کیا اسی کا نام اجتماعیت ہے ؟
از:- شکیل رشید ایڈیٹر ممبئی اُردو نیوز
آج 26 ، جنوری ہے ۔ سارا ملک 76 واں یوم جمہوریہ منا رہا ہے ۔ ہماری صدرِ جمہوریہ دروپدی مرمو نے اس موقع پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے کئی اہم باتیں کہیں ، جیسے کہ ’’ ہمارا آئین نہ صرف ایک زندہ دستاویز ہے بلکہ ہماری اجتماعی شناخت کا بنیادی ستون بھی ہے ۔‘‘ انہوں نے ہندوستان کی قومیت اور خودی کے شعور کے بیدار ہونے پر خوشی کا اظہار کیا ، اور آزادی کے لیے اپنی جانوں کی قربانی دینے والوں کو یاد کرنے کی ضرورت پر زور دیا ، بالخصوص انہیں جن پر توجہ نہیں دی گئی ہے ۔ ہم صدر جمہوریہ کے خطاب پر سوائے اس سوال کے اور کچھ نہیں کہنا چاہتے کہ جس ’ قومیت ‘ اور ’ خودی کے شعور کی بیداری ‘ کی وہ بات کر رہی ہیں ، کیا وہ پہلے کے لوگوں میں ، جنہوں نے اب سے پہلے یومِ جمہوریہ کا استقبال کیا ہے ، نہیں پایا جاتا تھا ؟ کیا یہ کوئی خاص قسم کی ’ قومیت ‘ اور ’ شعور کی بیداری ‘ ہے ؟ مزید یہ کہ وہ کون سے مجاہدین آزادی ہیں جن پر توجہ نہیں دی گئی ہے ؟ اگر اس سے مراد ایک مخصوص نظریہ یا مخصوص ذہنیت رکھنے والے لوگ ہیں ، تو شاید ان پر توجہ نہ دینا ہی ٹھیک ہے ، کیونکہ ان کا ملک کی آزادی میں کوئی کردار نہیں ہے ۔ ایک سوال مزید ہے ؛ بلاشبہ ہمارا آئین ایک زندہ دستور ہے ، اور یقیناً یہ اجتماعیت کا بنیادی ستون ہے ، لیکن کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج ملک کی اجتماعیت کو پارہ پارہ کیا جا رہا ہے ، اور جمہوریت کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں ؟ جمہوری ملک کا مطلب ایک ایسا ملک ہے جہاں عوام کے درمیان مذہب اور ذات پات کے نام پر کوئی بھید بھاؤ نہ کیا جاتا ہو ۔ آزادی کی جد و جہد اور پھر ملک کے بھیانک بٹوارے کے بعد 1950 میں جمہوری نظام لوگوں کے لیے راحت اور سکون کا مژدہ لے کر آیا تھا ۔ یہ وہ دن ہے جب ملک کے آئین کا ، دستور کا نفاذ کیا گیا تھا ، اور لوگوں نے چین کی سانس لی تھی کہ اب اس ملک میں انہیں ، کوئی بھی ، چاہے وہ ملک کا وزیر اعظم ہی کیوں نہ ہو ، دبا نہیں سکے گا ، ان پر ظلم و جبر نہیں کر سکے گا ۔ لیکن ان کا یہ سمجھنا اب درست نہیں لگ رہا ہے ۔ بیتے ہوئے برسوں کے دوران جمہوری قدریں کمزور ہوتی رہی ہیں ۔ اور گذشتہ کئی برسوں کے دوران تو یہ کہا جا سکتا ہے ، کہ بھلے جمہوری قدریں ختم نہ ہوئی ہوں ، خاتمے کی کگار پر ہیں ، بلکہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی افتتاحی تقریب کے بعد میڈیا کا ایک طبقہ کہہ رہا تھا کہ جمہوریت اب بس نام ہی کو بچی ہے ۔ آج ملک کے حکمراں سیاست کے لیے دھرم کے استعمال کا جو کھلم کھلا مظاہرہ کر رہے ہیں ، کیا کسی جمہوری ملک میں اس کا تصور کیا جا سکتا ہے ! کل پیر سے اترا کھنڈ میں ’ یکساں سول کوڈ ‘ کا نفاذ ہو جائے گا اور مسلم اقلیت پر اسے لاد دیا جائے گا ! کیا یہ جمہوریت کے منھ پر طمانچہ نہیں ہے ! تیاری ہے کہ بنگلہ دیشی کہہ کر مسلمانوں کو ، جتنے مل سکیں ، دیش بدر کر دیا جائے ۔ مسجدیں مزید نشانے پر آ گئی ہیں ۔ مسلمانوں کو مرتد بنانے کی مہم زور شور سے جاری ہے ۔ کوشش ہے کہ مسلمانوں کی وقف املاک ہڑپ لی جائے ۔ شریعت نشانے پر ہے ۔ کیا یہ جمہوری قدروں سے کھلواڑ نہیں ہے؟ کتنے ہی واقعات ہیں جو اس ملک کی جمہوریت پر سوال کھڑا کرتے ہیں ، مثلاً گجرات کا فساد جو اس ملک کی جمہوریت میں ایک ٹرننگ پوائنٹ کی حیثیت رکھتا ہے ۔ ان فسادات میں صرف ایک اقلیت ہی کو قتل اور تباہ و برباد نہیں کیا گیا ملک کی جمہوریت کو بھی قتل کیا گیا اور تباہ و برباد کیا گیا ، اب یہ کام زیادہ وسیع پیمانے پر کیے جانے کا خدشہ ہے ۔ آج اس یوم جمہوریہ پر جب پیچھے گھوم کر دیکھتے ہیں تو نسل کشی کی دھمکیاں ، شہریت پر منڈراتے خطرات اور ووٹ سے محروم کرنے یا ووٹ کا حق چھین لینے کے مطالبے ہی نظر آتے ہیں ۔ کیا اسی کا نام اجتماعیت ہے ؟ کیا ایک زندہ آئین ان سب کی اجازت دیتا ہے ؟ بھارت نے جمہوری ملک کی حیثیت سے ، اپنے دستور کے توسط سے ، مسلمانوں ، دلتوں اور پچھڑوں کو جو حقوق دیے ہیں ، اب بس ان کی پامالی نظر آتی ہے ۔ عوام کو آگے بڑھ کر اپنے ملک کو ، اپنی جمہوریت کو اور اپنے آئین کو بچانا ہوگا ۔ جمہوری قدریں پامال نہ کی جاسکیں اس کے لیے بیداری بھی لانی ہوگی اور ایسےحکمرانوں کا انتخاب بھی کرنا ہوگا جو جمہوریت اور آئین پر یقین رکھتے ہوں ، اور جمہوری قدروں کی بحالی کے لیے مضطرب ہوں ۔