تبلیغی جماعت میں انتشار کیوں؟
از:- عدیل اختر
18 دسمبر کو بنگلہ دیش میں تبلیغی جماعت کے دو دھڑوں کے درمیان ایک خوں ریز لڑائی میں چار یا پانچ لوگوں کے مارے جانے اور بڑی تعدادمیں زخمی ہونے کے افسوس ناک واقعے کے بعد تببلیغی جماعت ایک پھر سرخیوں میں ہے۔ نہ صرف میڈیا کی سرخیوں میں بلکہ عام لوگوں کے درمیان بھی موضوع گفتگو اور ہدف تنقید بنی ہوئی ہے۔
افسوس ناک واقعہ:
بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ کے قریب ٹونگی کا میدان تبلیغی جماعت کے "عالمی اجتماع” کے لئے مشہور ہے، مگر یہی میدان بدنصیبی سے خود تبلیغی جماعت کے ہی دو دھڑوں کے درمیان لڑائی کا میدان بن گیا ۔ 18 دسمبر کی رات میں تین بجے یہ دونوں دھڑے اس میدان میں برسر بیکار ہوئے جس کے نتیجے میں کم سے کم چار، اور بعض رپورٹوں کے مطابق 5 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، اور سو سے زیادہ لوگوں کے شدید یا معمولی طور سے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ اس جھگڑے میں تلواریں یا بندوقیں تو استعمال نہیں ہوئیں البتہ اینٹ پتھروں سے اور لاٹھی سریوں سے ایک دوسرے پر حملے کئے گئے۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں تبلیغی جماعت کے ایک بڑے حضرت مولانا زبیر ہیں جو ہندستان کے بڑے حضرت مولانا سعد کاندھلوی کے مخالف ہیں ۔ بنگلہ دیش کی تبلیغی جماعت ان دونوں کے درمیان بنٹی ہوئی ہے ۔ مولانا زبیر اور مولانا سعد کے عقیدت مندوں کے درمیان کشیدگی اور باہمی دشمنی کا سلسلہ کافی عرصے سے جاری ہے۔ جس کی تفصیل ابھی آگے آئے گی۔ یہ دونوں حریف گروپ میدان اجتماع پر اپنا اپنا قبضہ جمانے کے لئے ایک دوسرے سے نبرد آزما ہیں، جس کا حل نکالنے کے لئے حکومت اور انتظامیہ بھی لگی ہوئی ہے ۔ مولانا زبیر کے کے گروہ نے 17 دسمبر کی شام کو اس میدان میں اپنے خیمے گاڑے۔ مقصد تھا ” جور اجتماع” ( مراد ہے تبلیغی جماعت کی معروف اصطلاح "جوڑ”) کرنا۔ یہ اٹھارہ دسمبر کی صبح کو ہونا تھا ۔ دوسری طرف یہی "جور اجتماع” کرنے کے لئے مولانا سعد کے حامی اور حمایتی لوگ تین بجے رات میں میدان میں اپنے خیمے گاڑنے آئے۔ مولانا زبیر کے حامیوں کا الزام ہے کہ "سعدیانیوں” (مولانا سعد کے گروپ کو مخالف گروپ قادیانی کے وزن پر سعدیانی کہنے لگا ہے) نے ان کے اجتماع پر اور اجتماع میں آئے ہوئے لوگوں پر حملہ کیا ، جب کہ رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ مولانا زبیر کے حامیوں نے مولانا سعد کے عقیدت مند تبلیغیوں کو میدان میں داخل ہونے سے روکا جس کے بعد دونوں گروہ ایک دوسرے سے بھڑ گئے۔ رات کے اندھیرے میں جب یہ میدان کارزار گرم ہوا تو اس کی اطلاع پولس اور انتظامیہ کو ہوتے ہوتے کافی دیر لگ گئ ، اس دوران دونوں گروہ ایک دوسرے کو کافی نقصان پہنچا چکے تھے۔ فوری طور سے پولس اور نیم فوجی دستے طلب کئے گئے اور اس لڑائی پر قابو پانے کے بعد دونوں گروہوں کو میدان خالی کرنے کا حکم دیا گیا اور وہاں پر کسی بھی مقصد کے لئے جمع ہونے پر پابندی لگادی گئی ، کوئی بھی اجتماع ، جلسہ یا جلوس تاحکم ثانی ممنوع کردیا گیا ہے ۔ کئ لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے ۔
ڈھاکہ کے ٹونگی میں تبلیغی جماعت کا جو سالانہ اجتماع ہوتا ہے وہ نہ صرف تبلیغی جماعت کا سب سے بڑا اجتماع ہوتا ہے بلکہ کہا جاتا ہے کہ حج کے بعد مسلمانوں کا دوسرا کوئی دینی اجتماع اتنا بڑا نہیں ہوتا۔ اس اجتماع میں عام سے طور بنگال کے مسلمانوں کا جم غفیر ہی جمع ہوتا ہے جو اپنی جذباتی کیفیت کے لئے مشہور ہیں، لیکن دنیا بھر میں گھومنے والی جماعتیں بھی اپنے طے شدہ پروگراموں کے مطابق اس طرح کے بڑے اجتماعات میں جاکر ٹہرتی ہیں، اس لحاظ سے بنگلہ دیش کا یہ اجتماع بھی ایک عالمی یا بین الاقوامی اجتماع بن جاتا ہے۔
یہ مشہور اجتماع کافی عرصے سے دو مرحلوں میں ہوتا آرہا ہے جن کے درمیان تقریباً ایک ہفتے کا وقفہ ہوتا ہے ۔ یہ اہتمام شرکاء کی تعداد کو میدان کی وسعت کے مطابق رکھنے کے لئے انتظامی سہولیات کے مقصد سے کیا گیا تھا اور دو الگ الگ علاقوں میں بانٹ دیا گیا تھا ۔ پہلے ایک علاقے کے لوگ آتے ہیں، بعد میں دوسرے علاقے کے لوگ ۔ لیکن جب سے تبلیغی جماعت دو پھاڑ ہوئی ہے تو یہاں کا اجتماع دو گروہوں میں بنٹ گیا ہے ، اور انتظامیہ کو اب دو کے بجائے چار اجتماع کے لئے انتظامی فرائض انجام دینے ہوتے ہیں ۔ کورونا کی وبا اور گزشتہ عام انتخابات کی وجہ سے یہ سلسلہ معطل رہا اور اب چار سال بعد اس ڈبل اجتماع کے دو دو سیشن آئندہ مہینے میں منعقد ہونا تھے۔ لیکن ایک گروہ یعنی بنگلہ دیش کے مولانا زبیر کا گروہ ہندستان کے مولانا سعد کاندھلوی کے گروہ کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہے اور اس پر پابندی کا مطالبہ کرتا آرہا ہے ۔ ان دونوں گروہوں کے درمیان ایک پرتشدد لڑائی 2018 میں بھی ہوئی تھی اس میں بھی دو افراد کی ہلاکت بتائی جاتی ہے ، اور مولانا زبیر کے حامیوں کا الزام ہے کہ شیخ حسینہ واجد کی سابقہ حکومت نے اس کے قصوروار مولانا سعد کے حامیوں کا بچاؤ کیا اور ان کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کی۔ ان کے بقول، اسی سے شہ پاکر "سعدیانی” بنگلہ دیش میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور اختلاف و فساد کو بڑھا رہے ہیں ۔ لیکن ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مولانا زبیر کے حامیوں نے مولانا سعد کے حامیوں کی بنائی ہوئی ایک نئی مسجد (ککریل مسجد)اور مرکز پر زبردستی قبضہ کیا اور مولانا سعد کے حامیوں کو وہاں سے نکال باہر کیا ۔ جس کے بعد مولانا سعد کے حامیوں نے جوابی کاروائی کی اور دونوں گروہوں میں ٹکراؤ ہوا ، آخر کار انتظامیہ کی مداخلت سے دونوں کو اپنے اپنے اجتماع وہاں کرنے کی اجازت ملی۔
