Slide
Slide
Slide
sailerawan

ماہ محرم الحرام:فضیلت و اہمیت

            محمد قمرالزماں ندوی، مدرسہ نور الاسلام، کنڈہ، پرتاپگڑھ 

      اسلامی تقویم ( مہینے)کی ابتدا ماہ محرم سے ہوتی ہے اور اس کا اختتام ماہ ذی الحجہ پر ہوتا ہے ۔ اللہ تعالٰی کے یہاں مہینوں کی تعداد بارہ ہے :

 ان عدة الشہور عند اللہ اثنا عشر شھرا فی کتاب اللہ یوم خلق السمٰوات و الارض منھا أربعة حرم   ( التوبۃ : ۳۶)    بیشک مہینوں کی گنتی (تعداد) تو اللہ کے نزدیک بارہ ہی ہے ،اس دن سے جب سے اس نے زمین و آسمان بنائے،ان میں سے چار مہینے خصوصا عظمت والے ہیں ۔ 

اللہ تعالٰی نے ان بارہ مہینوں میں سے چار کو حرمت والا مہینہ قرار دیا ہے وہ چار مہینے ہیں ذو قعدہ، ذو الحجہ، محرم الحرام  اور رجب المرجب ۔ ان میں سے ایک محرم بھی ہے ۔ اس مہینہ کی عظمت اور اہمیت و فضیلت کے لئے اتنا کافی ہے کہ خدائے وحدہ لاشریک نے اس کو حرمت والا مہینہ قرار دیا ۔ اس مہینہ کی عظمت و رفعت اور تقدس عاشورہ کی وجہ سے بھی ہے ۔ 

        آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کے روزے کے فرض ہونے سے پہلے بھی بہت اہتمام کے ساتھ عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے ۔ آپ نے مکی زندگی میں بھی اس روزہ کا اہتمام فرمایا اور اپنے صحابہ (رضی اللہ عنھم ) (ایمان والے ساتھیوں کو ) کو بھی اس کے اہتمام کا حکم فرمایا ،روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک رمضان المبارک کے روزے کی فرضیت نہیں ہوئی تھی اس وقت تک عاشورہ کا روزہ ہی فرض تھا ،سنہ ۲ ھج میں جب رمضان کے روزے فرض ہوگئے، تو عاشورہ کے روزے کی فرضیت  منسوخ ہوگئ ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورا ء کے دن کے روزہ رکھنے کو بہتر اور مستحب قرار دیا اور رمضان کے روزے کے بعد نفلی روزے میں سب سے زیادہ آپ اس روزے کا اہتمام بھی فرماتے تھے ۔ چنانچہ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : 

  • صیام یوم عاشوراء انی احتسب علی اللہ ان یکفر السنة التی قبلھا ( ترمذی ۱/ ۱۵۸)  –  مجھے اللہ کی رحمت سے پوری امید ہے کہ جو شخص عاشورہ کا روزہ رکھے گا تو وہ اس کے پچھلے ایک سال کے گناہ کا کفارہ ہو جائے گا ۔ 
  • حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :افضل الصیام بعد رمضان شھر اللہ المحرم ( مسلم : ۱/ ۳۶۸)  رمضان کے بعد سب سے افضل روزہ اللہ کے مہینہ محرم یعنی عاشورہ کا روزہ ہے ۔ 

بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے قریش بھی اس دن کا بڑا اہتمام کرتے تھے اور اس کو متبرک اور قابل تعظیم سمجھتے تھے ۔ وہ لوگ بھی اس دن روزے کا اہتمام کرتے تھے ( ممکن ہے روزے کے طریقے اور کیفیت میں کچھ فرق ہو) بعثت سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اس دن روزہ رکھنا ثابت ہے ۔ بعثت سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ جو کام ،امور اور شعار دین براہیمی اور شعار حنیفی کے طور پر قریش انجام دیتے تھے اور جو شرک اور خرافات سے پاک ہوتا بعثت سے پہلے آپ خود اس میں شریک و سہیم ہوتے تھے ۔ 

