Slide
Slide
Slide

مسلم دشمنی میں سلگتا اتر کاشی

مسلم دشمنی میں سلگتا اتر کاشی

غلام مصطفےٰ نعیمی۔ دہلی

دلی سے تقریباً 375 کلومیٹر دور ہمالیہ کی پہاڑیوں میں اتراکھنڈ کا ایک خوب صورت اور ٹھنڈا رہنے والا ضلع اُتّر کَاشی (uttar kashi)  ان دنوں مسلم دشمنی کی آگ میں سلگ رہا ہے۔چھبیس مئی 2023 کو اسی ضلع کے سب ڈویژن پُرولہ(Purola) میں ایک مقامی ہندو لڑکی دو لڑکوں کے ساتھ دیکھی گئی،شک ہونے پر لوگوں نے ان کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کردیا۔ان میں ایک لڑکا جتیندر سینی تھا اور دوسرے لڑکے کا نام محمد عبید تھا۔

اہل خانہ کے مطابق لڑکی قانوناً نابالغ تھی اس لیے پولیس نے دونوں لڑکوں پر نابالغ لڑکی کے اغوا کا کیس لگا کر جیل بھیج دیا۔یہ واقعہ 26 مئی کو پیش آیا اور 27 مئی تک لڑکے جیل اور لڑکی اپنے اہل خانہ کے پاس پہنچا دی گئی۔دو دن کے بعد اچانک ہی کچھ ہندو تنظیموں نے اس واقعے کو لو جہاد(Love Jihad) قرار دے کر پرولہ میں آباد مسلمانوں کے خلاف ہنگامہ آرائی شروع کردی۔

ابتدا میں عام لوگوں نے بھی یہی سمجھا کہ یہ معاشقے ہی کا معاملہ ہوگا۔مخلوط ماحول کی وجہ سے آئے دن اس قسم کی خبریں آتی رہتی ہیں۔حالانکہ ایسے معاملات میں سازش کا سرا دور دور تک نہیں ہوتا یہ بس انفرادی اور اتفاقی معاملات ہوتے ہیں۔مذہب یا مذہبی تعلیم سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا، لیکن ہندو تنظیمیں ایسے معاملات میں بھی مسلم اینگل تلاش کرتی پھرتی ہیں، نہیں ملتا تو زبردستی بنا لیتی ہیں، چوں کہ اس معاملے میں دو لڑکے گرفتار ہوئے تھے جن میں ایک ہندو اور ایک مسلم تھا۔بس شر پسندوں کے لیے اتنا ہی کافی تھا۔حالانکہ ابھی تک یہ بات صاف نہیں تھی کہ معاشقہ کس لڑکے کا تھا؟

جَن جوار(janjwar) ویب پورٹل کے صحافی تِرلوچَن بھٹ کے مطابق یہ معاملہ ہندو لڑکے جتیندر سینی کے معاشقہ کا تھا۔جتیندر اور عبید دونوں کا تعلق یوپی کے بجنور ضلع سے ہے، دونوں پرولہ ہی میں کام کرتے ہیں اور دونوں کی دکانیں بھی آمنے سامنے ہیں۔دوستی کی بنا پر عبید جتیندر کے ساتھ تھا۔لیکن شدت پسندوں نے جتیندر کے بجائے مسلم لڑکے کے نام پر فتنہ وفساد مچانا شروع کر دیا ہے۔

حالیہ تنازع: چھبیس مئی کو یہ حادثہ ہوا، لڑکے جیل اور لڑکی گھر والوں کے پاس پہنچا دی گئی۔عام طور پر ایسے کیسوں میں بات یہیں ختم ہوجاتی ہے لیکن اس کیس میں ایک لڑکا مسلم تھا اس لیے شر پسندوں نے اس معاملے کو لو جہاد بتا کر مسلمانوں کے خلاف احتجاج شروع کردیا۔پرولہ شہر میں بڑی آبادی ان مسلمانوں کی ہے جو یہاں کاروباری غرض سے آباد ہیں اس لیے ان کے دکان ومکان کرایوں پر زیادہ ہیں۔بہت کم لوگ ہیں جو مقامی ہیں یا دکان ومکان کی ملکیت رکھتے ہیں۔اسی وجہ سے شر پسندوں نے پہلے یہ مطالبہ رکھا کہ

  • کسی بھی مسلمان کو تصدیق کے بغیر دکان ومکان نہ دیا جائے۔
  • پھر اس مطالبے پر آگیے کہ یہاں سے مسلمانوں کو نکال دیا جائے۔
  • اب مطالبے کی بجائے سیدھے سیدھے دھمکیوں اور غنڈہ گردی پر اتر آئے ہیں۔
  • دیو بھومی رکشا ابھیان نامی تنظیم کی جانب سے پوسٹر لگا کر دھمکی دی گئی ہے کہ مسلمان 15 جون تک شہر خالی کردیں ورنہ انجام کے ذمہ دار خود ہوں گے۔
  •  دھمکی کے ساتھ ہی مسلمانوں کی دکانوں پر حملے شروع ہوگیے ہیں۔

