سقوط دمشق کی کہانی
سقوط دمشق کی کہانی
از:- افتخار گیلانی
__________________
مشرقی ترکی کے قصبہ کیلس میں سرحد سے بس 500میٹر دور شامی پناہ گزینوں کے کیمپ میں پچھلی اتوار کی رات شاید ہی کوئی سویا تھا۔ کئی دہائیوں سے بے گھر مکین الجزیرہ عربی اور ا پوزیشن گروپوں سے وابستہ سیرین ٹی وی چینل رات بھر دیکھنے میں محو تھے۔ جوں ہی یخ بستہ د سمبر کی صبح کی پہلی کرنیں افق پر نمودار ہوگئیں، گھروں سے خوشی سے نعرے بلند ہوگئے۔
معلوم ہوا کہ شامی اپوزیشن مزاحمتی گروپوں نے دمشق میں پیش قدمی کی ہے اور صدر بشار الاسد فرار ہوگئے ہیں۔
وجد کی کیفیت میں کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ خوشی کے ان لمحات کو کس طرح ظاہر کریں۔ کوئی سجدہ میں گرا ہو تھا، تو کوئی ڈانس کر کے نعرے بلند کر رہا تھا۔ ہاں 13 سال کی جد وجہد اور خون آشام جنگ کے بعد بالآخرجاڑے میں تباہ حال شام میں بہار کی نوید سنائی دی ہے۔
”برسوں سے، ہم اس دن کا خواب دیکھ رہے تھے،“29 سالہ یاسمین، جو اپنے تین سالہ بچے کو مضبوطی سے تھامے ہوئے تھی، نے مجھے کہا۔ ”دمشق کو آزاد دیکھنا، جاننا کہ اسد کا استبداد ختم ہو گیا ہے، ایسا ہے جیسے ہم دوبارہ پیدا ہو گئے ہوں۔“
ٹیلی ویژن پر مزاحمتی گروپوں کے لیڈران اعلان کر رہے تھےکہ,”آمر بشار الاسد کا تختہ الٹ دیا گیا ہے۔ زندہ باد شام۔“
دمشق کی سڑکیں، جو پہلے خوف اور جبرکا شکار تھیں، جشن سے پھٹ گئی تھیں۔ لیکن اس کیمپ میں موجود ہر بشر کا کہنا تھا کہ اصل امتحان اب شروع ہوتا ہے، اور کسی طور پر شام کی حالت عراق یا لیبیا جیسی نہیں ہونی چاہیے، جہاں صدام حسین اور معمر قذافی کی برطرفی اور غیرملکی افواج کے آمد کے بعد متحارب گروپوں کے درمیان جنگوں نے ان کو مزید برباد کردیا۔
اسد کا زوال صرف ایک حکومت کا خاتمہ نہیں ہے۔ یہ شام کی تاریخ میں ایک ایسا انقلاب ہے، جس کی باز گشت مستقبل میں دور تک سنائی دے گی۔
دنیا کی نگاہیں اب احمد حسین ال شرع، جو ابو محمد الجولانی کے نام سے مشہور ہیں کی طرف ٹکی ہوئی ہیں، جو سیرین نیشنل آرمی یا فری سیرین آرمی کے ایک اہم دھڑے حیات تحریر الشام یعنی ایچ ٹی ایس کی قیادت کرتے ہیں۔
سال 2011 میں جب بہار عرب کے تسلسل میں شام میں پرامن مظاہرے شروع ہوئے، جو ملک میں جمہوری نظام کے نفاذ اور غیر جابندارانہ انتخابات کا مطالبہ کر رہے تھے، جلد ہی ایک خونی خانہ جنگی میں تبدیل ہوگئے۔ جس میں ایک اندازہ کے مطابق اب تک چھ لاکھ سے زائد جانیں ضائع ہوئیں اور12ملین افراد بے گھر ہوئے۔
جن میں 6.8 ملین شام میں ہی دیگر جگہوں پر منتقل ہوگئے اور تین ملین کے قریب ترکی میں پناہ گزین ہیں۔ اسد کی افواج، جنہیں روس، ایران، اور حزب اللہ جیسے اتحادیوں کی حمایت حاصل تھی نے حالیہ برسوں میں ملک کے بڑے حصے پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔
جب چین نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان مفاہمت کروائی، تو اس کا اگلا ہدف ترکی اور شام کے درمیان سفارتی مفاہمت کا تھا، تاکہ امریکہ کو اس خطے میں ایک اور سفارتی خفت کا سامنا کروایا جائے۔
پچھلے سال تباہ کن زلزلہ کے بعد شام کو دوبارہ عرب لیگ کا ممبر بنایا گیا تھا اور بشار الاسد کو اس کے سربراہ اجلاس میں شرکت کے لیے بھی مدعو کیا گیا تھا۔ چین اور روس نے کئی بار زور دیا تھا کہ اپوزیشن مزاحمتی گروپوں اور ترکی کے ساتھ مذاکرات کا وقت آگیا ہے۔
اس سلسلے میں ترکی کے وزیر خارجہ حقان فدان نے دو بار دمشق کا دورہ کیا اور اس سے قبل ترکی کے انٹلی جنس سربراہ ابراہیم کلین نے کئی بار شام میں اپنے ہم منصبوں سے مذاکرات کیے۔
یہ بتایا گیا تھا کہ اسد جلد ہی انقرہ کا دورہ کریں گے، جس کے بعد ترکی کے صدر رجب طیب اردوان بھی دمشق کا دورہ کرکے شام کو ایک مستحکم اور پر امن کرنے میں مدد کریں گے۔ مگر اپنے حلیفوں خاص طور پر روسی صدر ولادمیر پوٹن کی استدعا کے باوجود حد سے زیادہ پر اعتماد بشارالاسد نے اس امن مساعی کو سبو تاژ کیا اور ہر بار شرائط بڑھاتے رہے۔
ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک شام مختلف بین الاقوامی مفادات کی جنگ کا میدان رہا ہے۔ جس میں سیرین نیشنل آرمی، جس کو باہر سے ترکیہ کی مدد شامل ہے، سیرین ڈیموکریٹک فورس، جو کردوں پر مشتمل ہے اور اس کو امریکہ کی حمایت حاصل ہے۔
پھر شام کی سرکاری افواج، جس کو ایران اور روس کی پشت پناہی کے علاوہ حزب اللہ کی نہ صرف حمایت بلکہ ان کے جنگجو بھی ان کی اعانت کرتے تھے۔ اس کے علاوہ بھی کئی اور چھوٹے متحارب گروپ یا مقامی وار لارڈز نے اپنی حکومتیں قائم کی ہوئی تھیں۔
انقرہ نے طویل عرصے سے سیرین نیشنل آرمی، جو شامی اپوزیشن کا سب سے بڑا گروپ ہے، کو بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کر رہے تھے، کی مدد کی۔ یہ حمایت ترکیہ کے اس وسیع مقصد کا حصہ تھی کہ شام میں ایک ایسی حکومت قائم ہو سکے جو اسکی سرحدوں کی سلامتی کی ضمانت دے سکے اور کرد گروہوں کی خود مختاری کو روک سکے۔
اس لیے موجودہ صورتحال میں ترکیہ نے واضح کر دیا ہے کہ وہ شام میں کسی بھی نسلی گروپ کی داخلی خود مختاری کی مخالفت کرے گا اور وہ دمشق میں ایک ایسی مضبوط حکومت کا خواہاں ہے، جو پورے شام کو کنٹرول کر سکے۔
روہ ترک مخالف کرد گروپوں کو بھی حکومت میں شامل کرنے پر اعتراض کرے گا۔ جبکہ امریکہ، عراق کی طرز پر شام میں بھی کردوں کے لیے ایک خود مختار علاقہ کی وکالت کرے گا۔
حالیہ عرصے میں اردوان کی دونوں ناٹو اور روس کے ساتھ تعلقات کو برقرار رکھنے کی صلاحیت نے ترکی کو کئی بین الاقوامی مسائل میں ایک اہم ثالث کے طور پر موقع دیا ہے۔ خاص طور پرجب ترکیہ یوکرین کے گندم کو بین الاقوامی مارکیٹ میں پہنچانے کا بندوبست کیا اور اس کو ڈرون ہتھیار فراہم کیے، اور دوسری طرف آبنائے باسفورس کو روسی جہازوں کے لیے کھلا رکھ کر پوتن پر احسان بھی کیا۔
