دلی انتخابات میں امکانات

دلی انتخابات میں امکانات

از: تسلیم رحمانی

دلی میں انتخابی تاریخوں کا اعلان ہو چکا ہے۔ ایک ماہ کے اندر نتائج سامنے ا ٓجائیں گے۔ اور فیصلہ ہو جائے گا کہ دلی کا تاج کس کے سر پر سجے گا۔ ویسے دلی حکومت کے بارے میں یہ بات صادق آتی ہے کہ دلی کا وزیراعلی اور ان کی کابینہ بے تاج بادشاہ ہوتے ہیں ، اصل تاج تو دلی کے گورنر اور مرکزی حکومت کے سر پہ ہی رہتا ہے دلی کے مرکز کے زیر انتظام علاقہ ہونے کی وجہ سے اصل طاقت مرکزی حکومت کے نامزد کردہ گورنر اور منتخب ممبران پارلیمنٹ کے پاس ہوتی ہے ،یا پھر بالکل زیریں سطح پر بہت سے اختیارات میونسپل کارپوریشن کے پاس ہوتے ہیں ۔ ایسے میں اسمبلی کے پاس بہت محدود اختیارات ہوتے ہیں ،وہ زیادہ سے زیادہ ایک سفارش کنندہ اتھارٹی ہی رہتی ہے ،اسی وجہ سے دلی والوں کی اکثر بنیادی ضروریات مرکز اور دلی کے تنازعات کا شکار ہو جاتی ہیں۔

دلی میں اس بار مقابلہ بہت دلچسپ ہونے کے امکانات ہیں ۔ابھی سے محسوس ہو رہا ہے کہ تینوں پارٹیاں یعنی حکمران عام آدمی پارٹی، بی جے پی اور کانگریس پوری قوت سے ایک دوسرے پر حملہ آور ہوں گے ۔اس کے علاوہ کچھ غیر معروف پارٹیاں اور آزاد امیدوار بھی ایک سنسنی خیز انتخابی مہم چلائیں گے ۔اس طرح دلی کے 70اسمبلی حلقوں میں سے اکثر حلقوں میں کثیر جہتی مقابلہ ہونے کے پورے آثار موجود ہیں جیسا کہ 2013 کے انتخابات میں ہوا تھا ،فرق بس اتنا ہے کہ اس بار انتخابی مہم کافی پر شور ہو سکتی ہے۔مقابلہ دلچسپ اس لیے ہوگا کہ تین مد مقابل پارٹیوں کے اہداف اس بار مختلف ہیں ۔جہاں عام ادمی پارٹی چوتھی بار اپنی اکثریت کو برقرار رکھنے اور اپنے قیادت کو کامیاب کرنے کی جدوجہد کرے گی وہیں بی جے پی کی کوشش محض اتنی ہوگی کہ اس کا ووٹ فیصدبڑھ جائے اورسیٹوں کی تعداد میں قابل قدر اضافہ ہو جائے نیز عام آدمی پارٹی کی اعلی قیادت انتخاب ہار جائے۔ حکومت سازی اس کا ہدف نہیں لگتا ۔جبکہ کانگریس کا ہدف محض اتنا ہے کہ کسی طرح عام ادمی پارٹی کو شکست ہو جائے کیونکہ خوداس کا جیت کر اقتدار میں آنا تو ممکن نہیں ہے۔ ان اہداف کی واضح وجوہات موجود ہیں ۔عام آدمی پارٹی تو ظاہر ہے کہ جیت کے لیے لڑ رہی ہے کیونکہ اگر دلی میں پارٹی ناکام ہو جاتی ہے تو یہ بالکل ایسا ہی ہوگا کہ کسی عمارت کی بنیاد کو اکھاڑ کے پھینک دیا جائے اور پوری عمارت کو چشم زدن میں زمین بوس کر دیا جائے ۔پنجاب حکومت پربھی پارٹی کی حیثیت پر اس کا منفی اثر مرتب ہوگا ۔ہریانہ ، پنجاب گجرات، اتراکھنڈاور گوا جیسے صوبوں میں پارٹی کی اہمیت تقریبا ختم ہو جائے گی اسی طرح اگر پارٹی کی اعلی قیادت مثلا کیجریوال ،منیش سسودیا ،آتشی اورکوپال رائے وغیرہ کو ہرانے میں بی جےپی کامیاب ہو جاتی ہے تو بھلے ہی عام آدمی پارٹی کو اسمبلی میں اکثریت حاصل ہو جائے مگر قیادت کا بحران ضرور پیدا ہو جائے گا ۔یہی بی جے پی چاہتی ہے ۔دلی میں بی جے پی کا خود نہ جیتنے کا ہدف اس لیے بھی ہے کہ مذکورہ ریاستوںمیں کانگریس کو ہرانے اور قومی سطح پر کانگرس کے متبادل کے طور پر عام آدمی پارٹی آج بھی بی جے پی کے لیےکافی مفید ہے ۔کیونکہ ملک میں قومی سطح کی کوئی دیگر پارٹی ایسی نہیں ہے جو شمالی اور وسطی ہندوستان میں کانگریس کا ووٹ کاٹ کر بی جے پی کو فائدہ پہنچا سکے ۔مثلا گوا،گجرات ، اتراکھنڈ اورہریانہ کے گذشتہ انتخابات میں بی جے پی کی جیت میں عام آدمی پارٹی کا بہت بڑا رول رہاہے ۔جو خود تو نہیں جیت سکی مگر کانگریس کو بری طرح ہرا دیا۔ یہی رول آئندہ دنوں میں یو پی اور شمال مشرق کی ریاستوں میں بھی انجام دے سکتی ہے۔ چنانچہ دلی کی وہ اسمبلی جس کے پاس کوئی طاقت نہیں ہے وہ عام آدمی پارٹی کو ہارکر بہت سے اہم صوبوں میں بی جے پی اپنی جیت کے لیے راہ ہموار کرسکتی ہے۔ قومی سطح پربھی عام آدمی پارٹی کی بوسیدہ عمارت کو قائم رکھنا بی جے پی کے لیے کانگریس مکت بھارت بنانے میں مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کے برعکس کانگریس چونکہ خود جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہےاور نہ ہی پارٹی نیٹ ورک اور وسائل ہیں کہ کانگریس از خود اکثریت حاصل کر سکے ۔ اگرچند حلقوں میں بھی کامیاب ہو جائے تو بس کانگریس کے لیے یہ کہنے کو رہے گا کہ اس کا ووٹ فیصدبڑھ گیا اور صفر کے مقابلے کچھ سیٹیں بھی حاصل کر لیں ۔ پارٹی دلی میں ایک بار پھر زندہ ہو گئی ، لیکن اپنے اہم لیڈران کو امیدواربنا کے عام آدمی پارٹی کی اعلی قیادت کو ہرانے کے کام میں بی جے پی کی مدد ضرورکرسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عام آدمی پارٹی کی قیادت بار بار یہ الزام لگا رہی ہے کہ کانگریس اور بی جے پی کا خفیہ اتحاد ہے ، اور اس میں صداقت بھی ہے، کانگریس کی ریاستی قیادت چاہتی ہے کہ کسی بھی طرح بی جے پی دلی کے اقتدار پر قابض ہو جائے گا اور اسے عام آدمی پارٹی سے نجات مل جائے تاکہ ائندہ انتخابات میں بی جے پی کے ساتھ براہ راست مقابلے میں اس کو کامیابی مل سکے ۔اس لیے تینوں پارٹیوں کے اہداف مختلف بھی ہیں اوردلچسپ بھی۔ بہرحال سیکولرزم کسی کے بھی پیش نظر نہیں ہے۔

جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے تو اس بار گزشتہ انتخابات کی طرح یکطرفہ کوئی لہر فی الوقت دکھائی نہیں دیتی۔ 2020میں سی اے اے اور این آر سی کے معاملے میں عام آدمی پارٹی کی سرد مہری کے باوجود مسلمانوں نے جنونی انداز میں عام آدمی پارٹی کو ووٹ دیا تھا ۔ پولنگ فیصدبھی زیادہ تھا مگر انتخابات کے فورا بعد دلی فسادات میں حکمران جماعت کی کارکردگی نے مسلمانوں میں ایک غصہ پیدا کیا تھا جس کا کچھ نہ کچھ اثر ابھی بھی باقی ہے ۔ادھر کانگریس کا گراف بھی قومی سطح پر 2024 انتخابات کے بعد بہتر ہوا ہے ۔جس کا اثر مسلم ووٹران پر بھی ہے جو عام آدمی پارٹی کے لیے مضر ثابت ہونے والا ہے۔اوراس حقیقت سے تمام پارٹئاں اچھی طرح واقف ہیں ،اس لیےتینوں کا منشا یہی ہے کہ دلی کے 11 فیصد مسلم ووٹ کو بالکل بے اثر کر دیا جائے ۔امیدواروں کے انتخاب سے اس کا واضح اشارہ بھی ملتا ہے۔ عام آدمی پارٹی کے سابق مسلم امیدواروں کو کانگریس نے اور کانگریس کے سابق امیدواروں کو عام آدمی پارٹی نے مسلم علاقوں سے امیدواربنایا ہے نیز کانگریس نے اپنے جیتنے والے امیدواروں کو جان بوجھ کر ہارنے والی سیٹوں پر امیدوار بنایا ہے ،مثلا آتشی کے مقابلے الکا لامبا کو امیدوارا بنانا اسی امر کا ثبوت ہے۔ورنہ الکا لامبا اس بار اپنی پرانی چاندنی چوک سیٹ سے بہ آسانی جیت سکتی تھیں۔ یہ امر حیرت انگیز نہیں ہوگا کہ اس بار دلی کے قابل لحاظ مسلم آبادی والے تقریبا 15 حلقوں میں امیدواروں کی تعداد بہت زیادہ ہو مذکورہ تین پارٹیوں کے علاوہ بہت سی غیر معروف یا غیر موثر پارٹیوں کے امیدوار نیز آزاد امیدوار بڑی تعداد میں کھڑے ہوں گے سیلم پور، مصطفی آباد، بابرپور، سیما پوری ، بلی ماران، مٹیامحل ، چاندنی چوک ، صدر بازار، جہانگیرپوری، براری ، اوکھلا ، بدرپور ،گاندھی نگر ، سنگم وہار ،تغلق آباد ،لکشمی نگر اور ترلوک پوری جیسے حلقے جہاں مسلم ووٹ 15 سے 55 فیصد تک ہیں ان پارٹیوں کے تختہ مشق بنیں گے۔ بی جے پی کی کوشش ہوگی کہ ان میں سے زیادہ تر حلقوں میں وہ کامیاب ہو جائے اس غرض سے خود این ڈی اے میں شریک پارٹیاں بھی اس بار بی جے پی کے خلاف اپنے بہت مضبوط امیدوار میدان میں اتاریں گی اور اچھے خاصے افرادی وسائل اور دولت کا استعمال کر کے طاقت سے لڑیں گے ۔ماڈل ایسا ہی ہوگا جو حالیہ مہاراشٹر انتخابات میں دیکھنے کو ملا تھا کہ آزاد اور دیگر پارٹیوں کے امیدواروں نے بی جے پی کے بعد دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے مگر کوئی سیٹ جیتی نہیں۔
مسلمانوں کے لیے غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جہاں ایکطرف بی جے پی اور عام آدمی پارٹی ایک دوسرے کے حریف نہ ہو کر حلیف ہیں اور کانگریس اقتدار کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتی تو کیا مسلمانوں کو بی جے پی کو ہرانے کے دیرینہ پر جوش نعرے اور غیر سیاسی حکمت عملی کا کوئی فائدہ ہوگا ؟ ایسی صورتحال میں بہتر امکان یہی دکھائی دیتا ہے کہ مقامی طور پر جس پارٹی کا امیدوار بھی مسلمانوں سے قریب ہو اور عوامی دسترس میں ہو نیز مقامی مسائل حل کرانے کی پوزیشن میں ہو اسی امیدوارکو پارٹی لائن سے اوپر اٹھ کر ووٹ کریں۔ دلی میں سرکار کس کی بنتی ہے یہ نہ تو مسلمانوں کا درد سر ہے اور نہ اس سے ان کی روزمرہ زندگی پر کوئی اثر پڑنے والا ہے ۔اگر آپ کے علاقے میں کچھ سہولیات میسر ا ٓسکتی ہیں ،مثلا اسکول، ہسپتال، نالی ، سیور، سڑک نیز پرامن ماحول قائم رہ سکتا ہے تو پھر فی الوقت اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ امیدوار کس پارٹی سے تعلق رکھتا ہے ، مسلمانوں کو اپنی سیاسی حکمت عملی توبدلنی ہی ہوگی کیونکہ بہرحال تو اس وقت تقریبا تمام ہی پارٹیاں ایک مسلم کش نظریے کی حامل ہیں ۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