افسوس اس بات کا ہے کہ یہ ساری دھمکیاں، غنڈہ گردی پولیس کی آنکھوں کے سامنے ہورہی ہے لیکن پولیس شر پسندوں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لے رہی ہے۔پولیس کے اسی رویے سے شہ پا کر شدت پسندوں کے حوصلے اتنے بڑھ گئے ہیں کہ جابجا شر پسندوں کا ہجوم جے شری رام کے نعروں کے ساتھ مسلمانوں کی دکانوں پر حملے اور توڑ پھوڑ کر رہا ہے۔پرولہ شہر میں مسلمانوں کی قریب 42 دکانیں ہیں جو 26 مئی سے ہی بند ہیں۔یہ اقتصادی بائیکاٹ کم نہیں تھا کہ بجرنگ دَل ،وشو ہندو پریشد جیسی تنظیموں نے مسلمانوں کو مکمل باہر نکالنے کی مہم چھیڑ دی ہے۔ایسے معاملات میں عموماً سیاسی پارٹیاں قدرے غیر جانب داری سے کام لیتی ہیں لیکن افسوس یہاں ایسا نہیں ہوا، حکمراں پارٹی بی جے پی کے کارکنان پوری طرح شر پسندوں کے ساتھ ہیں۔اسی شہر میں بی جے پی کے مقامی لیڈڑ محمد زاہد بھی رہتے تھے جو بی جے پی مائنارٹی سیل ضلع اتر کاشی کے صدر ہیں۔حکمراں پارٹی کا ضلعی عہدے دار ہونے کے باوجود پولیس محمد زاہد تک کو  حفاظت نہیں دے پائی اور انہیں بھی ہندو شر پسندوں کے خوف سے اپنا مکان اور دکان خالی کرکے شہر چھوڑنا پڑا۔محمد زاہد کے مطابق شر پسند ہمیں اعلانیہ قتل کرنے اور ہماری عورتوں کے ساتھ ریپ کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔دکانوں کھولنے نہیں دی جارہی ہیں اور بند دکانوں پر حملے کیے جارہے ہیں۔انہوں نے بڑے افسوس کے ساتھ بتایا کہ انہوں نے بی جے پی کی اعلی کمان تک سارے حالات پہنچائے اور کہا کہ

  • ایک لڑکے کی غلطی کی سزا اس کی پوری قوم کو کس لیے دی جارہی ہے؟
  • اگر یہی انصاف ہے تو اس کیس کا دوسرا لڑکا ہندو ہے، اس کی قوم کے خلاف کیوں کچھ نہیں کیا جارہا ہے؟
  • مذکورہ واقعہ میں ایک تیسرا ہندو لڑکا بھی شامل تھا جو آٹو چلا رہا تھا، اسے کس لیے چھوڑا گیا، جب کہ وہ تو مقامی تھا، اس سے کیوں نہیں پوچھا جاتا کہ چند پیسوں کی خاطر وہ اپنی ہی بستی کی بیٹی کو بھگانے میں مدد کیوں کر رہا تھا؟

محمد زاہد کا کہنا تھا کہ ہم نے پارٹی کے کئی بڑے لیڈروں کو فون کیا مگر کہیں سے کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا اور اب تو فون اٹھانا بھی بند کردیا ہے اس لیے اب وہ بھاری مَن کے ساتھ شہر چھوڑ کر جارہے۔پولیس افسران سیکورٹی کی بجائے صرف اتنا کہہ کر دامن بچا لیتے ہیں کہ ہم نے دکانیں کھولنے سے منع تھوڑی کیا ہے آپ دکانیں کھولیں۔لیکن یہ صرف زبانی جمع خرچ ہے، آخر دکان کس کے بھروسے کھولیں، پولیس کے سامنے ہی دکانوں پر حملے ہورہے ہیں، سارے چہرے سامنے ہیں مگر پولیس توڑ پھوڑ کرنے والوں سے کچھ نہیں کہہ رہی ہے، ایسے میں دکان کھولنا اپنی جان کو جوکھم میں ڈالنا ہے۔

پولیس کی فکر اور فعالیت کا اندازہ اسی سے لگا جاسکتا ہے کہ ابھی تک دھمکی دینے والی تنظیم اور اس کے کارکنان کا پتا تک نہیں لگایا جاسکا، گرفتاری تو بہت دور کی بات ہے۔پولیس عملی طور پر شر پسند تنظیموں کی خاموش حمایت میں ہے اسی بے یقینی کی وجہ سے اب تک آدھے سے زیادہ کاروباری مسلمان پرولہ شہر چھوڑ کر جا چکے ہیں۔