مگر اب دیکھنا ہے کیا یہ طاقتیں شام میں ترکیہ کے مفادات کو مقدم رکھیں گیں یا اس کا وہی حال ہوگا جو کابل میں طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد پاکستان کا ہوا۔
فی الحال، ترکی ایک معاشی بحران کا بھی شکار ہے اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کم ہونے نام نہیں لے رہی ہے۔ ترک کرنسی ڈالر کے مقابلے میں تیزی سے کمزور ہو رہی ہے۔ خوراک کی مہنگائی اپنی انتہا پر ہے، جو آبادی پر دباؤ ڈال رہی ہے۔ شامی مہاجرین کی واپسی معیشت کو دوبارہ پٹری پر لانے میں معاون ثابت ہوکر اردوان کے لیے وردان ثابت ہوسکتی ہے۔
فوجی ذرائع کے مطابق لبنان میں ایران کے حمایت یافتہ حزب اللہ کو ہوئے نقصان کے بعد، ا س کے جنگجوؤں نے 15نومبر کے آس پاس حلب کے گرد و نواح میں اپنی پوزیشنیں خالی کر دی تھیں۔ شاید ان کو لبنان واپس بلایا گیا تھا۔ ان بینکروں کو خالی دیکھ کرامریکی حمایت یافتہ کردعسکری گروپوں، جو سیرین ڈیموکریٹک فورس کا حصہ ہیں،نے منبج سے آکر ان پر قبضہ کرلیا۔
کرد گروپ خاص طورپر وائی پی جی اور اس کی شاخ پی کے کے، ترکی کے ساتھ برسر پیکار ہے۔ بتایا جاتا ہے اس کی وجہ سے ترکی نے سیرین نیشنل آرمی کو ان پوسٹس کو واپس لینے ترغیب دی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جون میں ہی شامی مراحمتی گروپوں نے حزب اللہ کی لبنان میں اسرائیل کے ساتھ جنگ میں شمولیت کا فائدہ اٹھانے کی ٹھانی تھی اور وہ اسی وقت حلب شہر پر حملہ کرنے کی سعی کر رہے تھے، مگر اسرائیل کی غازہ جنگ کی وجہ سے ان کو ترکیہ کی طرف سے اس کی اجازت نہیں دی گئی۔
مگر اس بار 27 نومبر کوجب انہوں نے حز ب اللہ کی خالی پوسٹس کو کرد باغیوں سے آزاد کروایا، توپتہ چلا کہ آگے کوئی مزاحمت ہی نہیں ہے۔ وہ کوئی گولی چلائے بغیر شہر کی طرف بڑھتے گئے۔
حلب کو فتح کرنے کے بعد حماہ کی طرف بڑھتے ہوئے، ان کو شامی اور روسی ایر فورس کی بمباری کا سامنا کرنا پڑا، مگر افغانستان میں 2022 کو جس طرح طالبان کو زمینی سطح پر کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور گولی چلائے بغیر ہی وہ کابل کے درازے پر دستک دے رہے تھے، بالکل وہی صورت حال شام میں بھی پیش آئی۔
حلب کو فتح کرکے ایچ ٹی ایس کے ایک کمانڈر نے دعوی کیا تھا کہ وہ عیدالفطر دمشق میں منائیں گے، جس کو کئی صحافیوں نے دیوانے کی بڑ بتادیا تھا۔ مگراس سے چار ماہ قبل ہی ابو محمد الجولانی کو دمشق کی اموی مسجد، جس کے دیوار کے پاس پیغمبر حضرت یحییٰ ؑ اور سلطان صلاح الدین کی قبریں ہیں، میں شکرانے کی نماز پڑھتے ہوئے دیکھا گیا۔
ایران کی داخلی الجھنوں اور حز ب اللہ کی لبنان میں مصروفیت نے یقیناً سقوط دمشق میں مدد دی۔
سفارتی ذرائع کے مطابق کئی ماہ سے ایران نے روس کی نیت کے بارے میں شکوک و شبہات پالے ہوئے تھے۔ طہران کو خدشہ تھا کہ ماسکو ترکیہ کے مقابلے میں ایران کے اثر کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ ایران اور اسد نے عراق میں شیعہ مزاحمتی گروپوں کو شام میں تعینات کرنے کی کوشش کی تھی۔ مگر عراق میں ان کی پوزیشنوں پر امریکی فضائی حملوں کے خطروں کے پیش نظر عراقی حکومت نے اس کی منظوری نہیں دی۔
