رسم الخط کی اہمیت
رسم الخط کی اہمیت
از: ڈاکٹر سراج الدین ندوی
ایڈیٹر ماہنامہ اچھا ساتھی۔بجنور
__________________
جس طرح انسانی بدن میں دل کی اہمیت ہے کہ اس کے بغیر زندہ رہنے کا تصور ناممکن ہے اسی طرح کسی زبان کی حیات اس کے رسم الخط سے وابستہ ہے۔جس طرح کسی شخص کی شناخت اس کے چہرے سے ہوتی ہے اسی طرح کسی زبان کی پہچان کا ذریعہ اس کا رسم الخط ہے۔اگر آپ انسان کے جسم سے اس کا چہرہ الگ کردیں تو شناخت ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوجائے گی۔آپ کو قریب سے جاکر سرکٹے انسان کے بعض اعضاء کا گہرائی سے مطالعہ کرنا ہوگا اور اس سرکٹی لاش کے کسی قریبی عزیز کو بلانا ہوگا جو اس کے قابل ستر اعضاء کی ساخت سے واقف ہواور پہچان کرسکے۔اسی طرح جب کسی زبان کواس کے رسم الخط سے الگ کردیا جائے تواس زبان کی شناخت اس رسم الخط سے وابستہ ہوجائے گی جس میں وہ لکھی گئی ہو۔مثال کے طور پر آپ اردو کا کوئی شعر دیوناگری رسم الخط میں لکھیں تو پہلی نظر میں دیکھنے والا اسے ہندی زبان کا شعر ہی کہے گا یہ الگ بات ہے کہ اردو زبان سے واقف کوئی ادیب یہ کہے کہ”شعر تو اردو زبا ن کا ہے مگر اس کو ہندی میں لکھا گیا ہے۔“یہی معاملہ دوسری زبانوں کا بھی ہے۔ہندی زبان کو فارسی رسم الخط میں لکھنے سے اگرچہ وہ فارسی اور اردونہیں بن جاتی لیکن بظاہر وہ فارسی اور اردو ہی نظر آتی ہے۔
اردو زبان پرجو مظالم ڈھائے گئے ہیں ان میں سے ایک ظلم یہ ہے کہ اس کے رسم الخط کو مٹانے کی کوششیں مسلسل کی جارہی ہیں۔ظالموں نے پہلے اسے تعلیمی نصاب سے باہر کیا،پھر سرکاری ملازمتوں اور مراعات سے محروم کیا،اس پر ملک دشمنی کے الزامات لگائے گئے،اس کی درسی کتابوں کو آؤٹ آف اسٹاک کہہ کر طالب علم کو دوسرا مضمون لینے پر مجبور کیا گیا اور اب اس کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کی تیاری ہے کہ اردو کو اس کے رسم الخط سے محروم کردیا جائے۔اردو رسم الخط کی مخالفت کرنے والوں میں ان لوگوں کا نام شامل ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں جن کی اسلام اور مسلم دشمنی جگ ظاہر ہے۔لیکن اہنسا کے پجاری اور مسلمانوں کو اپنی آنکھ کہنے والے،مہاتما جناب کرم چند گاندھی کا نام اس فہرست میں دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔گاندھی جی نے بھارتیہ ساہتیہ پریشد کے جلسے منعقدہ 1936ء ناگپور میں کھل کر اُردو زبان کی مخالفت کی اور کہا۔”اُردو زبان مسلمانوں کی مذہبی زبان ہے، جو قرآن کے حروف میں لکھی جاتی ہے اور مسلمان بادشاہوں نے اسے پھیلایا۔ مسلمان چاہیں تو اسے رکھیں اور پھیلائیں۔“اپنے اس بیان میں گاندھی جی نے ایک طرف تو اردو کو مسلمانوں کی زبان قرار دے کر زیادتی کی اور پھر اس کے رسم الخط پر سوال اٹھا کر اپنے دل میں چھپی برہمنیت کو ظاہر کردیا۔
اردو زبان کو صرف مسلمانوں کی زبان قرار دینا بھی انگریزوں کی ایک سازش تھی۔ورنہ اس زبان کا نام ہندوستانی یا ہندی ہی تھا۔اگر اس کا نام ”ہندوستانی“ ہی رہتا تو مجھے پورا یقین ہے کہ ہم وطنوں کی جانب سے اس کے عداوت میں اس قدر کی شدت نہ ہوتی۔اس ضمن میں مشہور نقاد شمس الرحمان فاروقی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:۔
”جب ہماری زبان کا نام ”ہندی“سے ”اردو“بنا دیا گیا تو انگریزوں اور انگریزوں کے حمایتی ”قوم پرست“ ہندوؤں کی توجہ رسم الخط پر زیادہ زوروشور سے ہوئی۔ سب جانتے ہیں کہ اپنی خوبصورتی، کم جگہ میں زیادہ الفاظ کھپا دینے کی صلاحیت، فنکارانہ تنوع کے امکانات اور فارسی، عربی، سنسکرت سے اس کے ربط کے سبب سے اردو کا رسم الخط ہندوستانی تہذیب کی شانوں میں ایک شان ہے اور اردو کے مخصوص حالات کو مدنظر رکھیں تو اسے اردو زبان کی جان کہا جا سکتا ہے۔ یعنی موجودہ حالات میں اردو کا رسم الخط بدلنے کی تجویز درحقیقت اردو کو موت کے گھاٹ اتارنے کی تجویز ہے۔ رنج کی بات یہ ہے کہ اردو کے مخالفین اور دوست نما دشمن، مدت دراز سے اس کے رسم الخط کو اپنی دشمنی کا ہدف بنائے ہوئے ہیں۔(شمس الرحمان فاروقی از روزنامہ خبریں ویب پورٹل)
اردو کے نام سے بھی بعض غلط فہمیاں پیدا ہوئیں۔چونکہ لفظ اردو کے معنیٰ ”لشکر“ کے ہیں۔اس لیے یہ سمجھا گیا کہ یہ زبان فوجیوں کی ہے۔جسے قوم پرست ہندوؤں نے حملہ آوروں کی زبان کہہ کر بدنام کیا۔کوئی بھی قوم حملہ آوروں کو پسند نہیں کرتی،اسے حملہ آوروں سے کوئی ہمدردی نہیں ہوتی،بلکہ وہ اس سے اور اس کی ہر ادا سے نفرت کرتی ہے،یہی حال اردو کے ساتھ ہوا۔ایک سازش کے تحت اسے مسلمانوں سے وابستہ کیا گیا اور مسلمانوں کو حملہ آور قرار دیا گیا۔چنانچہ بعض غیر مسلموں نے مسلمانوں سے نفرت کا رویہ اپنایا تو ان کی تہذیب و ثقافت سے بھی علیحدگی اور عداوت کا رویہ اپنایا۔حالانکہ اردو زبان کسی اسلامی ملک کی زبان نہ تھی اور نہ ہے۔نہ اس کا تعلق اسلام کے ماخذ سے ہے۔یعنی یہ قرآن و حدیث کی زبان بھی نہیں ہے۔یہ بھی اتفاق ہے کہ ہندوستان کے کسی مسلم فرمانروا کی زبان بھی اردو نہیں تھی۔یہ الگ بات ہے کہ انھوں نے یہاں کی عوام سے رابطہ کے لیے اس زبان کو استعمال کیا۔اس کا تعلق خاص طور پر ہندوستان سے ہے۔
رسم الخط کی تبدیلی کوئی معمولی عمل نہیں ہے۔سب سے پہلے تو طے کرنا ہوگا کہ کون سا رسم الخط اختیار کیا جائے۔ہندوستان میں رہنے والے ہمارے خیر خواہ چاہتے ہیں کہ اسے دیوناگری رسم الخط میں لکھا جائے اور انگلستان کے باشندے چاہتے ہیں کہ رومن میں لکھا جائے۔آج مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اردو کو ان دونوں رسم الخط میں لکھ بھی رہی ہے۔لیکن ذرا ایمانداری سے بتائیے:۔”کیا ان دونوں رسم الخط میں اردو کے صحیح تلفظ کی ادائیگی ہورہی ہے؟“میں کہتا ہوں،ہوہی نہیں سکتی۔اردو میں ہم آواز کئی حروف ہیں۔مثال کے طور پر”س،ص،ث“کا تلفظ تقریباً یکساں ہے۔جب کہ معنیٰ کے لحاظ سے ان میں زمین و آسمان کا بعد ہے۔مثلاً ”ثواب اور صواب“ میں کیا مطابقت ہے۔ثواب کے معنی فائدہ،جزا،اجر،نیکی اور بھلائی کے ہیں جب کہ صواب کے معنی درست،راست اور صحیح کے ہیں۔آپ جب ان دونوں الفاظ کو دیوناگری یا رومن میں لکھیں گے تو ایک ہی طرح لکھیں گے۔پھر کس طرح ان کے معانی میں تمیز و فرق قائم رکھا جاسکے گا۔اسی طرح”سدا“کے معنیٰ ہمیشہ کے ہیں اور”صدا“کے معنی آواز کے ہیں۔وہ کونسا طریقہ ہوگا کہ بولنے والا یا لکھنے والا ان کے معانی کے فرق کو سمجھ سکے۔صرف یہی نہیں،”ح“ اور ”ہ“۔”ت“ اور ”ط“،”ز۔ذ۔ظ اور ض“ کی آواز بھی یکساں ہے لیکن معانی الگ الگ ہیں۔
