میں نے بابری مسجد میں کیا دیکھا؟
میں نے بابری مسجد میں کیا دیکھا؟
معصوم مرادآبادی
______________________
بابری مسجد کا تالا کھلنے کے بعد ملک میں عجیب و غریب صورت حال تھی۔ مسجد میں پوجا پاٹ کے مناظر لوگوں کے مذہبی جذبات کو چھلنی کر رہے تھے۔ ہر کسی کی نظریں بابری مسجد پر مرکوزتھیں۔ میں نے بابری مسجد میں داخل ہوکر وہاں کے حالات جاننے کا فیصلہ کیا۔ یکم فروری 1987 کو جبکہ پورے ملک میں مسلمان بابری مسجد کی بے حرمتی کے خلاف اپنے کاروبار بند رکھ کر احتجاج کر رہے تھے تو میں بابری مسجد کی اندرونی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے وہاں موجود تھا۔ میں بابری مسجد میں بھیس بدل کر داخل ہوا تھا کیونکہ 1949 کے ایک ایکزیکٹیو آرڈر کے مطابق بابری مسجد کے اردگرد پانچ سو میٹر تک کسی مسلمان کا داخلہ ممنوع تھا۔ مجھے بطور صحافی اپنا فرض ادا کرنے کے مجبوری میں بھیس بدلنا پڑا تھا۔ اتنے برسوں بعد جب میں ان حالات کے بارے میں سوچتا ہوں تو میرے رونگٹے کھڑے ہونے لگتے ہیں۔ اس واقعہ کو 37 سال گزرنے کے باوجود سب کچھ میری یادوں میں تازہ ہے۔ ملاحظ کیجئے 37 سال پرانی آنکھوں دیکھی یہ رپورٹ:
بابری مسجد کے صدر دروازے تک جانے والی سڑک کے دونوں طرف بڑی بڑی مندر نما عمارتیں نظر آتی ہیں جنہیں مانس بھون کہا جاتا ہے۔یہ عمارتیں 1949میں مسجد میں مورتیاں رکھے جانے کے بعد تعمیر ہوئی ہیں اور ان میں درشن کے لئے آنے والوں کے ٹھہرنے کا انتظام کیا جاتا ہے۔با بری مسجد کے تین جانب صرف شمال کو چھوڑ کر 7بیگھہ قبرستان کی اراضی ہے۔یہ عمارتیں بھی قبرستان پر ہی تعمیر ہوئی ہیں۔ان عمارتوں کے ختم ہونے کے بعد بائیں جانب اونچائی پر ایک چھوٹا راستہ بابری مسجد کے صدردروازہ تک جاتا ہے۔
اس راستہ کے بائیں جانب دوکانوں پر عقیدت مندوں کی دلچسپی کی اشیا فروخت ہوتی ہیں اور دائیں جانب پولیس چوکی قائم ہے۔ صدر دروازے سے متصل مٹھائی کی کئی دوکانیں بنی ہوئی ہیں۔ یہ مٹھائی اصلی گھی اور ماوے سے تیار کی جاتی ہے۔ عقیدت مند اسے اندر لے جا کر چڑھاتے ہیں۔دوکانوں سے پہلے ہی ایک مقام پر جوتے اتارنے پڑتے ہیں۔ مسجد کے صدر دروازے پر ہندی میں ”رام جنم بھومی“ تحریر ہے اور یہیں سی آر پی کے تین مسلح جوان اندر جانے والوں کی تلاشی لیتے ہیں۔ صدر دروازہ کے اوپر ہی ہیڈ پجاری لال داس کی جانب سے ہندی میں یہ وارننگ تحریر ہے ”فوٹو لینا سخت منع ہے“عقید ت مند لائن بنا کر ہاتھ جوڑتے ہوئے مسجد کے اندر داخل ہوتے ہیں۔ صدر دروازہ پر دوجگہ لفظ ”اللہ“ نمایاں انداز میں کندہ ہے۔
صدر دروازے سے اندر داخل ہونے کے بعد بائیں ہاتھ کو تقریباً چھ فٹ اونچا ایک پختہ چبوترہ ہے جس کے مختلف گہرے خانوں میں پتھر کی چھوٹی چھوٹی مورتیاں نصب ہیں۔چبوترے کا حصہ 1949ء سے ہی تالا لگنے کے بعد مندر کے طورپر استعمال ہوتا رہا ہے اور عقیدت مند یہیں سے لوہے کی سلاخوں سے مسجد کے اندر رکھی مورتیوں کا درشن کرتے تھے۔
چبوترے پر اور اس کے آس پاس مختلف ناموں کے سینکڑوں چھوٹے چھوٹے پتھر نصب ہیں۔ یہ ان دولت مند لوگوں کی طرف سے بطور یاد گار لگائے گئے ہیں جو 1949ء کے بعد یہاں درشن کرنے کے لئے آئے اور جنہوں نے مقدمہ لڑنے اور مندر بنانے کے لئے کثیر رقمیں فراہم کیں۔ چبوترے کے پیچھے کی جانب دیوار کے دونوں کونوں میں پتھر کی کئی مورتیاں نصب ہیں۔ لیکن عقیدت مندوں کی دلچسپی کا اصل مرکز مسجد کے اندرونی حصہ میں رکھی ہوئی مورتیاں ہیں اور وہیں درشن کرنے والوں کا تانتابندھارہتا ہے۔چبوترے اور دیوار پر نصب مورتیوں کا درشن لوگ کم ہی کرتے ہیں۔ اسی احاطہ میں صدر دروازے کی دیوار سے لگی لکڑی کی ایک لمبی کوٹھری ہے جس میں پجاریوں کا سامان اور گنگا جل رکھا رہتا ہے۔اسی احاطے کے دائیں جانب مسجد کے صحن سے متصل ایک اور مقام پر فریم کی ہوئی چند مورتیاں رکھی ہوئی ہیں۔ اس مقام کو سیتا کی رسوئی کہا جاتا ہے اور یہاں پر مسجد میں داخلہ کے لئے ایک اور دروازہ ہے۔
مسجد کے صحن میں داخلہ کے اس دروازے پر بھی سی آر پی کا ایک مسلح جوان تعینات ہے۔ صحن میں داخل ہوتے ہی تین گنبدوں پر مشتمل مسجد کے اندرونی حصہ کی پیشانی پر عربی رسم الخط میں تین فارسی اشعار کندہ ہیں جن میں مسجد کی تعمیر کی تاریخ درج ہے۔ ان اشعار کے دونوں جانب ابھرے ہوئے الفاظ میں گول دائرے کے اندر لفظ ”اللہ“کندہ ہے۔یہ تحریر خستہ حالت میں ہے۔صحن کے بائیں جانب گنبدوں تک پہنچنے کے لئے ایک خستہ حال زینہ ہے‘ جسے لکڑی کے تختے لگا کر بند کردیا گیا ہے۔مسجد کی پیشانی اور آگے کی دیوار بھی خستہ حالت میں ہے۔خستہ دیوار کے اندر سے اگنے والے پودوں نے جو عام طور پر قدیم عمارتوں پر اُگ آتے ہیں‘اب چھوٹے درختوں کی شکل اختیار کرلی ہے اور عمارت کو کمزور کررہے ہیں۔
تین گنبدوں پر مشتمل مسجد کے اندرونی حصہ میں تین صفیں ہیں اور اس کی ہر صف میں 120آدمی نماز پڑھ سکتے ہیں۔ اسی طرح مسجد کے صحن میں اتنی ہی بڑی چار صفیں ہیں۔ مسجد کے اندرونی حصے اور صحن میں مجموعی طورپر 700 افراد کے نماز پڑھنے کی گنجائش ہے۔اندرونی حصہ میں سفید پتھر کی جا نمازیں بنی ہوئی ہیں۔درمیانی گنبدکے نیچے لکڑیوں کے اسٹیج نماتین فریم بنائے گئے ہیں جن میں پتھر کی صرف ایک مورتی رکھی ہوئی ہے اور باقی تصویریں شیشے کے فریموں میں رکھی ہیں۔ان میں رام چندر جی ہنومان جی، گنیش جی اور گرو گووندسنگھ کی وغیرہ کی تصویر ہیں۔ مسجد کے منبر کی اوپر والی سیڑھی پر بھی ہنومان جی کا مجسمہ نصب کیا گیا ہے۔اس درمیانی گنبد کے اندرونی حصہ کو جس کے نیچے یہ تصویریں اور پتھر کی مورتیاں ہیں لال کپڑے سے ڈھک دیا گیا ہے۔عقیدت مند سات فٹ کی دوری سے ہاتھ جوڑ کر اور سر جھکا کر ان مورتیوں کے درشن کرتے ہیں۔حد بندی کے لئے لکڑی کا ایک حالہ بنا یا گیا ہے۔یہیں لکڑی کی تقریباًچار فٹ لمبی ایک گولک رکھی ہوئی ہے جس میں دان ڈالا جاتا ہے۔اس گولک کے دائیں جانب ایک پجاری بیٹھا ہوا ہے جو درشن کرنے والوں کو ایک چھوٹے سے چمچے میں گنگا جل دیتاہے جسے لوگ بڑی عقیدت سے اپنے ہاتھوں میں لیتے ہیں۔ یہاں بھی سی آر پی کا ایک مسلح جوان تعینات ہے۔
درمیانی گنبد کے حصہ میں داخل ہوتے ہی بائیں جانب دیوار پر ہنومان جی کی ایک تصویر پینٹ کی گئی ہے۔ اسی طرح بائیں گنبد کی دو دیواروں پر شہید بھگت سنگھ اور چندر شیکھر آزاد کی تصویریں پینٹ ہیں ۔اندر ونی حصہ کی دیواروں پر کوئلے اورچاک سے کچھ لکھا گیا تھا جسے صاف کردیا گیا ہے۔دائیں جانب تیسرے گنبد کے نیچے بھی فریم کی ہوئی چند تصویریں رکھی ہیں۔مسجد کے صحن میں بندر آزادانہ اچھلتے کودتے نظر آتے ہیں۔
مسجد کے پیچھے کی دیوار بھی خستہ حالت میں ہے۔پیچھے کی جانب بھی دیواروں میں پودے اُگ آئے ہیں۔ مسجد کی پشت سے متصل ایک پرانی دیوار تعمیر ہے جس کے ارد گرد سی آرپی کے مسلح جوان پہرہ دیتے ہیں۔ہر چند کہ مسجد کے اندرونی حصہ میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے لیکن سالہاسال سے مرمت نہ ہونے کی وجہ سے مسجد کی عمارت خستہ حالت میں ہے۔مسجد کے تین جانب صوبائی حکومت کی جانب سے ایک باؤنڈری بنائی جارہی ہے جو اس کام کی نگرانی کرنے والوں کے بقول مسجد کو کسی بھی امکانی حملے سے محفوظ رکھے گی۔عجیب وغریب بات یہ ہے کہ مسجد کی حفاظت کے لئے لاکھوں روپئے خرچ کرکے باؤنڈری تو بنائی جارہی ہے مگر خستہ مسجد کی مرمت کا کوئی انتظام نہیں ہے۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ صوبائی حکومت نے اجودھیا کو خوبصورت بنانے اور اسے ہندوؤں کا سب سے مقدس مذہبی مقام بنانے کا پروگرام بنایا ہے اور اس کے لئے 50 کروڑ کی رقم مخصوص کی گئی ہے۔
با بری مسجد کو عملی طورپر مندر بنائے جانے کی سازش میں صوبائی حکومت کی شرکت کی بات روز اوّل سے کی جارہی ہے۔اس سلسلے میں اجودھیا کے مسلمانوں نے ہمیں کئی اہم باتیں بتائیں۔ فیض آباد سے کانگریس کے ممبر پارلیمنٹ نرمل کھتری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے علاقے کے ہندوؤں سے کھلے عام یہ کہا تھا کہ اگر وہ پارلیمنٹ کا الیکشن جیت گئے تو جنم بھومی کا تالا کھلوا دیں گے۔ اسی موضوع پر وہ کامیاب بھی ہوئے تھے۔نرمل کھتری کے والد نارائن داس کھتری بابری مسجد کے مقدمے میں سرکاری وکیل ہیں۔ان کا کردار بھی اس سلسلے میں واضح نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مسٹر کھتری نے بظاہر امیش چند پانڈے کی اس درخواست کی مخالفت کی تھی جس پر عدالت نے بابری مسجد کا تالا کھولنے کا حکم دیا مگر بالواسطہ طور پر مسٹر کھتری نے امیش چند پانڈے کی درخواست کی تائید کی اور کیس کی صحیح نوعیت عدالت کے سامنے پیش نہیں کی۔بعض کاغذات جو اپنی درخواست کے ساتھ مسٹر پانڈے داخل نہیں کرسکے تھے‘وہ مسٹر کھتری نے سرکاری وکیل کی حیثیت سے داخل کئے جن کا مقصد امیش چند کی درخواست کی تردیدکرنا بتایا جبکہ ان کاغذات سے امیش چند کو فائد ہ پہنچا اور عدالت نے آسانی سے تالا کھولنے کا فیصلہ صادر کردیا۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وشو ہندو پریشد،بجرنگ دل،جنم بھومی مکتی سیوا سمیتی اور ریسیور کھلے عام یہ کہتے ہیں کہ یہ کامیابی ہمیں کانگریس کی حمایت سے ملی ہے۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یوپی کے سابق وزیر اعلیٰ شری پت مصرا نے اپنی اجودھیا آمد پر تالا کھولنے کی مانگ کرنے والوں سے اسٹیج سے یہ بات کہی تھی کہ کوئی چیز مانگنے سے نہیں ملتی۔ لینا ہے تو ہاتھ بڑھا کر لے لو۔ چنانچہ اس حقیقت کو تسلیم کرلینے کے وافر ثبوت موجود ہیں کہ وہ حکومت جو فی الوقت اس مسئلے کو عدالت کا معاملہ قرار دے کر اپنا دامن بچا رہی ہے‘تالا کھلوانے میں برابر کی شریک تھی۔
ہم نے اجودھیا کے محلہ قضیانہ میں رہائش پذیر 80سالہ حاجی عبدالغفارسے بھی ملا قات کی جنہوں نے 1930 سے 1949 تک بابری مسجد میں بحیثیت امام ذمہ داریاں انجام دی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 1901سے 1930ء تک ان کے والد مولوی عبدالقادر نے بابری مسجد میں امامت کے فرائض انجام دیئے تھے جبکہ اس سے پہلے 1870 سے 1900کے درمیان ان کے ماموں حاجی عبدالرشید بابری مسجد کے امام تھے۔حاجی عبدالغفار کی پیدائش اجودھیامیں ہی ہوئی۔ انہوں نے ”گم گشتہ حالات اجودھیا اودھ“کے نام سے ایک کتاب بھی ترتیب دی ہے جس میں اجودھیا کے بزرگوں اور یہاں کی مسجدوں اور مقبروں کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کی گئی ہیں۔
محکمہ آثار قدیمہ نے 1978سے 1980 کے درمیان با بری مسجد کی بنیادوں اور اجودھیا کے دوسرے مقامات کی کھدائی کی تاکہ اسے زمین کے اندر سے رام چندر جی کے عہدکے کچھ آثار بر آمد ہوجائیں مگر اسے اس وقت سخت مایوسی ہوئی جب یہاں مسلمانوں کی قدیم ترین آبادی کے نشانات ملنے شروع ہوئے۔ان نشانات کو انتہائی خاموشی کے ساتھ غائب کردیا گیا۔ اس بات کے وافر ثبوت موجود ہیں کہ اجودھیا قدیم ترین زمانے سے مسلمانوں کا مرکز رہا ہے۔ یہاں درجنوں ایسے بزرگ آسودہ خواب ہیں جنہوں نے تبلیغ اسلام کے لئے اپنی زندگیاں وقف کیں۔ یہاں حضرت آدم ؑکے بیٹے حضرت شیث ؑ کی قبر بھی ہے۔ اسی طرح حضرت نوحؑ کے زمانے کی ایک اور قبر بھی اجودھیا میں موجود ہے۔اس پس منظر میں دیکھا جائے تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ مسئلہ محض ایک مسجد کا نہیں ہے بلکہ ہندوستان میں مسلمانوں کی برسوں سال پرانی تاریخ و تہذیب اور ان کے تشخص کی بقا ء کا مسئلہ بھی ہے۔
(خاکسار کی کتاب ” بابری مسجد: آنکھوں دیکھا حال ” سے )