ٹونگی کے سالانہ اجتماع کے لئے انتظامیہ نے دونوں فریقوں کے لئے الگ الگ تاریخیں مقرر کی تھیں۔ 31 جنوری سے 2 فروری تک مولانا زبیر کے گروہ ("شورائی نظام”)کا ” عالمی اجتماع” ہونا تھا اور 7 سے 10 فروری تک مولانا سعد گروہ ("نظام امیر”)کا ” عالمی اجتماع” ہونا تھا ۔ لیکن مولانا زبیر گروہ کی طرف سے نئی عبوری حکومت پر برابر دباؤ بنایا جاتا رہا ہےکہ "سعدیانیوں” پر بنگلہ دیش میں پابندی لگائی جائے اور انہیں کوئی اجتماع منعقد کرنے کی اجازت نہ دی جائے ۔ اس کے لئے حکومت کو عوامی مظاہروں اور بند و احتجاج کی دھمکیاں بھی دی جا رہی تھیں۔ان ہی ساری ہنگامہ آرائیوں کے دوران مولانا زبیر کے عقیدت مندوں نے ٹونگی میں ” جور اجتماع” کا فیصلہ کیا اور اس کی بھنک ملنے پر دوسرے فریق نے بھی اپنا "جور” کرنے کے لئے زور آزمائی کی، جس کے نتیجے میں یہ خوں ریز جھڑپ ہوئی جو تبلیغی جماعت کی مزید بدنامی اور عام مسلمانوں کے لئے صدمہ و سبکی کا باعث بنی ہے۔
بدنامی اور سبکی:
تبلیغی جماعت جسے دین کے لئے مخلص لوگوں کی مخلصانہ سرگرمیوں والی ایک بے ضرر اور دنیا داری سے بے نیاز جماعت سمجھا جاتا رہا ہے، اپنے اکابرین کی دنیا دارانہ حرص اقتدار اور خود غرضیوں و مفاد پرستی کی وجہ سےتقریباً گزشتہ ایک دہائی سے خلفشار اور باہمی تصادم کی برائی میں مبتلا ہے۔
سابق امیر جماعت مولانا انعام الحسن عرف حضرت جی کے انتقال کے بعد ان کی جانشینی اور جماعت کی امارت کے منصب کے لئے جماعت کے اکابرین کے درمیان (مخصوص طور سے بانی جماعت مولانا الیاس صاحب اور مصنف تبلیغی نصاب مولانا ذکریا صاحب کے خاندانوں کے درمیان)زبردست کھینچ تان شروع ہوئی تھی جس کے نتیجے میں جماعت تبلیغ دو گروہوں میں تقسیم ہو گئی ۔ یہ دونوں گروہ اب ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کے لئے باہم دست وگریباں رہتے ہیں ۔ اور اس لڑائی میں نہ صرف دین و شریعت کے احکامات کی پامالی ہوتی ہے بلکہ خود اس جماعت کے اپنے ایک اصول ” اکرام مسلم” کو دونوں گروہوں کے اکابرین اور ان کے حواری بھول جاتے ہیں ۔ جماعت میں جب یہ پھوٹ پڑی تھی تو خود جماعت کے عالمی اور تاسیسی مرکز مسجد بنگلہ والی یعنی "مرکز نظام الدین ، دہلی” میں دونوں گروہوں کے اکابرین ایک دوسرے سے لڑے تھے اور دھکا مکی و تو تو میں میں ہوئی تھی۔ اس کے بعد پوری دنیا میں جہاں جہاں بھی تبلیغی جماعت کے مراکز اور کارکنان ہیں وہ دو خیموں میں بنٹ گئے۔ ان دونوں کے درمیان ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کے لئے گاہے بگاہے کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ ہوتا ہی رہتا ہے۔ جس کی خبریں عام طور سے تو دبی ہی رہتی ہیں اور کبھی کبھی منظرعام پر بھی آتی ہیں۔