____کیا کریں مسلمان؟:  ویسے تو یہ معاملہ صرف اتراکھنڈ کے ایک چھوٹے سے شہر کا ہے لیکن جس طرح سوشل میڈیا کے ذریعے اس جارحانہ اقدام کی حمایت کی گئی اور مسلمانوں کو بھگانے کی دھمکی کا خیر مقدم کیا گیا، یہ رجحان انتہائی خطرناک ہے، اس طرح تو کسی بھی علاقے میں کسی شخص کی غلطی بتا کر مسلمانوں کے خلاف یہی ماحول بنایا جاسکتا ہے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سپریم کورٹ از خود اس کا نوٹس لیتا اور اتراکھنڈ کی حکومت سے جواب طلب کرتا لیکن ایسا ہوا نہیں، اس لیے ہمیں اس معاملے کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔بہتر ہو کہ کوئی ملی تنظیم سپریم کورٹ میں پی آئی ایل داخل کرکے سپریم کورٹ سے اس معاملے کو دیکھنے کی گزارش کرے تاکہ آئندہ شر پسند اس طرح کی زیادتی کا خیال بھی نہ لا سکیں۔

حیرت ہے!      اتر کاشی پچھلے پندرہ دنوں سے سلگ رہا ہے لیکن صوبے کی اپوزیشن پارٹی کانگریس میں مکمل خاموشی چھائی ہوئی ہے۔اسدالدین اویسی صاحب نے اس معاملے کو ٹویٹر پر اٹھایا جس سے یہ معاملہ سرخیوں میں آیا۔اس کے بعد اتراکھنڈ وقف بورڈ کے صدر شاداب شمس نے لکسر ایم ایل اے حاجی شہزاد، حج کمیٹی کے صدر خطیب احمد وغیرہ کو لیکر وزیر اعلیٰ پُشکر دھامی سے ملاقات کی اور ان سے حالات سنبھالنے کی گزارش کی۔حالانکہ وزیر اعلیٰ نے کوئی پختہ یقین دہانی تو نہیں کرائی لیکن اس ملاقات اور اویسی صاحب کی آواز سے بھاجپا پر تھوڑا بہت دباؤ تو بنا ہے۔اٹھارہ جون کو دہرادون میں ‘مسلم سیوا سنستھان’ نامی تنظیم نے مسلم مہا پنچایت کا اعلان کیا ہے جس میں مختلف افراد اور تنظیمیں اس مسئلے کے متعلق غور وخوض کریں گی۔کچھ مسلم ایکٹوسٹ نے ٹویٹر پر save uttarakhand Muslims کے نام سے ٹرینڈ بھی چلایا جس سے بھی صوبائی حکومت پر شدت پسندوں پر کاروائی کرنے کا قدرے اخلاقی دباؤ بنا ہے۔اس سلسلے میں مزید کچھ کام کیے جا سکتے ہیں:

  • 1۔اتراکھنڈ کے مختلف علاقوں کے مسلمان اپنے اپنے اضلاع میں ڈی ایم کے توسط سے وزیر اعلیٰ کو میمورنڈم بھجوائیں۔
  • 2۔ہر علاقے کے سنجیدہ مسلمان مقامی بی جے پی لیڈروں خصوصاً بی جے پی مائنارٹی سیل کے لیڈروں پر دباؤ بنائیں کہ وہ اپنی اعلی کمان سے مُسلمانوں کے خلاف حملوں کا نوٹس لیں۔
  • 3۔سوشل میڈیا کے توسط سے بی جے پی کی مرکزی قیادت سے بھی سوال کیے جائیں کہ ایک طرف وزیر اعظم مسلمانوں کو قریب کرنے کا نعرہ دیتے ہیں تو دوسری جانب بی جے پی کارکنان مسلمانوں کو اپنے ہی وطن میں رہنے اور کاروبار کرنے سے روک رہے ہیں۔

یاد رہے!    سیاست دباؤ کا دوسرا نام ہے اگر سوشل میڈیا اور بی جے پی مائنارٹی سیل کے ذمہ داران پر مناسب انداز میں دباؤ بنایا جائے تو یقیناً کچھ نہ کچھ اثر پڑے گا۔کیوں کہ لیڈر کو بہرحال عوام کے بیچ رہنا ہوتا ہے اور امیج بنائے رکھنا ہوتی ہے اس لیے جب مقامی لیڈران عوامی مزاج دیکھیں گے تو یقیناً اعلی قیادت سے پر زور مطالبہ کریں گے۔اسی طرح مرکزی قیادت/مائنارٹی کے ترجمانوں کو بھی ٹویٹر پر ٹیگ کرکے ان تک صحیح حالات پہنچائیں اور سنجیدگی سے جواب طلبی کریں، یہ چیز بھی انصاف دلانے میں معاون ومفید ثابت ہوگی۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: