مسلم پرسنل لا خطرات کے گھیرے میں

مسلم پرسنل لا خطرات کے گھیرے میں۔

اس کے تحفظ کے لئے ملی تنظیموں کی جانب سے بروقت مشترکہ لائحہ عمل کا اعلان قابل ستائش

از:- مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی

اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات اور مکلف بناکر پیدا کیا ہے ، اس لئے انسانی زندگی کئی حصے میں منقسم ہیں ، اس کا ایک حصہ انفرادی اور شخصی ہے ، اس کا تعلق انسان کی انفرادیت اور اس کی انفرادی زندگی سے ہے ، اس میں اس کے ذاتی معاملات اتے ہیں اس لئے اس کو شخصی یا انفرادی زندگی سے موسوم کیا جاتا ہے ، انسانی زندگی کا دوسرا حصہ خاندانی زندگی ہے ، جس میں اس کا تعلق سماج اور خاندان سے ہوتا ہے ، اس لئے اس میں خاندان کے باہمی معاملات اور حقوق و فرائض آتے ہیں ، جیسے ماں باپ کے حقوق و فرائض ، نفقہ اور حق پرورش ، ازدواجی زندگی اور اس سے متعلق معاملات ، اس زندگی کو خاندانی زندگی سے تعبیر کیا جاتا ہے ، انسانی زندگی کا تیسرا حصہ شہری اور اجتماعی زندگی ہے ، جس کا تعلق شہر، ملک اور بین الاقوامی امور سے ہوتا ہے ، اس کا دائرہ خاندان کے مقابلہ میں بہت وسیع ہو جاتا ہے ، اس کو اجتماعی اور شہری زندگی کا نام دیا جاتا ہے۔

اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے ، اس لیے اس کا نظام بھی عالمی ہے اور اس کے احکام بھی عالمگیر سطح کے ہیں ، چونکہ اسلام کا عالمگیر نظام ہر ملک اور ہر خطہ کے لیے ہے ، نیز زندگی کے ہر گوشہ پر محیط ہے ، یہی وجہ ہے کہ اس کا دائرہ بہت وسیع ہے ، اور چونکہ اس کا تعلق اجتماعیت سے ہوتا ہے ، اس لئے اسے اجتماعی زندگی سے موسوم کیا جاتا ہے ،
مسلم سماج کی زندگی کا جو بھی حصہ ہو ، خواہ شخصی زندگی ہو یا خاندانی ، شہری زندگی ہو یا اجتماعی ، ان سب کے اصول قران کریم ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث ، اقوال صحابہ و تابعین سے مستنبط ہیں ، اور اسی کے مطابق عمل میں آتے ہیں اور آتے ریے ہیں۔

مذہب اسلام سے ہندوستان کا تعلق بہت گہرا ہے ، روایت کے مطابق سب سے پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے جنت سے دنیا میں بھیجا ، دنیا کا وہ خطہ جہاں حضرت آدم علیہ السلام جنت سے زمین پر اترے وہ سر زمین ہندوستان ہے ، حضرت آدم علیہ السلام اللہ کے رسول تھے اور وہ مذہب اسلام کے مبلغ تھے ، ہندوستان کا مذہب اسلام سے تعلق اسی زمانہ سے قائم ہے ، پھر آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے ، تو مسلمانوں نے اس ملک کو پھر سے اپنا وطن بنایا ، یہاں کے پرانے بسنے والے لوگ مذہب اسلام کی حقانیت ، مساوات اور عدل و انصاف پر مبنی احکام کو دیکھ کر بہت متاثر ہوئے ، اور انہیں اس ملک میں بسایا اور ان سے پیار و محبت کا معاملہ کیا ، اس طرح سبھی باہم شیر و شکر ہوگئے ، اور نہایت ہی آزادی سے زندگی گزارتے رہے ، اس طرح جب سے ہندوستان میں مسلمانوں کی امد ہوئی ، اس وقت سے انگریزوں کے تسلط سے پہلے تک یہاں ہر طرح کی مذہبی ازادی حاصل رہی اور مسلمانوں کے ساتھ یہاں کے بسنے والے تمام مذاہب کے ماننے والے اپنے اپنے مذہب کے اصول و ضوابط کے مطابق زندگی گزارتے رہے ، مگر جب ہندوستان پر انگریزوں کا تسلط ہو گیا ، تو انہوں نے حکومت چلانے کے لیے اپنا قانون نافذ کیا ، اور دو طرح کے قوانین بنائے ، ایسے معاملات جن کا تعلق کرائم سے تھا ،اس کے لئے کرمنل لا بنایا ، جبکہ کچھ مذہبی امور جن کا تعلق عدالت سے تھا ، ان کو الگ کر کے اس کا نام پرسنل لا رکھا ، اس طرح تمام مذاہب کے ماننے والوں کے لئے جرائم سے متعلق قوانین کرمنل لا کے نام سے موسوم ہوئے ،اور مذہبی امور والے معاملات کو پرسنل لا سے تعبیر کیا گیا ، اس طرح ہر مذاہب کے پرسنل لا الگ الگ ہوگئے۔

مسلمانوں کے پرسنل کو مسلم پرسنل لا کا نام دیا گیا ، جس میں عائلی قوانین اتے ہیں ، جیسے وراثت ، نکاح ، طلاق خلع ، فسخ ، اوقاف و غیرہ ، گویا مسلم پرسنل لا کی اصطلاح انگریزوں کا دیا ہوا ہے ، جو انفرادی اور خاندانی زندگی سے متعلق اسلامی قوانین کا حصہ ہے ، یہی اب تک چلا رہا ہے۔