نیک کام کرنے والی اس جماعت میں باہمی اختلاف اور فساد کی یہ برائی اس طرح پروان چڑھی کہ مولانا انعام الحسن صاحب نے ،جو کہ تبلیغی جماعت کے تیسرے امیر اور مولانا ذکریا صاحب کے داماد تھے، اپنی حیات میں ہی اپنے جا نشیں کے انتخاب کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی ۔ یہ ایک مناسب طریقہ تھا اور اس طریقے کی نقل تھا جو خلیفہ سوم حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی جانشینی کے لئے اختیار کیا تھا ۔ لیکن حضرت عمر کی مقرر کردہ کمیٹی نے جتنی ذمہ داری کے ساتھ اپنے مفوضہ فریضے کو انجام دیا تھا اور بروقت اتفاق راۓ سے امیر منتخب کر لیا تھا ، اتنی ذمہ داری کے ساتھ یہ کمیٹی اپنے فریضے کو انجام دینے کی اہل ثابت نہ ہوئی ۔ ان کی نااہلی اس حد تک ثابت ہوئی کہ یہ حضرات امیر کا انتخاب ہی نہیں کر سکے اور اجتماعی طور پر خود ہی جماعت کے قائدین بن گئے۔ پھر ان لوگوں کے مابین اتفاق راۓ اور مخلصانہ شورائیت کا غالباً فقدان تھا، اور یہ صرف عقیدت کا ایک نظام تھا جو ان بڑوں کے نام پر چلتا رہا ۔ یہاں تک کہ کمیٹی کے بیشتر ارکان ایک ایک کرکے دنیا سے جاتے رہے جن میں مولانا انعام الحسن کے بیٹے مولانا زبیر الحسن بھی شامل تھے جن کو کمیٹی کے کچھ لوگ امارت کا مستحق سمجھتے تھے۔ ان کے انتقال کے بعد مولانا سعد کاندھلوی نے جو بانی جماعت مولانا الیاس صاحب رحمۃاللہ علیہ کے پوتے ہیں ، اپنی امارت کا اعلان کردیا، لیکن جو لوگ مولانا زبیر کے حمایتی تھے انھوں وہ اس مؤقف پر ڈٹے کہ امیر کے انتخاب کے لئے شوریٰ تشکیل دی جائے ۔ ان اکابرین تبلیغ کے درمیان یہ کشمکش آخر کار جماعت کی تقسیم پر منتج ہوئی ۔ ایک گروہ جو مولانا سعد کا طرف دار ہوا وہ امارت والا گروہ کہلایا اور دوسرا گروہ شوریٰ والا گروہ قرار پایا۔
مولانا سعد جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ میوات کے لوگوں کی ،جو تبلیغی جماعت کا روایتی ورثہ ہیں، اکثریت عقیدت کے بندھن میں کس کر بندھی ہوئی ہے مرکز نظام الدین پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے میں کامیاب رہے اور شوریٰ والے گروہ نے دہلی میں ایک دوسرے مقام پر اپنا مرکز بنا لیا۔ مولانا زبیر الحسن کے انتقال کےبعد سے اس گروہ کے اعلیٰ ترین قائدین پاکستان اور بنگلہ دیش کے اکابرین تبلیغ ہیں جنہیں فرانس اور کچھ دوسرے ممالک کے تبلیغی کارکنوں کی بھی تائید حاصل ہے۔اب ان دونوں گروہوں میں مسابقت اور رقابت کی ریت چل رہی ہے، اسی کا یہ شاخسانہ ہےجو بنگلہ دیش میں رو نما ہوا ہے۔
