آئین و جمہوریت ہوتے ہوۓ بھی نفرت کی آندھی!!
آئین و جمہوریت ہوتے ہوۓ بھی نفرت کی آندھی!!
از: جاوید اختر بھارتی
__________________
آج ہمارا ملک بڑے ہی نازک دور سے گزر رہا ہے نفرتیں بڑھتی جارہی ہیں 1949 سے بابری مسجد اور رام مندر کا معاملہ کسی طرح ختم ہوا کہیں خوشی منائی گئی، کہیں غم منایا گیا، اس موقع پر بھی مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے میں کوئی کور کسر باقی نہیں چھوڑی گئی، اشتعال انگیزیوں کا طوفان برپا کیا گیا، گالیاں دی گئیں، مارا پیٹا بھی گیا، لیکن مسلمانوں نے صبر کی ایک مثال قائم کردی کہیں ملک کی املاک کو نقصان نہیں پہنچایا کسی کو زدوکوب نہیں کیا گالی کے بدلے گالی نہیں دی اشتعال انگیزی کے بدلے اشتعال انگیزی نہیں کی نعرے بازی کے بدلے نعرے بازی نہیں کی مقصد صرف ایک تھا کہ کسی طرح ملک حاسدین کے حسد اور مفسدین کے فساد اور شریروں کے شر سے محفوظ ہو جائے ہمارا ملک امن و امان کا گہوارہ بن جائے سفر کامیاب ہونے کی صورت جلد پیدا ہوجائے ایک دوسرے کے دل ودماغ سے نفرت و خوف وہراس کا نام و نشاں مٹ جائے حالات خوشگوار ہو جائے کاروبار کا راستہ صاف ہوجائے مگر فرقہ پرستوں کو یہ گوارہ نہیں ہے وہ آئے دن ایک نہ ایک فتنہ کھڑا کرتے جارہے ہیں اور اب تو مسجدوں کو مندر بتانے کا سلسلہ ہی چل پڑا ہے اوریہ بہت ہی گہری سازش لگ رہی ہے سماجواد کا نعرہ دیا جاتا ہے اور سماجواد کے مطابق کام کرنے کے لئے تیار نہیں ، ایک طرف قومی یکجہتی کی بات کی جاتی ہے اور دوسری طرف قومی یکجہتی کو نقصان پہنچایا جاتا ہے ،، اب تو ایسا لگتاہے کہ بی جے پی اقتدار میں آنے کے لئے بابری مسجد اور رام مندر کا مسلہ کھڑا کیا اور اسی کے نام پر اقتدار میں آئی بھی ہے اور اب اقتدار میں بنے رہنے کے لئے مسجد مندر کا نعرہ لگایا جاتاہے ایک طرف آرایس ایس چیف موہن بھاگوت کہتے ہیں کہ ہر مسجد میں شیو لنگ تلاش نہ کیا جائے تو اب متھرا عیدگاہ پر مندر ہونے کا دعویٰ کیا جارہاہے گیان واپی جامع مسجد کا معاملہ الجھایا جارہا ہے اور اب سنبھل کی جامع مسجد نشانے پر ہے اور یہ سلسلہ تھم نہیں رہا ہے خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے آستانے پر بھی فرقہ پرستوں کی نظر پڑگئی ، ڈھائی دن کا جھوپڑا پر بھی مندر کا دعویٰ کیا جانے لگا ، بدایوں کی جامع مسجد کو بھی مندر بتایا جارہا ہے ایک طرف موہن بھاگوت کا بیان تو دوسری طرف فرقہ پرستوں اور شرپسندوں کی زہریلی حرکتیں ،، کیا موہن بھاگوت یہ کہہ سکتے ہیں کہ مسجدوں پر مندر کا دعویٰ کرنے والوں کا تعلق آرایس ایس سے نہیں ہے ،، ہرگز وہ ایسا نہیں کہیں گے بلکہ وہ زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں اور مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی غرض سے ایک طرح کا طنز کس رہے ہیں-
اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ کسی اور مذہب کی عبادت گاہوں پر مندر کا دعویٰ نہ کرکے صرف مسلمانوں کی ہی عبادت گاہوں پر مندر کا دعویٰ کیوں جاتاہے جبکہ مسلمان ہی قومی یکجہتی کانفرنس کرتاہے ، مسلمان ہی تحفظ آئین و تحفظ جمہوریت کا نفرنس کرتاہے ، مسلمان ہی کاونڑیاترا پر پھول برساتا ہے ، مسلمان ہی سیکولرازم کے تحفظ کا نعرہ لگاتا ہے اور مسلمان ہی بھائی چارہ بھائی چارہ کی صدائیں بلند کرتاہے پھر بھی زعفرانی سیاست کا شکار ہورہاہے مساجد ومدارس اور خانقاہیں فرقہ پرستوں کی نظروں میں کھٹک رہی ہیں اور اب تو پانی سر سے اونچا ہوچکاہے پھر بھی مسلمان سر جوڑ کر بیٹھنے کے لئے تیار نہیں اور مسلم سیاسی قیادت پر غوروفکر کرنے کے لئے تیار نہیں جبکہ یہ سارے مسائل آئے دن مختلف موضوعات و عنوانات کے تحت اسٹیج لگاکر پیسہ برباد کرنے سے حل ہونے والے نہیں ان سارے مسائل کا تصفیہ صرف سیاست سے ہوگا لیکن نہ جانے کیوں مسلمانوں کی بڑی بڑی شخصیتیں اور بڑی بڑی تنظیمیں سیاست سے دور بھاگ رہی ہیں اور مسلم سیاسی قیادت سے محرومی کا طوق گلے سے اتارنے کے لئے تیار نہیں ہیں حتیٰ کہ دینی اجلاس کے اشتہارات میں لکھ دیا جاتاہے کہ جلسہ کو سیاست حاضرہ سے تعلق نہیں ہوگا یعنی سیاست کو ایک دم شجر ممنوعہ سمجھا جاتا ہے جبکہ چور دروازے سے راجیہ سبھا جانے کے لئے انیک ہتھکنڈے اپنائے جاتے ہیں،، آج تو جو حالات ہیں اس سے مسلمانوں کی تنظیمیں اور ان تنظیموں کے ذمہ داران بھی مشکوک نظر آتے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی نسیں کہیں دبی ہوئی ہیں شائد اسی وجہ سے خاندانی سایہ بھی سدا برقرار رکھنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی جاتی ہے ،، ملک کے جو حالات ہیں اس کے تناظر میں ملک میں مسلمانوں کی کچھ بڑی شخصیات ایسی ہیں جنہیں یہی کہا جاسکتاہے کہ نوجوان قربانی دیتاہے اور وہ لوگ سودا بازی کرتے ہیں جس کا نظارہ حال ہی میں مہاراشٹر اسمبلی انتخابات میں دیکھنے کو ملا سیکولر ازم کا دھڈورا پیٹا گیا اور ریوڑیاں تقسیم کی گئیں اور نتیجہ آج سامنے ہے ،، اندھیرے میں کی گئی حمایت و اپیل کا جنازہ نکل گیا اور یہ تو ہونا ہی ہے جب خود کا کوئی لائحہ عمل نہیں ہوگا اور اپنی کوئی سیاسی شناخت نہیں ہوگی ، کوئی پلیٹ فارم نہیں ہوگا اس کے باوجود بھی اپیل کی جائے گی تو اسے صدا بصحرا ثابت ہونا ہی ہے ،، دوسری ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ جب اس ملک میں ایسا قانون ہے کہ 1947 میں جس عبادت گاہ کی اور جس مذہبی مقامات کی جو حیثیت تھی وہ برقرار رہے گی اس پر اعتراضات نہیں ہوں گے،، اس قانون کی روشنی میں دیکھا جائے تو جس بھی مذہبی مقامات کے خلاف عدالتوں میں رٹ دائر کی جاتی ہے اسے فوراً خارج کردیا جانا چاہئے لیکن نہ جانے کیوں ایسا نہیں کیا جاتا ہے اور نہیں تو فوراً عرضی کو منظور کرلیا جاتا ہے ، سروے کاحکم جاری کردیا جاتاہے بالکل اسی طرح جیسے ایک طرف شراب کا لائسنس بھی جاری کیا جاتاہے اور دوسری طرف اکثر و بیشتر شراب پینے والوں پر ڈنڈا بھی برسایا جاتاہے ،، چاہے جج ہوں یا وکلاء دونوں کی ذمہ داری ہے کہ قانون و انصاف کا بول بالا ہو غریبوں اور مظلوموں کو مکمل انصاف ملے اور اس ذمہ داری سے منہ موڑنے کے نتیجے میں سنبھل جیسے واقعات رونما ہوتے رہیں گے ، اس طرح کے تنازعات ملک کے کونے کونے میں سر اٹھاتے رہیں گے جس سے قانون کی حکمرانی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی ختمِ ہوجانے کا خطرہ ہے جو بہر حال ہمارے قومی مفاد میں نہیں ہوگا۔