ہمارے ایک دانشور ہیں جن کا تعلق فلمی دنیا سے ہے،ویسے تو وہ زندہ جاوید شخصیت کے مالک ہیں اور اردو بہت شستہ بولتے ہیں مگر اس وقت اردو رسم الخط پر خوب باتیں کرتے ہیں۔سوشل میڈیا پر ان کی ویڈیوز دیکھی جاسکتی ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ رسم الخط بدلنے سے زبان نہیں بدلتی۔اس کی مثال میں وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص رومن میں لکھتا ہے ”M DELHI MEN QAYAM KARTA HOON“تو یہ انگریزی نہیں ہے۔بلکہ اردو ہی ہے۔بے شک یہ انگریزی نہیں ہے۔لیکن اگر آپ کسی شخص کو انگریزی لباس پہنا کر ایسی آبادی میں لے جائیں جہاں کے رہنے والے اسے جانتے اور پہچانتے نہ ہوں تو جو لوگ اسے دیکھیں گے وہ اس شخص کو انگریز ہی سمجھیں گے اور دھوکا کھاجائیں گے۔اس کا مطلب ہوا کہ کسی زبان کو دوسرے رسم الخط میں لکھنا دوسروں کو فریب دینا ہے اور اس غیر اخلاقی حرکت کو کوئی شریف النفس انسان گوارہ نہیں کرے گا۔
سوال یہ بھی ہے کہ آخر اردو والو ں سے ہی یہ مطالبہ کیوں کیا جارہا ہے کہ وہ اپنا رسم الخط بد ل ڈالیں؟اس کے جواب میں رسم الخط کی تبدیلی کے علم بردار و دعویدار کہتے ہیں کہ:۔”یہ رسم الخط لکھنے میں بہت مشکل ہے۔“تو مجھے بتائیے کہ آسان کون سا ہے۔رومن حروف تہجی لکھنے میں ضرور آسان لگتے ہیں،مگر ان کے کئی الفاظ لکھے کچھ جاتے ہیں اور پڑھے کچھ جاتے ہیں۔مثال کے طور پر psychologyکو آپ کس قانون کے تحت سائکالوجی اورfuture کو آپ فیوچرپڑھیں گے۔سوائے اس کے کہ اہل زبان اس لفظ کو اس طرح ہی پڑھتے ہیں۔رہی دیوناگری کی بات تووہ اردو سے بھی زیادہ مشکل ہے۔رشی کا ”ر“ بنانے میں ہی پسینہ آجاتا ہے۔جب کہ اردو رسم الخط کی آسانی یہ ہے کہ اس میں کئی کئی حروف کی شکلیں ایک جیسی ہیں۔مثال کے طور پر ”ب۔پ۔ت۔ٹ۔ ث اور ف“ ایک طرح لکھے جاتے ہیں۔کسی دیگر زبان کے چھ حروف مجھے بتائیے کہ ایک طرح لکھے جاتے ہوں۔اسی طرح ”ر۔ز۔ڑ۔اور ژ“ چار حروف،”د۔ڈ۔اور ذ۔“ تین حروف،”س۔ش۔ص۔ض۔“ چا حروف ایک طرح لکھے جاتے ہیں۔دنیا کی کس زبان کے حروف تہجی میں یہ آسانی موجودہے؟دراصل مشکل کہہ کر صرف دوسروں کو ورغلانا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ انسان جو اردو کے رسم الخط کی تبدیلی کا مطالبہ کرتا ہے یا خواہش رکھتا ہے اس کے اندر کہیں نہ کہیں اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کا عنصر موجود ہے۔
انگریز جہاں گئے اپنی زبان اور تہذیب کے ساتھ گئے اور انھوں نے کوئی ادنیٰ چیز بھی نہیں چھوڑی۔بلکہ ہر طرح سے اسے دوسروں پر مسلط کیا۔یہودی دنیا کے کسی حصہ میں بھی رہتے ہوں آپس میں اپنی زبان ہی بولتے اور اپنے ہی مخصوص رسم الخط میں لکھتے ہیں۔آخر مسلمانوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ اپنی زبان کو اس کے اپنے وطن میں ہی غیر کیے دے رہے ہیں۔آج اردو لکھنے والے بھی اردو ہندسوں کا استعمال نہیں کرتے،کسی اسکول،کالج کو تو چھوڑئے مدارس تک میں اردو ہندسوں پر مبنی ریاضی کی کتاب نہیں پڑھائی جاتی،ہر جگہ رومن ہند سے مستعمل ہیں۔جس طرح ہماری نسلیں اردو ہندسوں سے ناواقف ہوچکی ہیں اگر اردو زبان کا رسم الخط ترک کردیا گیا تو وہ اردو کے حروف تہجی کو بھی بھول جائیں گی اور ہم جانتے ہیں کہ اردو کا رسم الخط عربی کے مثل ہے تو اس کا ایک نقصان یہ ہوگا کہ ہماری نسلیں قرآن مجید بھی رومن یا دیوناگری میں پڑھنے لگیں گی۔اس طرح نہ صرف ایک زبان اپنی موت مرجائے گی بلکہ مسلمان قرآن،حدیث اور اسلام کے ماخذ سے بھی دست بردار ہوجائیں گے۔اس لیے میری گزارش ہے کہ مسلمان اور محبان اردو نہ صرف اپنی زبان سیکھیں،بلکہ اس کے رسم الخط کی حفاظت بھی کریں۔اغیار کو نہ سہی اپنوں کو تو اردو رسم الخط میں مخاطب کریں۔