تبصرہ:
تبلیغی جماعت کی اس چھیچھا لیدر میں کسی بھی گروہ کو برحق ہونے کی سند دینا مشکل ہے ۔ کیوں کہ یہاں کوئی نظریاتی ، فکری یا اصولی اختلاف سامنے نہیں ہے ۔ یہاں اختیار اور استحقاق کی دعوے داری ہے جسے ایک عام لفظ میں اقتدار کی ہوس اور لڑائی کہہ سکتے ہیں ۔ اور یہ چیز دین میں محبوب نہیں بلکہ مردود ہے کیوں کہ یہ جذبہ ہمیشہ فساد پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے ۔ یہ اسلام کی اقدار کے خلاف ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے تم اس شخص کو منصب نہ دو جو خود منصب کا طلب گار ہو۔ آپ نے تو یہاں تک فرمایا کہ جب تمھارا کوئی ایک امیر ہو، اور پھر کوئی دوسرا شخص امارت کا دعوے دار بن کر کھڑا ہو تو اسے قتل کردو۔ اسلام کے نظام اقدار میں اجتماعی ذمہ داریوں کے منصب فخر کرنے اور جاہ و حشمت محسوس کرنے کی چیز نہیں ہوتے بلکہ ایسی ذمہ داری اٹھانے کا کام ہیں جس کی جواب دہی بہت سخت ہے ۔ اس لئے منصب طلبی سے منع کیا گیا ہے اور جواب دہی سے ڈرنے کی تاکید کی گئی ہے ، یہی وجہ ہے کہ اہل تقویٰ منصب قبول کرنے سے بچتے ہیں اور اسے اپنے لئے ایک گرفتاری سمجھتے ہیں جس سے وہ فرار اختیار کرتے ہیں ، البتہ جب لوگ انہیں خود ذمہ داری دے دیں تو وہ اسے ایک عبادت کی طرح انجام دیتے ہیں۔ اسلامی تاریخ اس طرح کی مثالوں سے بھری ہوئی ہے اور آج بھی یہ مثالیں موجود ہیں اور خود تبلیغی جماعت کے اندر ایسے اہل تقویٰ لوگ موجود رہے ہیں ۔ تبلیغی جماعت کے اولین بزرگوں نے جماعت کی تشکیل اور سمع و طاعت کا جو نظام بنایا تھا اس میں اس طرح کی تربیت موجود تھی اور جس کا سلسلہ ابھی تک بھی تبلیغی جماعت کے ذیلی نظام میں چلا آرہا ہے ۔ لیکن بگاڑ عام طور سے اوپر سے نیچے کی طرف آتا ہے اس لئے اوپر کی سطح پرجو خرابی آئی ہے وہ یقینا نیچے تک بھی پہنچ رہی ہے ۔
البتہ مخالف گروپ سے لڑنا اور ایک دوسرے کے دینی، ملی اور انسانی حقوق کی بھی رعایت نہ کرنے کی جو شدت پسندی اب سب پر عیاں ہے اس کی وجوہات تبلیغی جماعت کے تربیتی نظام کی خامی میں دیکھی جاسکتی ہیں ۔ تبلیغی جماعت کے افراد جس طرح آج آپس میں ایک دوسرے کے لئے خطرناک اور عضب ناک بن رہے ہیں اسی طرح تبلیغی جماعت کے علاوہ دوسری اسلامی جماعتوں کے لئے شدت کے ساتھ نقصان دہ پہلے سے ہی بنتے رہے ہیں ۔تبلیغی جماعت کے بارے میں یہ ایک عام اور مستقل شکایت ہے کہ جن مسجدوں میں ان کا معمول یا اختیار چلتا ہے وہاں یہ کسی دوسری جماعت کو کوئی اجتماع نہیں کرنے دیتے ہیں ۔ درس قرآن یا درس حدیث اور دینیات وغیرہ کی تعلیم سے دل چسپی رکھنے والے دیگر حلقوں کی یہ کھلی مخالفت کرتے ہیں اور اس مخالفت کی شدت بعض اوقات تشدد اور مار پٹائی تک پہنچتی ہے ۔ خود دہلی میں ہی اس طرح کی شکایتیں عام ہیں کہ تبلیغی جماعت سے مختلف انداز کا دینی کام کرنے والوں کو تبلیغی جماعت کے کارکن اپنے اختیار والی مسجدوں میں اجتماع نہیں کرنے دیتے ۔ جماعت اسلامی یا اس جیسی فکر رکھنے والوں کو خاص طور سے نشانہ بنایا جاتا ہے اور انکے تعلق سے عوام کو بدظن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مسجدوں پر اپنا اختیار حاصل کرنے کی منصوبہ بند کوششیں اور اس کے لئے زور زبردستی اور شہ زوروں کی مدد لینا بھی اس جماعت کے کارکنوں میں رائج ہے۔ دہلی کے شاہین باغ میں شاہین مسجد کا تنازعہ اس حوالے سے مشہور ہے۔
یہ تبلیغی جماعت کے تربیتی نظام کی ہی خامی ہے کہ جماعت سے وابستہ ہونے والے افراد کی علمیت میں اضافے اور دین کا فہم پیدا کرنے کا کوئی نظام نہیں ہے ۔ تبلیغی نصاب یا فضائل اعمال کے نام سے مولانا ذکریا صاحب کی مرتب کردہ ایک کتاب پر ہی تبلیغی جماعت کے عام افراد کا فہم دین منحصر ہے حالانکہ اس کتاب کا ایک خاصا حصہ غیر مستند روایتوں پر مشتمل ہے، اور بعض فرضی قصے بھی اس میں بیان ہوئے ہیں ،جس کی وجہ سے اہل علم میں یہ کتاب مقبول نہیں ہے اور متعدد عالموں نے اس پر سخت تنقیدی تبصرے کئے ہیں ۔ جماعت سے وابستہ ہونے والے کارکنوں میں یہ سوچ پیدا ہوتی ہے کہ جماعت تبلیغ اللہ کی واحد منتخب کردہ جماعت ہے جس پر خاص فضل الہٰی ہےاور اس کی ضروریات مادی وسائل سے پوری نہیں ہوتی ہیں بلکہ غیب سے ان کا انتظام ہوتا ہے ۔ اسباب کی اہمیت کچھ نہیں ہے بلکہ اللہ پر توکل اور اللہ سے دعا ہی کافی ہے ، حالانکہ زندگی کے معاملات اور ضروریات میں یہ لوگ اسباب کو اختیار کرتے ہیں اور ان اسباب کو حاصل کرنے کی کوششیں بعض اوقات نامناسب یا ناجائز راستوں سے بھی کر لیتے ہیں ۔تاہم غلو آمیز باتیں جماعت کے عام افراد کا عقیدہ بن جاتی ہیں ۔ جماعت کی سرگرمیوں اور کاموں کا جو نصاب ہے، یعنی کتاب (فضائل اعمال) کی تعلیم ، گشت، اجتماع ، جماعت میں جانے کا سہ روزہ ، دس روز، چالیس روزہ یا چار مہینے کا نظام وغیرہ اسے تبلیغی کارکن عام طور سے دین کا ایک نظام سمجھتے ہیں اور کسی مسلمان سے یہ تبھی پوری طرح مطمئن ہوتے ہیں جب وہ اس نظام کو اپنا لیتا ہے یعنی ان کے خیال میں جو مسلمان جماعت میں نہیں جاتا اس کا ایمان یا اسلام ابھی ان جیسا نہیں ہے ۔ اس طرح تبلیغی جماعت خود اپنے دائرے میں اور اپنی جماعت کے پابند رہنے والے مسلمانوں کا ایک ایسا فرقہ بن کر رہ گئی ہے جسے جماعتی سرگرمی کے علاوہ دیگر تمام دینی اور سماجی سرگرمیاں لا یعنی لگتی ہیں اور ملت و امت کے مسائل یا زندگی کے معاملات سے جسے کوئی دل چسپی نہیں ہوتی بلکہ وہ اسے اپنے جماعتی کاموں کے برخلاف سمجھتے ہیں۔
