بابری مسجد کی شہادت کے قصوروار !
بابری مسجد کی شہادت کے قصوروار !
از: شکیل رشید ( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز)
___________________
آج 6 دسمبر ہے ۔ بتیس سال قبل بھی یہ تاریخ آئی تھی ۔ وہ 6 دسمبر 1992ء کی سیاہ تاریخ ہی تھی جب ایودھیا میں برسہا برس سے سر اٹھائے کھڑی تاریخی بابری مسجد کو شہید کر دیا گیا تھا ۔ اسی روز دو ایف آئی آر درج کی گئی تھیں ، پہلی ایف آئی آر تھی کرائم نمبر 197/1992 اور دوسری ایف آئی آر تھی کرائم نمبر 198/1992 ۔ پہلی ایف آئی آر نامعلوم کارسیوکوں کے خلاف درج کی گئی تھی ، ان پر ڈکیتی ، چوری ، زخمی کرنے اور عوامی عبادت گاہ کے تقدس کو پامال کرنے نیز مذہب کی بنیاد پر دو فرقوں کے درمیان منافرت پھیلانے وغیرہ کے معاملات عائد کیے گئے تھے ، جبکہ دوسری والی ایف آئی آر بی جے پی ، وی ایچ پی ، بجرنگ دل اور آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والی آٹھ شخصیات کے خلاف تھی ، ان پر رام کتھا کنج سبھا سے نفرت بھری تقریریں کرنے کا الزام تھا ۔ یہ آٹھ افراد تھے ایل کے اڈوانی ، اشوک سنگھل ، ونئے کٹیار ، اوما بھارتی ، سادھوی رتھمبرا ، مرلی منوہر جوشی ، گری راج کشور اور وشنو ہری ڈالمیا ۔ مذکورہ افراد میں سے تین گری راج کشور ، اشوک سنگھل اور وشنو ہری ڈالمیا کی موت ہو چکی ہے یعنی وہ حساب کتاب لینے والے کے سامنے پہنچ چکے ہیں ، باقی ابھی زندہ ہیں ۔ اس معاملہ میں ایک اہم موڑ لبراہن کمیشن رپورٹ کی پیشی کے بعد آیا تھا ۔ اس رپورٹ نے ایک بہت اہم کام یہ کیا ہے کہ بابری مسجد کی شہادت کو منصوبہ بند گہری سازش قرار دے کر 68 افراد کو مسجد کی شہادت کا ملزم بتایا ہے اور باقاعدہ ان کے خلاف کارروائی کی سفارش کی ہے ۔ 68 ملزموں کی فہرست میں ملک کے سابق بھاجپائی وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی کا نام بھی شامل ہے ، جو طویل عرصے تک بستر پر پڑے رہنے کے بعد اس دنیا سے آٹھ چکے ہیں ۔ یہ واجپئی ہی تھے جنہوں نے کارسیوکوں سے کہا تھا کہ ایودھیا کی زمین پر بہت روڑے اور پتھر ہیں جا کر اسے سمتھل کردو ۔ بابری مسجد کے یہ مجرم ہر عدالت سے بری ہو چکے ہیں ، لیکن یہ عوامی عدالت اور اس سے بھی بڑھ کر اللہ کی عدالت سے بری نہیں ہوئے ہیں ۔ عوام کو خوب پتا ہے کہ یہ سب کے سب بابری مسجد کی شہادت کے قصوروار ہیں ، ان سب کی زہریلی تقریریں ، ان کے زہریلے بیانات اور ان کے ذریعے نکالی گئی پرتشدد رتھ یاترائیں کبھی فراموش نہیں کی جا سکتیں ۔ اس معاملے کے چند کرداروں کو دلچسپ بھی کہا جا سکتا ہے اور زہریلے بھی ۔ مثلاً اڈوانی ، جوشی اور اوما بھارتی ۔ سپریم کورٹ کے ذریعہ ’مجرمانہ سازش‘ کا مقدمہ چلانے کے حکم کے بعد اوما بھارتی کی زبان سے نکلا ہوا یہ جملہ سب ہی نے سنا تھا کہ ’ کچھ ڈھکا چھپا نہیں تھا ہم نے تو یہ کھلے عام کیا ہے‘ ۔ یہ ’ اعتراف جرم ‘ تھا مگر ’ اعتراف جرم ‘ کے بعد بھی اوما بھارتی اقتدار کے مزے لوٹتی رہیں ۔ لیکن اب اوما بھارتی نہ ہی ایم پی ہیں نہ ہی وزیر ، اور نہ ہی بی جے پی میں کسی بڑے عہدے پر ، لوگ انہیں تقریباً بھول چکے ہیں ۔ کلیان سنگھ تو شہید بابری مسجد کے مجرم تھے ہی ، انہیں ’ ایک روز کی سزا ‘ ہوئی تھی ۔ مگر ، ایک ایسے معاملے میں ، جس نے سارے ملک کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کردیا تھا ، جس نے ملک میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کی ایک خلیج حائل کردی ہے ، جو ملک بھر میں فرقہ وارانہ فسادات کا سبب تھا ، جس نے ممبئی کو دو مرحلوں میں آگ کے شعلوں میں ڈھکیلا ، جس کی وجہ سے ممبئی کے بم بلاسٹ ہوئے ، ’ صرف ایک روز کی سزا ‘ بے معنی تھی ۔ کلیان سنگھ کا قصور بہت شدید تھا ۔ خیر اب کلیان سنگھ اوپر اپنے کیے کی سزا پا رہے ہوں گے ۔ اب ایک تصویر یاد کریں ؛ تصویر 6 دسمبر 1992ء کی ہے ۔ ایک ایسی تصویر جو شرمناک بھی ہے ، مکروہ بھی اورجس سے ملک کی ایک بہت بڑی بلکہ سب سے بڑی اقلیت کے خلاف نفرت کا اظہار بھی عیاں ہے اور یہ گھمنڈ بھی نظرآرہا ہے کہ ’ ہم جو چاہیں گے کریں گے تم لوگ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکو گے ۔‘ یہ تصویر یرقانیوں کی ’ بے شرمی ‘ اور ’ بے غیرتی ‘ کی علامت ہے ۔ تصویر شہید بابری مسجد کے دو ’ قصورواروں ‘ کی ہے اور اس وقت اُتاری گئی تھی جب کارسیوک بابری مسجدکے گنبدوں پر چڑھے ہوئے تھے اور انہوں نے پہلا گنبد گرا دیا تھا ۔ تصویر میں سابق وزیر اوما بھارتی سابق مرکزی وزیر مرلی منوہر جوشی کی پیٹھ پر تقریباً لدی ہوئی نظر آرہی ہیں ، دونوں کے ہی ہونٹوں پر’ مسکراہٹ ‘ ہے ۔ ایک ایسی مسکراہٹ جس میں فتح کا نشہ ، طاقت کا گھمنڈ اور زعم اور مسلمانوں سے نفرت کا کھلا اظہار سب کچھ نظر آ رہا ہے ۔ یہ مسکراہٹ والی تصویر یرقانی ٹولے کی ’ بے شرمی‘ اور’ بے غیرتی ‘ کی پہچان بن گئی ہے ۔ تصویر میں ملک کے سابق وزیر داخلہ لال کرشن اڈوانی نظر نہیں آرہے ہیں مگر جس وقت یہ تصویر کھینچی گئی تھی وہ قریب ہی موجود تھے ۔ 6؍ دسمبر 1992ء کی ’ سیاہ تاریخ ‘ کو جب ڈیڑھ سے دو لاکھ کی تعداد میں جمع کارسیوکوں سے خطاب کرنے کے لیے اڈوانی پہنچے تھے توان کا پُرجوش خیر مقدم ہواتھا ، اور ہوتابھی کیوں نہ یہ اڈوانی ہی تھے جو ان تمام کارسیوکوں کے ایودھیامیں جمع ہونے کا محرک تھے ۔ یہ ان کی ’ رتھ یاترا ‘ ہی تھی جس نے سارے ملک کو ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک اس طرح سے ’ دھارمک جنون ‘ میں مبتلا کردیا تھا کہ لوگ منھ اٹھائے ایودھیا کی طرف بڑھتے چلے گئے تھے ۔ آج نہ اڈوانی کا زعم باقی ہے ، نہ مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی کا گھمنڈ ، یرقانیوں نے ہی انہیں بھلا دیا ہے ۔ یاد رہے کہ جو جیسا بوتا ہے ویسا کاٹتا ہے ۔ یہ مثال ان پر بھی جلد ہی صادق آئے گی جو بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنا کر اس پر سیاست کر رہے ہیں ، کل کو انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں رہے گا ، مگر بابری مسجد شہید ہونے کے باوجود ہمیشہ لوگوں کو یاد رہے گی ۔