٰتِ ٱللَّهِ وَيَخْشَوْنَهُ وَلَا يَخْشَوْنَ أَحَدًا إِلَّا ٱللَّهَ* (سورۃ الاحزاب: 39) یہ خصوصیت داعی کو غیر متزلزل اور مضبوط بناتی ہے۔ اللہ کے خوف کے علاوہ کسی چیز کا خوف داعی کے کردار کو کمزور کرسکتا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا فرعون کے دربار میں دعوت دینا اس بات کی اعلیٰ مثال ہے۔ داعی کو چاہیے کہ وہ اللہ پر بھروسہ رکھے اور لوگوں کے ردعمل کی پروا نہ کرے۔ جب داعی صرف اللہ کا خوف دل میں رکھے گا، تو اس کی دعوت میں تاثیر اور صداقت پیدا ہوگی۔
حکمت اور دانائی کے ساتھ دعوت دینا
دعوت کا عمل ایک عظیم ذمہ داری ہے جو حکمت اور دانائی کا تقاضا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس اصول کو واضح کرتے ہوئے فرمایا: "ٱدْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِٱلْحِكْمَةِ وَٱلْمَوْعِظَةِ ٱلْحَسَنَةِ وَجَـٰدِلْهُم بِٱلَّتِى هِىَ أَحْسَنُ” (سورۃ النحل: 125) یعنی دعوت کا انداز نرم، شائستہ، اور حکمت پر مبنی ہونا چاہیے۔ اس کی ایک عملی مثال حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ہے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے فرعون جیسے جابر بادشاہ کو بھی نرم اور مؤثر انداز میں بات کرنے کا حکم دیا: "فَقُولَا لَهُۥ قَوْلًۭا لَّيِّنًۭا لَّعَلَّهُۥ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَىٰ” (سورۃ طٰہٰ: 44) یہ حکمت ہمیں سکھاتی ہے کہ سخت رویہ یا جارحانہ انداز مخاطب کے دل کو بند کر سکتا ہے، لیکن نرم دلی اور دانشمندی دلوں کو جیت سکتی ہے۔
صبر و استقامت
دعوت کا راستہ ہمیشہ آسان نہیں ہوتا بلکہ یہ آزمائشوں اور مشکلات سے بھرا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں صبر کی اہمیت کو بار بار اجاگر کیا: "وَٱصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ إِلَّا بِٱللَّهِ” (سورۃ النحل: 127) رسول اللہ ﷺ کی زندگی صبر و استقامت کا بہترین نمونہ ہے۔ جب طائف میں آپ ﷺ کو اذیت دی گئی تو آپ نے بددعا کرنے کے بجائے ان کے لیے ہدایت کی دعا کی۔ مکہ کے مشرکین کی شدید مخالفت کے باوجود آپ ﷺ نے دعوت کو جاری رکھا اور کبھی بھی اپنے مشن میں مایوسی کا شکار نہیں ہوئے۔ صبر نہ صرف آزمائشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے بلکہ یہ دعوت کو جاری رکھنے کی قوت بھی فراہم کرتا ہے۔
خیر خواہی
دعوت کا مقصد انسانیت کی بھلائی اور ان کی اصلاح ہے۔ اس لیے ایک داعی کے دل میں خیر خواہی اور ہمدردی کا جذبہ ہونا چاہیے۔ قرآن مجید میں حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر آتا ہے، جنہوں نے اپنی قوم سے کہا: "أُبَلِّغُكُمْ رِسَـٰلَـٰتِ رَبِّى وَأَنصَحُ لَكُمْ” (سورۃ الاعراف: 62) یہاں ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ داعی کی نیت میں خلوص اور مخاطب کے لیے خیر خواہی ہونی چاہیے۔ بغیر خیر خواہی کے دی گئی دعوت بے اثر ہو سکتی ہے۔ داعی کو اپنے کردار، الفاظ، اور عمل سے یہ ثابت کرنا چاہیے کہ اس کا مقصد لوگوں کی بھلائی اور ہدایت ہے، نہ کہ ذاتی مفادات۔
مشترکہ نکات کی طرف دعوت
اختلافات کو کم کرنے اور دلوں کو قریب لانے کے لیے داعی کو مشترکہ نکات پر بات چیت کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "تَعَالَوْا۟ إِلَىٰ كَلِمَةٍۭ سَوَآءِۭ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ” (سورۃ آل عمران: 64) یہ اصول خاص طور پر اہلِ کتاب اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ گفتگو کے لیے نہایت اہم ہے۔ اگر داعی مخاطب کے عقائد میں مشترکہ نکات کو سامنے لائے تو یہ پیغام کے مؤثر ہونے کے امکانات کو بڑھاتا ہے۔ مثلاً، توحید کے تصور کو بنیاد بناتے ہوئے مختلف مذاہب کے ماننے والوں کو قریب کیا جا سکتا ہے۔
تدریج
دعوت کے عمل میں تدریج یعنی مرحلہ وار انداز اختیار کرنا ضروری ہے۔ انبیاء کرام نے ہمیشہ اپنی دعوت کو ایک منظم انداز میں پیش کیا۔ حضرت محمد ﷺ نے مکہ مکرمہ میں اپنے مشن کا آغاز توحید کی دعوت سے کیا اور مدینہ منورہ میں جب اسلامی ریاست قائم ہوئی تو معاشرتی، قانونی، اور اقتصادی نظام کے احکامات کو متعارف کرایا۔ یہ اصول ہمیں سکھاتا ہے کہ مخاطب کی ذہنی سطح اور حالات کے مطابق دعوت کو پیش کیا جائے۔ اچانک سخت احکامات دینے کے بجائے تدریج سے آگاہی دینا زیادہ مؤثر ہوتا ہے۔
دلائل سے مزین ہونا
دعوت کے لیے مضبوط دلائل کا ہونا لازمی ہے تاکہ سننے والے کو پیغام کی حقانیت سمجھ میں آئے۔ قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مثال دی گئی ہے، جنہوں نے اپنی قوم کو اللہ کی وحدانیت کی طرف متوجہ کرنے کے لیے ستاروں، چاند، اور سورج کے ذریعے استدلال کیا: "فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ لَا أُحِبُّ ٱلْـأفِلِينَ” (سورۃ الانعام: 76) ایک داعی کو اپنے پیغام کو دلائل سے مزین کرنا چاہیے اور اس کی حقانیت کو مخاطب کے سامنے واضح کرنا چاہیے۔ دلائل نہ صرف مخاطب کو قائل کرتے ہیں بلکہ دعوت کے اثر کو بھی بڑھا دیتے ہیں۔
دعوت دین ایک عظیم مشن ہے، اور اس کی کامیابی کے لیے حکمت، صبر، خیر خواہی، اور دلائل کے ساتھ پیش آنا ضروری ہے۔ انبیاء کرام کی سیرت اس سلسلے میں ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ دعوت دین کا مقصد صرف پیغام پہنچانا ہے، جبکہ ہدایت دینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ داعی کو چاہیے کہ وہ صاحبِ علم ہو، صاحبِ عمل ہو، اللہ سے ہی اجر کی امید رکھے، صرف اللہ کا خوف ہو، اور اخلاص، تدریج، اور شفافیت کے ساتھ اپنا فریضہ انجام دے تاکہ دنیا میں بھلائی اور آخرت میں کامیابی حاصل کر سکے۔