ایران نے افغان فاطمیون بریگیڈ کے جنگجوؤں کو بھی متبادل کے طور پر متحرک کرنے کی کوشش کی۔ تاہم، سیریا ٹی وی کے مطابق، حلب کے ارد گرد اہم فوجی اڈوں کے حالیہ نقصان کے بعد ان کی تعیناتی مشکل ہوگئی تھی۔
بہر حال دمشق پہنچ کرسوشل میڈیا پر نشر کیے گئے ایک بیان میں، جولانی نے نظم و ضبط پر زور دیا۔انہوں نے جنگجوؤں کو خبردار کیا کہ وہ عوامی اداروں کے قریب نہیں جائیں گے اور وہ بشار الاسد کی حکومت میں وزیر اعظم محمد غازی الجلالی کی نگرانی میں رہیں گے جب تک متبادل حکومت کا انتظام نہیں ہوتا ہے۔
جولانی کا چونکہ ماضی میں القاعدہ کے ساتھ رابطہ رہا ہے، اس لیے مغربی دنیا کو اس سے خدشات لاحق ہیں۔ مگر اس وقت آئی ایس ایس کے خلاف جو محاذ بنا تھا، اس میں چونکہ القاعدہ کا مقامی نیٹ ورک بھی شامل تھا، اس لیے ان کے اس ماضی کے رابطہ کو نشانہ بنایا جاتا ہے، جس کے ساتھ انہوں نے کئی بار اظہار لاتعلقی کیا ہے۔
سال 2017 سے ادلب صوبہ پر حکومت کے دوران انہوں نے انتظامیہ میں تمام نسلی اور مذہبی گروہوں کو جگہ دی اور طالبا ن کے برعکس خواتین کے لیے کوئی ڈریس یا کوئی اور کوڈ نافذ نہیں کروایا۔ حلب میں عیسائی گرجا گھر میں جاکر انہوں نے اقلیتی آبادی کو تحفظ کا یقین دلایا۔
اسی طرح انہوں نے علوی فرقہ کے افراد کی جان و مال کی گارنٹی دی اور اپنے حامیوں کو ہدایت دی کہ وہ اب درگزر سے کام لیں۔
یہ تو طے ہے کہ جولانی کوآزادی کے لیے ترس رہے شامیوں کی امیدوں اور بین الاقوامی برادری کی تشویش کے درمیان توازن قائم کرنا ہوگا۔
ان کے لیے، یہ لمحہ ایک موقع اور ایک امتحان ہے۔ آئندہ مہینوں میں ان کے اقدامات طے کریں گے کہ شام امید کی مثال بن کر ابھرتا ہے یا افراتفری میں غرق ہو جاتا ہے۔
سب سے دل کو چھو لینے والے مناظر میں سے ایک سیدنایا جیل سے قیدیوں کی رہائی ہے، جو استبداد اور جبر کا ایک مرکز تھا۔ اس کو انسانی قتل گاہ کہا جاتا تھا۔
چند قیدی جو آزاد ہوگئے، ان کی موت کی سزا اسی دن دوپہر کو مقرر کی گئی تھی۔ کیلس قصبہ کے کیمپ میں عائشہ کو اسی دن پتہ چلا کہ اس کا بھائی زندہ ہے اور قید سے آزاد ہو گیا ہے۔ ”آج صرف ایک حکومت کے زوال کا دن نہیں ہے؛ یہ انسانیت کی واپسی کا دن ہے،“اس نے کہا۔
بدنام زمانہ جیلوں کے سیاہ راہداریاں سے ظلم و جبر سے دبی ہوئی دکھ بھری داستانیں باہر آ رہی ہیں۔ جن کو مردہ سمجھا گیا تھا وہ اب زندہ سامنے آرہے ہیں۔ دل کو چھو لینے والی کہانی علی حسن العلی کی ہے، جو تقریباً چار دہائیوں تک شامی جیل میں قید رہے۔ انہیں 1986 میں، جب وہ 18 سال کے تھے، گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ اب 57 سال کے ہیں۔
ان کے بھائی معمر علی نے تین دہائیوں تک مختلف سیکورٹی برانچوں کا دورہ کیا، جہاں انہیں اپنے بھائی کے بارے میں متضاد معلومات ملیں۔”شام میں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں ہم نہ گئے ہوں۔ ہم نے پورے ملک کا چکر لگایا تاکہ معلوم کر سکیں کہ ان کے ساتھ کیا ہوا۔ ایک دن وہ تسلیم کرتے کہ وہ جیل میں ہیں، اگلے دن وہ انکار کر دیتے“علی نے کہا۔ان انہوں نے امید چھوڑ دی تھی۔ان کا بھائی جب جیل گیا تھا، تو جوا ن تھا اب وہ ایک بوڑھے آدمی کے طور پر باہر نکلے ہیں۔
شامی نیٹ ورک برائے انسانی حقوق (ایس این ایچ آر) کے اندازوں کے مطابق، 2011 سے، 1.2 ملین سے زیادہ شامیوں کو حراست میں لیا گیا ہے یا غائب کر دیا گیا ہے۔ اعداد و شمار میں کم از کم 135,253 افراد شامل ہیں، جن میں 3,691 بچے اور 8,473 خواتین شامل ہیں، جو حکومت کی جیلوں میں غائب ہو گئے۔ یہ اعداد و شمار اسد کے دور حکومت میں ہونے والی وسیع تر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی صرف ایک جھلک ہیں۔
اگست 2013 میں غوطہ پر کیمیکل حملہ جنگ کے سب سے تاریک بابوں میں سے ایک ہے۔ اسد کی افواج نے سرین گیس استعمال کرتے ہوئے 1,400 سے زیادہ لوگوں، بشمول بچوں اور خواتین کو ہلاک کر دیا۔ حملے نے، جس میں صبح کی ٹھنڈی اور ساکن ہوا کا فائدہ اٹھایا گیا تھا، خاندانوں کو ان کے گھروں میں دم گھٹ کر مارا۔
عالمی برادری کے غصے کے باوجود، حکومت کی تشدد کی مہم جاری رہی، جس نے بین الاقوامی برادری کی بے بسی کو اجاگر کیا۔ ڈیٹا بیس کے مطابق، 2012 سے 222 بار شام میں کیمیکل ہتھیار حملوں کا دستاویزی طور پر ثبوت موجود ہے۔
ان تمام حملوں میں تقریباً 98 فیصد شامی حکومتی افواج کی طرف سے کیے گئے، جبکہ تقریباً دو فیصد آئی ایس آئی ایس کی طرف سے کیے گئے۔
شام کی یہ دکھ بھری کہانیاں سن کر میں اب کیلس سے انقرہ کی طرف واپسی کا ارادہ کر رہا تھا۔ سرحد کی دوسری طرف جشن مناتے ہوئے ہوا میں فائرنگ کا سلسلہ تھم ہی نہیں رہا تھا۔ مہاجر کیمپ میں موجود یاسمین اپنے بچے کو گود میں لیے سرحد کے پار دیکھ رہی تھی۔ اس کے چہرے پر امید اور غیر یقینی کا امتزاج تھا؛
ہم اتنا عرصہ اس کا انتظار کر رہے تھے،“اس نے کہا۔ ”لیکن آزادی تو صرف ایک شروعات ہے۔ اب ہمیں ایک ایسا شام تعمیر کرنا ہے جہاں ہمارے بچے دوبارہ خواب دیکھ سکیں۔
یقیناً جنگ زدہ ملک میں تعمیر نو بنیادی ڈھانچے کو کھڑا کر کے عارضی راحت کا لمحہ ہوسکتا ہے مگر اصل چیلنج معاشرہ کے زخموں کا مداوا کرنا اور اس کو متحد کرنا ہے۔
بچ جانے والوں کی کہانیاں ہمیں یاد دلاتی رہیں گی کہ جنگ انسانی زندگیوں پر کس قدر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ اس سے قبل کہ دنیا کی توجہ کسی اور طرف مبذول ہو، شام کے عوام پر پچھلی ایک دہائی کے دوران جو بیتی، یا جو اس وقت غازہ پر بیت رہی ہے، ہمیں بتاتی ہے کہ اکیسویں صدی کے مہذب معاشرہ میں بھی چنگیز خان یا ہٹلر کی روح کو شرمندہ کرنے والے موجود ہیں۔ ایک انسان کس قدر انسانیت سے عاری اور حیوانوں سے بھی بد تر ہوسکتا ہے۔