15/ اگست 1947 کو ہمارا ملک انگریزوں کے تسلط سے آزاد ہوا، آزادی کے بعد ملک میں جمہوری نظام کے قیام کے لئے آئین بنایا گیا ، 26/ جنوری 1950 کو ملک میں آئین کا نفاذ عمل میں آیا ، آئین کے مطابق ہمارا ملک ایک جمہوری ملک ہے ، جہان آئین کی حکومت ہے اور آئین کو بالا دستی حاصل ہے ، ملک کا آئین ہر مذہب کے ماننے والے کو مذہبی آزادی کے حقوق عطا کرتا ہے ، ملک کے آئین کی روشنی میں مسلمانوں کو بھی مسلم پرسنل لا کے مطابق زندگی گزارنے کی ازادی فراہم ہے ،
ملک کے آئین میں اقلیتی طبقات کو کچھ حقوقِ دیئے گئے ہیں ، ان کا ذکر ملک کے آئین کے بنیادی حقوقِ میں کیا گیا ہے ، اس بنیادی حقوق میں تبدیلی کا اختیار کسی کو نہیں ہے ، اسی بنیادی حقوق میں مذہبی ازادی کا حق بھی ہے ، اسی حق کی روشنی میں ملک کے تمام بسنے والے اپنے اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارتے آرہے ہیں ، اسی کے مطابق مسلم اقلیت کے لوگ بھی اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارتے آرہے ہیں۔

موجودہ وقت میں بھی ملک میں دو قسم کے قوانین نافذ ہیں ، ایک کو کرمنل کوڈ اور دوسرے کو سول کوڈ کہا جاتا ہے ، کرمنل کوڈ میں کرائم سے متعلق معاملات اتے ہیں ، اس کے مطابق جرائم پر سزائیں دی جاتی ہیں ، جہانتک سول کوڈ کی بات ہے تو اس کا دائرہ وسیع ہے ، اس کے تحت وہ تمام قوانین آتے ہیں ، جن کا تعلق معاشرتی ، تمدنی امور سے ہے ، سول کوڈ ہی کا ایک حصہ پرسنل لا کہلاتا ہے ، ملک کی بعض اقلیتوں کو ان کے مذہب کے لحاظ سے کچھ خصوصی شعبوں میں الگ قوانین پر عمل کرنے کا اختیار دیا گیا ہے ، مسلمانوں کو بھی یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ نکاح ، طلاق ، خلع ، فسخ نکاح ، عدت ، نفقہ ، رضاعت ، وصیت ،ہبہ ، ولایت ، وقف وغیرہ میں اپنے مذہب کے مطابق عمل کریں ، اگر ان سے متعلق مقدمات سرکاری عدالتوں میں جائیں ، اور دونوں فریق مسلمان ہوں ، تو سرکاری عدالتیں اسلامی شریعت کے مطابق ہی فیصلہ کریں ، ان قوانین کے مجموعہ کو مسلم پرسنل لا کہا جاتا ہے ، غرض مسلم پرسنل لا مذہب اسلام کا حصہ ہے ، اس میں کسی قسم کی تبدیلی مسلم پرسنل لا میں مداخلت ہے۔

موجودہ وقت میں مرکزی حکومت اور بعض صوبائی حکومت کی جانب سے ایسے قوانین نافذ کئے جارہے ہیں ، جو مسلم پرسنل لا اور ملک کے آئین کے خلاف ہیں ، جس کی وجہ سے مسلم سماج کے لوگ دقت محسوس کر رہے ہیں ، یہ نہایت ہی افسوس کی بات ہے ، جیسے یکساں سول کوڈ اور اوقاف ترمیمی بل کا نفاذ ، یکساں سول کوڈ کی وجہ سے اسلامی شریعت کے بہت سے قوانین اس کی زد میں آئیں گے ، جن کا تعلق شادی بیاہ ، نکاح ، طلاق ، نفقہ ، وراثت وغیرہ سے ہے ، جبکہ اوقاف ترمیمی بل سے بہت سے اوقاف کے شرعی قوانین متاثر ہوں گے ، ان دونوں کے خلاف مسلم سماج کی جانب سے سخت احتجاج کئے گئے ،اس کے نقصانات پر مشتمل میمورنڈم دیئے گئے ، مگر اتراکھنڈ میں یکساں سول کوڈ نافذ کردیا گیا ، جبکہ وقف ترمیمی بل بھی جے پی سی میں منظور ہوگیا ہے ، ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ پارلیمنٹ کے آئندہ سیشن میں منظور ہو جائے گا ، جبکہ یہ دونوں مسلم پرسنل لا اور ملک کے آئین کے خلاف ہیں۔

موجودہ وقت مسلم سماج بالخصوص ملی تنظیموں کے لئے بڑی آزمائش کا وقت ہے ، یقینا مسلم سماج اور ملی تنظیموں کا ملک و ملت کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار رہا ہے اور آج بھی ہے ، ایسے وقت میں جبکہ دین وشریعت کے قوانین اور ملک کا آئین خطرات کے گھیرے میں ہیں ، ہم سبھی کی ذمہ داری ہے کہ مسلم پرسنل لا اور ملک کے آئین کے تحفظ کو یقینی بنائیں ، اس لئے موجودہ وقت میں ملی تنظیموں کی جانب سے مشترکہ لائحہ عمل کا اعلان قابل ستائش ہے ، دعاء ہے کہ اللہ تعالیٰ کوششوں کو کامیاب کرے۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