عالمی یومِ عربی: ہندوستان میں عربی زبان کا فروغ و ارتقا اور موجودہ چیلنجز

عالمی یومِ عربی: ہندوستان میں عربی زبان کا فروغ و ارتقا اور موجودہ چیلنجز

از: محمد شہباز عالم

صدر شعبۂ عربی، سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی، کوچ بہار، مغربی بنگال

_____________________

عربی زبان کو عالمی سطح پر ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ یہ نہ صرف ایک عظیم مذہبی زبان ہے بلکہ علم و ادب، فلسفہ، سائنس، ریاضیات، طب، اور دیگر علوم کے فروغ کا بھی ایک اہم ذریعہ رہی ہے۔ عالمی یومِ عربی ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ عربی زبان نے انسانی تہذیب کی ترقی میں ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا ہے۔ ہندوستان، جو اپنے تہذیبی تنوع اور زبانوں کے تحفظ کے لیے مشہور ہے، عربی زبان کی ترویج و تدریس میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔ قرونِ وسطیٰ سے لے کر جدید دور تک، عربی زبان ہندوستانی علمی، دینی، اور ثقافتی زندگی کا اہم حصہ رہی ہے۔

ہندوستان میں عربی زبان کا فروغ اور حکومتوں کا کردار:

ہندوستان میں عربی زبان کا فروغ اسلامی تہذیب کے آغاز سے شروع ہوا۔ مسلم حکمرانوں کے دور میں عربی کو دینی اور علمی زبان کے طور پر فروغ ملا۔ مدارس اور خانقاہوں نے عربی کو دینِ اسلام کی تعلیمات کے ساتھ جوڑ کر عام کیا، اور یہ زبان ہندوستانی مسلمانوں کے لیے دینی ضروریات کی تکمیل کا ذریعہ بن گئی۔

آزادی کے بعد، حکومتِ ہند نے عربی زبان کو جدید تعلیم کا حصہ بنانے کے لیے کئی اقدامات کیے۔ مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے عربی زبان کو اسکولوں، کالجوں، اور یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل کیا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی جیسے ادارے آج عربی زبان کی تدریس اور تحقیق کے مراکز کے طور پر کام کر رہے ہیں۔

ریاستی حکومتوں نے بھی عربی زبان کی ترقی کے لیے بھرپور اقدامات کیے ہیں۔ مغربی بنگال، اتر پردیش، بہار، اور کیرالہ میں مدارس اور کالجوں کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی سطح پر عربی کی تعلیم کو بڑھاوا دیا گیا۔ اسکالرشپ، عربی اساتذہ کی تقرری، اور تحقیق کے لیے مالی امداد جیسے اقدامات قابلِ ستائش ہیں۔ ان کوششوں پر حکومتوں اور تعلیمی اداروں کا شکریہ ادا کرنا ضروری ہے، جو عربی زبان کو زندہ رکھنے کے لیے بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔

موجودہ چیلنجز: نا اہل تقرریوں کا مسئلہ

عربی زبان کی ترقی کے ان مثبت پہلوؤں کے ساتھ، ایک افسوسناک مسئلہ بھی جڑا ہوا ہے۔ بعض عربی پروفیسرز نے تقرری کے عمل میں میرٹ کے بجائے تعلقات اور اثر و رسوخ کو فوقیت دی ہے۔ نا اہل افراد کی تقرری کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے، جو عربی زبان کے تدریسی معیار کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

نا اہل اساتذہ کی تقرری سے طلبہ کے تعلیمی مستقبل پر منفی اثر پڑتا ہے اور عربی زبان کے علمی وقار کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ ایسے افراد، جو عربی زبان کی بنیادی تعلیم و تدریس کے اہل نہیں ہیں، طلبہ کی رہنمائی کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ یہ مسئلہ صرف عربی زبان کے طلبہ کے اعتماد کو مجروح نہیں کر رہا، بلکہ علمی و تدریسی دنیا میں عربی شعبوں کے وقار پر بھی اثر ڈال رہا ہے۔

حل کی تجاویز:

اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔

  • 1. شفافیت: تقرری کے عمل میں شفافیت کو یقینی بنایا جائے اور اہلیت کو واحد معیار بنایا جائے۔
  • 2. سخت نگرانی: تعلیمی اداروں اور عربی زبان کے شعبوں کی نگرانی کے لیے آزاد کمیشن قائم کیے جائیں۔
  • 3. احتساب: ایسے افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے جو ذاتی مفادات کی بنا پر نا اہل افراد کی تقرری کرتے ہیں۔
  • 4. تربیت: عربی اساتذہ کے لیے خصوصی تربیتی پروگرامز کا انعقاد کیا جائے تاکہ وہ جدید تقاضوں کے مطابق طلبہ کو تعلیم فراہم کر سکیں۔

نتیجہ:

عالمی یومِ عربی کا مقصد صرف اس زبان کی عظمت کو تسلیم کرنا نہیں، بلکہ اس کی ترقی کے لیے درپیش چیلنجز کو سمجھنا اور ان کا حل تلاش کرنا بھی ہے۔ ہندوستان میں عربی زبان کی تدریس اور تحقیق کے لیے کیے گئے اقدامات قابلِ تعریف ہیں، لیکن اس کے فروغ کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا بھی لازمی ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم عربی زبان کے اساتذہ کی تقرری میں میرٹ، شفافیت، اور معیار کو اولین ترجیح دیں، تاکہ یہ زبان اہل و ذی استعداد اساتذہ کی کوششوں سے ہندوستان میں اپنی علمی شان کے ساتھ ترقی کرتی رہے۔ عالمی یومِ عربی ہمیں اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ عربی زبان، جو ہماری تہذیبی وراثت کا اہم حصہ ہے، کو محفوظ اور مضبوط بنانا ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