جماعت تبلیغ سے عملی یا عقیدت کا گہرا تعلق رکھنے والوں کے اندر دو اور خامیاں بہت واضح طور سے نظر آتی ہیں ۔ ایک تو ہے جماعت تبلیغ سے تعلق نہ رکھنے والے دین داروں کے تئیں تعصب اور تنگ نظری ، اور دوسری خامی ہے دین کے مجموعی تصور سے نابلد ہونا اور دین کو جامع طریقے سے اپنانے میں کوتاہ ہونا۔ بر صغیر کے تینوں ممالک میں ایسے کتنے ہی علاقے، شہر یا گاؤں ہیں جنہیں تبلیغی جماعت کے گڑھ کہا جاسکتا ہے اور جہاں کے لوگ اجتماعی طور سے تبلیغی جماعت کے شیدائی ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ بستیاں اخلاقی خرابیوں یا معاملات میں بدعنوانی کے لئے مشہور ہیں۔ کوئی بستی سود خوروں یا کاروبار میں دھوکہ دھڑی کے لئے بدنام ہے مگر ساتھ ہی تبلیغی جماعت کی ایسی شیدائی ہے کہ اس کے لئے سب کچھ لٹانے کو تیار۔ کوئی بستی ایسی ہو سکتی ہے کہ تبلیغی جماعت کے گڑھ کے طور پر مشہور ہو لیکن ساتھ ہی کسی جاہلانہ طرز زندگی، کسی مالی بدعنوانی یاکسی اخلاقی خرابی کے لئے بھی بدنام ہو۔
یہ تبلیغی جماعت کے وہ منفی پہلو ہیں جن کی اصلاح کے بغیر تبلیغی جماعت دین یاامت کے لئے مجموعی طور سے مفید نہیں بن سکتی ، لیکن دوسری طرف اس کے وہ مثبت پہلو ہیں جو اسے دین و ملت کے لئے اہم بناتے ہیں اور جن کی نہ تو نفی کی جاسکتی ہے اور نہ جن میں اس کی برابری کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے ۔ یہ ہیں: اس کا نظم و ضبط، اس کے کارکنوں کی مستقل مزاجی ؛ سمع و طاعت ؛ وقت، جسمانی محنت اور مالی ایثار ؛ یکجہتی اور اتحاد؛ اور ہمہ وقت سرگرم رہنا، نیز سادہ اور متاثر کن طرز تبلیغ۔جس کی بدولت یہ عوام و خواص میں وسیع تر رسائی اور گہری جڑیں رکھتی ہے اور دین سے نابلد عام لوگوں کو ایمان ، بنیادی عقائد اور عبادات کی تعلیم دینے اور نری جہالت سے نکالنے میں کامیاب ہے اور بہت بڑے پیمانے پر یہ خدمت انجام دے رہی ہے ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا بھر کے بڑے علماء کرام اس جماعت کو انتشار سے بچانے کے لئے، اور دین کے جامع تصور کے مطابق بنانے کے لئے اجتماعی طور سے پہل کریں اور اس کے نصاب تبلیغ و نصاب تربیت میں مطلوبہ اصلاحات کے لئے کوشش کریں۔ اس جماعت کے بانی مولانا الیاس صاحب کے "ملفوظات” میں لان کا یہ قول لکھا ہے کہ یہ کام جو ہم نے شروع کیا ہے یہ ایک ابتداء ہے، ہمارا مقصد صرف کلمہ سکھانا نہیں ہے بلکہ کلمہ والی زندگی بنانا ہے۔