      مدینہ منورہ ھجرت کرنے کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھا اور اس دن کی اہمیت و فضیلت سے اپنے صحابہ کو واقف کرایا اور انہیں بھی اس روزے کی تلقین کی ۔ 

    غرض ماہ محرم الحرام بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی قابل احترام اور قابل تعظیم تھا ۔ اور لوگوں کی نگاہ میں اس دن کی وقعت و اہمیت تھی ۔ 

     عاشورہ کے دن انبیاء کو ان کے دشمنوں سے پناہ دی گئ ،ان کو ہلاک و برباد کیا گیا ،جیسے فرعون اور دوسرے دشمنان انبیاء ۔ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ خدا نے زمین و آسمان اور دن اسی دن پیدا کئے ۔ اسی دن حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش ہوئی اور بعض اور عظیم ہستیوں کی تاریخ بھی اس دن سے وابستہ ہے ۔ تاریخ کا ایک بے حد اہم واقعہ بھی اسی دن سے وابستہ ہے اور وہ ہے شھادت حسین رضی اللہ عنہ کا واقعہ ۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے خلافت کی بقا اور اس کو علی منھاج النبوہ باقی رکھنے کے لئے ۔ احقاق حق اور ابطال باطل کے لئے اپنی جان راہ خدا میں قربان کر دیا اور شھادت کا عظیم الشان تمغہ اور تحفہ لے کر  خدا کے حضور حاضر ہوگئے ۔ اور یہ باور کرایا کہ 

شھادت ہے مطلوب و مقصود مومن 

نہ      مال    غنیمت    نہ  کشور  کشائی 

حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے عاشوراء کی تاریخ میں امت کو یہ سبق دیا اور مستقبل میں آنے والی نسلوں کو یہ پیغام دیا کہ اللہ کا مخلص اور پکا بندہ وہ ہے جو چڑھتے سورج کا پجاری نہ بنے ۔ جو نفاق اور دو رخا پن سے پاک ہو ۔ دنیا اور متاع دنیا کی اس کی نگاہ میں کوئی وقعت و اہمیت نہ ہو جو خدا کی مرضی کے سامنے کسی کی مرضی پر راضی نہ ہو ۔ جو مداہنت چاپلوسی اور نفاق و منافقت سے پاک ہو ۔ جس کا مطمح نظر صرف اور صرف اعلاء کلمت اللہ ہو ۔اور جس کی سوچ یہ ہو کہ 

توحید تو ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے 

یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لئے ہے

    شہادت حسین یہ اسلامی تاریخ کا ایسا درد ناک حادثہ ہے، کہ قیامت تک امت مسلمہ اس کا صدمہ سہتی رہے گی، مسلمانوں کے لیے رسول ﷺ کے بعد اہل بیت رسول ﷺ اور افراد خاندان رسول سے محبت محض جذباتی معاملہ نہیں ہے، بلکہ عقیدہ و ایمان کا معاملہ ہے، اس پاکیزہ خاندان کے مقابلے میں دنیا کا کوئی خاندان پاکیزہ نہیں ہے، اور اس عظیم خاندان کے مقابلے میں دنیا کا کوئی خاندان عظیم نہیں ہے، کیونکہ اس خاندان کے سربراہ محسن انسانیت حضرت محمد ﷺ ہیں۔ اس خاندان  یعنی آپ کے اہل خانہ ازواج مطہرات اولاد و احفاد کی پاکیزگی کے سلسلے میں خود قرآن کا یہ اعلان کافی ہے۔ 

  اللہ تو چاہتا ہے کہ تم اہل بیت نبی سے گندگی کو دور ➖ کرے اور تمہیں پوری طرح پاک کردے۔ 

ان پاکیزہ اور برگزیدہ افراد خاندان کو اپنی جگہ بطور نمونہ چھوڑ کر رسول ﷺ دنیا سے رخصت ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں، اللہ کی کتاب اور اپنا خاندان۔( مسلم شریف )

      حضرات حسنین سے آنحضرتﷺ کس قدر محبت فرماتے تھے اس سلسلے کی تفصیلات احادیث کی کتابوں میں موجود ہے۔ 

      ان تفصیلات سے ہٹ کر ہم یہاں یہ بتانا چاہتے ہیں اور سوال کرنا چاہتے ہیں کہ ذرا یہ بتائیں کہ حضرت حسین نے جنگ کا فیصلہ کیوں کیا ؟ کس چیز کے لیے جان دے دی، اور کس مقصد کے لیے جام شہادت نوش فرمایا۔؟ صرف مقصد یہ تھا کہ خلافت اللہ کی امانت ہے اس کا تعلق وراثت سے نہیں ہے ،  اس کا  تعلق استحقاق سے ہے، باپ کے بعد بیٹا ولی عہد ہوکر منصب خلافت پر فائز ہو یہ قیصر و کسریٰ کا طریقہ ہے، اور یہ رسول ﷺ کی سنت  نہیں ہے۔ مسلمانوں کی خلافت کا حق دار وہ ہے جو مسلمانوں میں سب سے زیادہ صالح اور پرہیزگار ہے۔ ان الارض یرثھا عبادی الصالحون۔۔ بے شک زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے۔ حضرت حسین نے جن کو خلافت کے  مستحق نہیں سمجھا اس سے جنگ کیا۔ تاکہ لوگوں کو بتادیں کہ انسان کو چڑھتے سورج کا پجاری نہیں ہونا چاہیے۔بلکہ حق کا اور سچائی کا طرف دار ہونا چاہیے چاہے حق اور سچائی کی خاطر جان چلی جائے۔ جان و مال اور درہم و دینار سب لٹ جائے  یہ سب گوارہ ہے ۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت اسلام کو زندہ و تابندہ کرتی ہے ، شریعت حقہ کو زندہ اور درخشاں رکھنے کی انقلابی تحریک کا آغاز تھا، اسلام کے ہر دور اور ہر عہد میں اس تحریک کے علم بردار اور حق گو پیدا ہوتے رہیں گے۔ 

      مصلحت اندیش اور مصلحت پرست لوگ یہ کہہ سکتے ہیں اور عقل پرست اور ظاہر پرست لوگ یہ باور کراسکتے ہیں کہ مٹھی بھر فوج کو یزید کے لشکر جرار سے ٹکرانے کی ضرورت کیا تھی؟ اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنے کی ضرورت کیا تھی؟ مگر جو لوگ حق کو غالب دیکھنا چاہتے ہیں۔ پیارے آقاﷺ کی شریعت اور سنت مطہرہ کو مسخ ہونے اور مغلوب ہونے سے بچانا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ خلافت متقیوں اور پرہیزگار افراد کے ہاتھوں میں رہے، اسلام اور حکومت کی باغ ڈور وہ لوگ سنبھالیں اور زمام اقتدار ان کے پاس ہو جن کے اندر خوف خدا اور صلاحیت اور صالحیت بھی ہو ۔ وہ جانتے ہیں کہ حق کے متبعین اور طرف دار ہر دور میں کم رہے ہیں۔ مگر ہر زمانہ میں صاحب عزیمت اور حق پرست لوگ اٹھتے رہتے ہیں اور حق و باطل کے فرق کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے رہتے ہیں۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی کی قربانی، شہادت اور اسوہ ہم سب کے لیے نمونہ ہے اور اس  کو ماننا، حق ، سمجھنا اور اس کو عام کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ ہر زمانہ میں نقش حسین کی اتباع جو در اصل نقش رسول کی ہی اتباع ہے اس کو بتانے اور سمجھانے کی ضرورت ہے۔ حضرت حسین کی شہادت خصوصی مرتبہ کی حامل ہے اور امت کو یہ پیغام دیتی ہے کہ 

کرتی رہے گی پیش شہادت حسین کی

آزادی  حیات کا یہ ہے سرمدی اصول 

چڑھ جائے کٹ  کے سر تیرا نیزے کی نوک پر 

لیکن تو فاسقوں کی اطاعت نہ کر قبول

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: