کیجریوال کی ہار پر تعجب نہ تاسف

سچ تو مگر کہنے دو!!

کیجریوال کی ہار پر تعجب نہ تاسف

از:- ڈاکٹرسید فاضل حسین پرویز

دہلی کی نئی حکومت تشکیل دی جارہی ہے۔ 27 برس بعد ہندوستان کی راجدھانی پر دوبارہ قبضہ کرنے کا بی جے پی جس طرح جشن منا رہی ہے وہ واجبی ہے۔ ورنہ اروند کجریوال نے تو کہہ دیا تھا کہ مودی انہیں (کجریوال) کم از کم اس جنم میں ہرا نہیں سکتے شاید یہ ان کے تکبر اور بڑے بول کی سز اہے کہ مودی کی پارٹی نے انہیں نہ صرف ہرایا بلکہ ان کے سیاسی کیرئیر کو ہمیشہ کیلئے ختم کردیا۔ ایک سال کے عرصے میں کے سی آر اور کجریوال کا سیاسی زوال سیاسی دنیا میں عبرت کی مثال بن گیا۔ کے سی آر کو بھی بڑا وہم تھا کہ ان کی بدولت تلنگانہ ریاست وجود میں آئی وہ تلنگانہ کے گاندھی ہیں اور انہیں کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ دس سال بعد انہیں بھی اقتدار سے محروم ہونا پڑا اور کجریوال 12 برس تک دہلی کے تخت پر براجمان رہے اور پھر انہیں بھی اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا۔ کے سی آر اور کجریوال دونوں پر تقریبا ایک ہی قسم کے الزامات ہیں۔ کے سی آر کی بیٹی کویتا اور کجریوال دونوں ہی شراب اسکام میں ملوث رہے۔ دونوں کو جیل میں اچھا خاصا وقت گزارنا پڑا اس دوران ان کی امیج بری طرح سے متاثر ہوئی کہ اس کی بحالی ناممکن ہے۔ سیاست میں ہار جیت ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہے۔ جب اندرا گاندھی، اٹل بہاری واجپئی جیسے قداور شخصیات کو شکست ہوسکتی ہے تو کجریوال کا ان سے کوئی تقابل نہیں ہے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت یا اس کا قائد کتنا ہی اچھا کام کرے ایک وقت آتا ہے جب اس کے اچھے کام سے بھی عوام بیزار ہو جاتے ہیں۔ ایک ہی جماعت اور ایک ہی قائد کو طویل عرصہ تک برداشت کرنا عوامی مزاج کے خلاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقتدار میں الٹ پھیر ہوتی رہتی ہے۔ کوئی جماعت 20 برس تک مسلسل الیکشن جیت کر بھی ہار جاتی ہے۔ ماضی میں ایسی کئی مثالیں ہمارے سامنے آتی رہی ہیں۔ جیسے ایمرجنسی کے بعد لوک نایک جئے پرکاش نارائن کی قیادت میں چلنے والی تحریک نے جنتا پارٹی کو کانگریس کے خلاف کامیابی سے ہم کنار کیا۔ این ٹی آر کی لہر اور صرف 9ماہ کی تلگو دیشم پارٹی نے آندھرا پردیش سے کانگریس کا صفایا کردیا جبکہ آندھرا پردیش کانگریس کا سب سے محفوظ قلعہ سمجھا جاتا تھا۔ این ٹی آر کو جب ان کے داماد چندرا بابو نائیڈو نے معزول کرکے خود تلگو دیشم کی عنانیت اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لی تو پھر 2004 میں تلگو دیشم کو بھی کانگریس سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ مغربی بنگال میں کانگریس پارٹی کے طویل اقتدار کو ممتا بنرجی کی ٹی یم سی نے ختم کیا۔ بہرحال! کجریوال کی عام آدمی پارٹی اقتدار سے محروم ہوئی تو کوئی حیرت تعجب یا افسوس کی بات نہیں ہے البتہ کجریوال اور عام آدمی پارٹی کی شکست کی وجوہات کا جائزہ ضرور لیا جارہا ہے۔ 25 برس پہلے سن 2000ء تک اروند کجریوال انکم ٹیکس آفیسر تھے پھر اچانک وہ RTI جہدکار بن گئے۔ اور انہوں نے انا ہزارے کے ساتھ مل کر رائٹ ٹو انفارمیشن بل کیلئے زبردست مہم چلائی۔ ان کی جدوجہد کرپشن سوسائٹی کیلئے انہیں میگا سے سے ایوارڈ دیا گیا۔ پھر انہوں نے عام آدمی پارٹی تشکیل دی جس نے عام آدمی کا دل جیتا۔ عام آدمی پارٹی کا انتخابی نسان جھاڑو رکھا گیا تاکہ ایک صاف ستھرا معاشرہ تشکیل دیا جاسکے۔ ہندوستان کی پہلی آئی پی ایس آفیسر کرن بیدی،دیہی ہندوستان کی ترقی کیلئے اپنی زندگی وقف کرنے والے پدم بھوشن کشن بابو راؤ عرف انا ہزارے، یوگندر یادو، سپریم کورٹ ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن، کمار وشواس، جیسے کئی سرکردہ شخصیات نے اروند کجریوال کو عوامی لیڈر بنانے میں بڑا اہم رول ادا کیا۔ کجریوال نے واقعی محنت کی۔ اپنی سادگی سے مثال قائم کی۔ احتجاجی پروگرامس کے دوران وہ دہلی کی ٹھٹھرا دینے والی سردی میں فٹ پاٹ پر بھی سوتے نظر آئے۔ اور عوام نے انہیں عام آدمی پارٹی تشکیل کے ایک سال کے اندر 2013 میں دہلی کا چیف منسٹر بنا دیا۔ اس وقت کانگریس اس کی حلیف تھی۔ مگر جب لوک جن پال بل کیلئے ان کی دستخطی مہم میں کانگریس نے حمایت نہیں کی تو چیف منسٹر بننے کے 49 دن بعد اپنے عہدے سے استعفی دے دیا۔ اور 2015 میں قطعی اکثریت یعنی 67 نشستوں کے ساتھ دوبارہ اقتدار حاصل کیا۔2020 ء کا الیکشن بھی انہوں نے اتنی ہی شان کے ساتھ جیتا مگر اس مرتبہ انہیں 62 سیٹیں ملیں تھیں۔ پہلے 5 سال کے دوران کجریوال نے جو وعدے کئے انہیں پورا کیا۔ سرکاری اسکولس، بہترین انفرااسٹرکچر قائم کئے اور بہت سارے وعدے پورے کئے۔ مگر دوسری میعاد میں کرپشن سے لڑنے والے خود کرپٹ سیاست داں کے طور پر مشہور ہوگئے۔ شراب اسکام میں مستعفی ہوئے پھر دہلی پولیس نے انہیں گرفتار کیا۔ آتشی کو انہوں نے چیف منسٹر بنایا جو کجریوال کے حمایت میں بیانات تو دیتی رہی مگر پارٹی کو مستحکم کرنے اور اس کی امیج کو بحال کرنے میں ناکام رہی۔
یہی وجہ ہے کہ وہ خود تو الیکشن جیت گئی اور کجریوال پرویش ورما سے 4000 ووٹوں کی کمی سے الیکشن ہار گئے۔ پہلی بار کجریوال جب سی یم بنے تھے تب انہوں نے اپنے ہی گھر میں رہنے کو ترجیح دی تھی تاہم دوسری میعاد میں اس گھر شیش محل میں تبدیل کردیا۔ CAG کے رپورٹ کے مطابق سی ایم کی سرکاری رہائش گاہ شیش محل پر 33 کروڑ روپئے خرچ کئے گئے۔ جبکہ بی جے پی کا الزام ہے کہ 80 کروڑ کی لاگت سے یہ سرکاری رہائش گاہ کی تعمیر نو کی گئی ہے۔ اس شیش محل میں 30 لاکھ کی لاگت کا 88 انچس کا OLED ٹی وی اور 44 لاکھ کی لاگت کے 10 OLED ٹی وی نصب ہیں۔ نریندر مودی نے اپنی تقاریر میں اروند کجریوال کو نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ کوویڈ میں دہلی کی عوام زندگی اور موت کی لڑائی لڑ رہے تھے اور کجریوال اپنا شیش محل تعمیر کروا رہے تھے۔ ایک ایسے وقت جبکہ الیکشن سر پر تھے۔ CAG کی رپورٹ کو عام کیا گیا کہ عام آدمی کجریوال کے بارے میں اپنی رائے بدلنے کو مجبور ہوگیا۔ ویسے بھی عام آدمی کے ساتھ فٹ پاٹ پر سونے والا کبھی اسکوٹر پر نظر آنے والا کجریوال اپنی دوسری میعاد میں کروڑوں روپیوں کی مالیت کی لگزری کاروں کا استعمال کرنے لگا تو ان کی امیج پوری طرح سے بدل چکی تھی۔ رہی سہی کسر شراب اسکام نے پوری کردی جب یہ انکشاف ہوا کہ کجریوال نے شراب کی فروخت کے لائسنس جاری کرنے کیلئے پرائیوٹ ٹھکیداروں سے رشوت لی جو سی بی آئی کی رپورٹ کے مطابق رشوت کی رقم 580 کروڑ ہے۔ کجریوال کے علاوہ انکے ڈپٹی چیف منسٹر منیش سسودیا اور 14 دیگر ملزمین کیخلاف ایکسائس پالیسی کے خلاف ورزی پر ایف آئی آر درج کی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ تلنگانہ کے سابق چیف منسٹر کے سی آر کی بیٹی کویتانے عام آدمی پارٹی کے سرکردہ قائدین کے شراب لائسنس کے لئے مبینہ طور پر 100 کروڑ کے رشوت دی تھی۔کجریوال وقت کے ساتھ ساتھ انا پرست بنتے گئے۔ ویسے پہلی بار اقتدار حاصل کرتے ہوئے وہ احسان فراموش ثابت ہوگئے تھے کیونکہ ہر اس ساتھی کو انہوں نے یا تو نظر انداز کیا یا پھر پارٹی سے نکلوا دیا جنہوں نے انہیں دہلی کا چیف منسٹر اور بی جے پی کا متبادل لیڈر بننے میں بھرپور مدد کی تھی۔ 2025 کے الیکشن میں کجریوال تو ہار گئے اور ان کی پارٹی 62 سے 22 نشستوں پر سکڑ گئی۔ ممتاز تجزیہ نگار رشید قدوائی جنہوں نے سونیا گاندھی پر کتاب لکھی تھی۔ انکے الفاظ میں کجریوا ل اور ان کی پارٹی کی شکست کی وجہ انتخابی وعدوں کی عدم تکمیل ہے۔ ویسے سبھی جانتے ہیں کہ چاہنے کے باوجود کجریوال یا ان کی پارٹی یہ وعدے پورے نہیں کر سکے کیونکہ اصل لگان اصل مرکز کے ہاتھ میں ہے۔ رشوت خوری، عیش و عشرت کی زندگی، دہلی کی فضائی آلودگی، عوامی مسائل کی عدم یکسوئی، آلودہ بلکہ زہریلاپینے کا پانی بھی شکست کی ایک اہم وجہ ثابت ہوا۔ جس کی وجہ سے جو مڈل کلاس ووٹر 12 سال کے دوران کجریوال یا عام آدمی پارٹی کے ساتھ تھا وہ بی جے پی کے طرف منتقل ہوگیا۔ علاقائی اور بلدی مسائل نے عام آدمی پارٹی کو عوام سے بدظن کیا اور میونسپل کارپوریشن آف دہلی کی ناقص کارکردگی کا اثر عام آدمی پارٹی کے نتائج پر ہوا۔ پرشانت بھوشن اور یوگیندر یادو جنہیں 2015 میں کجریوال نے پارٹی سے نکال دیا تھاعام آدمی پارٹی کی شکست پر تبصرہ کرتے ہوئے اس کے لئے خود کجریوال کو ذمہ دار قرار دیا۔ اور کہا کہ اس شکست سے ان لوگوں کو بھی صدمہ ہوا ہے جو بی جے پی متبادل کے طور پر کجریوال کو قومی قائد کے طور پر پیش کئے تھے۔ کجریوال نے 33 پالیسی رپورٹس کو برف دان میں رکھ دیا تھا۔ انا ہزارے نے بھی کہا کہ لالچ، حرص نے کجریوال کو شکست دی۔وہ دولت اور اقتدار کے نشہ میں اس قدر چور ہوگئے تھے کہ ان کی نصیحت اور مشوروں کو بھی انہوں نے نظر انداز کردیا تھا۔ کجریوال نے غلط راستہ منتخب کیا۔ شراب پر توجہ مرکوز کی اور عوامی مسائل سے ان کی توجہ ہٹ گئی۔ عام آدمی پارٹی کی شکست کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بی جے پی نے ہر وہ حربہ استعمال کیا جو وہ اپنے اپوزیشن کو خوفزدہ کرنے اور ان کے طاقت کو کمزور بنانے کیلئے استعمال کرتے رہی، انکم ٹیکس، انفورسمنٹ، ڈائریکٹوریٹ کا خوف طاری کیا۔ عام آدمی پارٹی اس کا مقابلہ کرنے اور بی جے پی الزامات کو غلط ثابت کرنے میں ناکام رہی۔ دہلی الیکشن میں 4 مسلم امیدوار کامیاب ضرور ہوئے مگر عام آدمی پارٹی کی شکست کی ایک وجہ مسلمانوں کی دوری ہے۔ کیونکہ اروند کجریوال نے 2022 ء جہانگیر پوری فسادات کے دوران جب مسلمانوں پر یک طرفہ حملے کئے جارہے تھے انکے مکانات اور کاروبار کو نشانہ بنایا جارہا تھا جب بلڈوزر چلائے جارہے تھے تو وہ خاموشی اختیار کئے ہوئے تھے۔ جب انہوں نے زبان کھولی بھی تو مسلمانوں کا نام لئے بغیر انہیں پتھر باز قرار دیا۔ ایک طرح سے انہوں نے ہندو اکثریت طبقہ میں خود کو ان کا مسیحا یا حامی ثابت کرنے کیلئے ان سے دوری اختیار کی۔ حتی کہ سی اے اے تحریک کے دوران کجریوال نے جامعہ کے طلبہ پر پولیس حملہ اور انکے خلاف کاروائی پر بھی خاموشی اختیار کی اور مسلمانوں نے ا کا بھرپور جواب دیا۔اگر کجریوال یا ان کی پارٹی طاہر حسین، شفاء الرحمن کیلئے آواز اٹھاتی تو شاید اویسی یا مجلس کو دہلی آکر الیکشن میں حصہ لینے کی ضرورت نہیں پڑتی۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