محمد عمر فراہی
دنیا میں کسی بھی قوم اور نسل کی تربیت کا پتہ ہمیشہ اس کے معاشی نظام یعنی رزق کے حصول اور تعلیمی نصاب سے ہی ہوتا ہے ۔بیسویں صدی سے پہلے تک کرہ ارض کی قوموں کا یہ دونوں ہی نظام اپنے مذہب اور علاقے کی نسبت سے نہ صرف مختلف رہا ہے لوگوں کے مذہبی رجحان کی وجہ سے انسانی معاشرہ کسی حد تک بدعنوانی اور خرافات سے بھی پاک رہا ہے لیکن بیسویں صدی کے گلوبل انقلاب کے بعد پہلے تو معاشی نظام کو بینکوں کے سودی کاروبار کے ذریعے عالم گیریت میں تبدیل کیا گیا بعد میں عالمی تجارت کے مدنظر تعلیمی نصاب نے بھی گلوبلائزیشن کی شکل اختیار کر لی ۔اس طرح مشرق سے لیکر مغرب اور شمال سے لیکر جنوب تک انسانی معاشرے کی سوچ میں یکسانیت پیدا ہونا بھی لازمی تھا ۔بدقسمتی سے پریس یا اخبارات جو لوگوں کو حالات سے باخبر کرنے کیلئے ہوتے تھے انہیں اس نظام کے مخصوص بیانیہ یا discourse کو ہموار کرنے کے لئے استعمال کیا جانے لگا ۔یعنی نئی سیاسی تہذیب نے سرکاری اشتہارات کے ذریعے پریس کو نئے ورلڈ آرڈر کے اشتہار کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا ۔بلکہ یوں کہیں کہ اب جو اس گلوبل سوچ کے برخلاف سوچنے کی جرآت کرتا ہے اسے اسی پریس اور ٹی وی چینل کے ذریعے بنیاد پرست اور انتہا پسند کہہ کر لعنت ملامت کیا جاتا ہے اور ایسے کسی اخبار یا چینل کو سرکاری اشتہار کبھی نہیں ملتے جو موجودہ گلوبل سیاسی نظام سے اختلاف رکھتا ہو ۔یہ انقلاب تقریبا ایک صدی میں مکمل ہو گیا اور ہم آج بھی اس عالمی سرمایہ دارانہ جمہوری نظام کے خوبصورت فریب سے باہر نہیں نکل پارہے ہیں تو اس لئے کہ فتنہ ہمیشہ اپنے ظاہر کے ساتھ بہت ہی خوبصورت اور مہذب ہوتا ہے ۔یعنی اس نظام کا معاشی اور تعلیمی نظام کا ظاہری پہلو اتنا خوبصورت ہے کہ بھارت میں مرحوم وحیدالدین خان ،ڈاکٹر رفیق زکریا اور پاکستان میں جاوید احمد غامدی جیسے اسلامی اسکالروں نے باقاعدہ قرآن وحدیث کے حوالے سے اس کے حق میں تبلیغ شروع کر دی ۔اس کے علاوہ ملی تنظیموں اور دانشوروں نے بھی اپنی جدوجہد کا نوے فیصد حصہ مغربی تعلیم کے حصول پر لگا دیا ہے ۔جہاں تک کسی شئے کے باطن کی غلاظت کا اندازہ لگانے کی بات ہے تو اس کے لئے علم کے ساتھ ساتھ تقوی بھی لازمی ہے ۔سوال یہ ہے کہ جب آپ کا رزق ہی سود پر مبنی ہو اور تعلیم میں ریاکاری اور گلیمر شامل ہو تو فراست بھی کیسے ممکن ہے ۔جب کوئی قوم فراست سے محروم ہو جائے تو صرف فلسفہ رہ جاتا ہے روحانیت نہیں ۔
اسی طرح موجودہ جمہوریت کا سب سے خوبصورت پہلو یہ ہے کہ عوام کو اپنے حکمرانوں کے انتخابات کا حق حاصل ہے بس ۔لیکن اس فریب سے پچھلی صدی کی عبقری شخصیات بھی محفوظ نہ رہ سکیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس نظام کے تحت اول دور کے جو سیاسی رہنما قانون ساز اسمبلیوں کی نمائندگی کیلئے منتخب ہوۓ ان میں کچھ اخلاقایات اور غیرت کا خمیر موجود تھا لیکن اس وقت بھی جو شخصیات مومنانہ فراست سے لبریز تھیں انہوں نے ان کی مکاری پر سے بھی پردہ اٹھا دیا تھا ۔جیسا کہ علامہ نے کہا تھا کہ
دیو استبداد جمہوری قبا میں پاۓ کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ایک طرف عوامی رائے شمارے کے ذریعے حکمرانوں کی تبدیلی کا ڈرامہ جاری رہا دوسری طرف نئی نسل کی جس طرح فحش معاشی اور تعلیمی نصاب کے ذریعے تربیت ہورہی تھی ان کی ترجیحات میں اخلاقیات کا کوئی تصور ہی باقی نہیں رہا ۔
یعنی بھارتی جمہوریت اور لبرل طرز سیاست کی بیس سالوں میں ہی اتنی بدعنوان ہو چکی تھی کہ 1970 کے قریب ہی جئے پرکاش نرائن کو ایک نئے سوشل انقلاب کا نعرہ لیکر اٹھنا پڑا ۔لیکن لوہیا اور جئے پرکاش نارائن یا کاشی رام کے پاس سیاست کا کوئی ٹھوس اخلاقی اور الہامی نظریہ ہی نہیں تھا ۔وہ بھی اس بات سے نابلد تھے کہ جس گلوبل فتنے میں وہ قید ہیں اب کوئی بھی سیاسی انقلاب سیاسی پارٹی تو تبدیل کر سکتا ہے لیکن اس ملک کا معاشی اور تعلیمی نصاب وہی ہوگا جو عالمی ساہو کار چاہیں گے ۔ہم نے دیکھا بھی کہ تھوڑی دیر کیلئے جنتا پارٹی یا جنتا دل جیسی سیاسی پارٹیوں کی شکل میں تبدیلی آئی بھی لیکن کیا نظام میں کوئی فرق پڑا ۔کیا بھارت تبدیل ہوا ۔2014 کے بعد اچھے دنوں کے نعرے کے ساتھ ایک تبدیلی پھر آئی لیکن کیا اچھے دن آۓ ؟۔
وہی لوگ جن کے اقتدار میں بلقیس بانو کی عصمت دری کا واقعہ اور عشرت جہاں کے انکاؤنٹر کی واردات انجام دی گئی اور اس واردات کے مجرمین آزاد بھی کر دئے گئے آج ہم انہیں لوگوں سے امید لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ منی پور فساد کے مجرموں کو سزا دیں گے ۔
اگر بلقیس بانو اور عشرت جہاں کو 2004 میں ہی انصاف مل گیا ہوتا تو بیس سال بعد 2023 میں منی پور کے فساد کے دوران فسادیوں کی بھیڑ دو برہنہ عورتوں کو برہنہ گھمانے اور ان کی عصمت دری کی جرات نہیں کر سکتی تھی ۔لیکن میں اس کے لئے صرف اس فسادی بھیڑ کو ہی ذمہ دار نہیں مانتا جو اپنی مادہ پرستانہ سوچ کی وجہ سے خونخوار درندوں میں تبدیل ہو چکے ہیں بلکہ انصاف کے اس نظام کو بھی ذمہ دار مانتا ہوں جس نے بلقیس بانوں کے مجرموں کو آزاد کردیا ۔ایک جج نہ صرف عوامی ضمیر کو مطمئن کرنے کیلئے افضل گرو کو پھانسی کی سزا دیتا ہے آخری وقت میں ایک شخص کو اپنی بیوی اور بچوں سے ملنے کی اجازت بھی نہیں دی جاتی ۔میں اس کا ذمہ دار اس عدالتی اور سیاسی نظام کو سمجھتا ہوں جس نے ایک مسجد کو یہ کہتے ہوۓ ایک فرقے کے حوالے کردی کہ ایسا کرنا اکثریت اور ملک کی سلامتی کے حق میں ہے !۔
اور اس فیصلے کے جج کو راجیہ سبھا کا ممبر بنا دیا جاتا ہے ؛میں اس نظام کی ناکامی کا قصہ روۓ زمین کی سب سے بڑی جمہوریت امریکہ سے بھی شروع کر سکتا ہوں جس نے دوسری عالمی جنگ کے بعد سے مسلسل ویتنام ،عراق ، افغانستان ، سومالیہ ، لیبیا اور شام میں قتل اور خون کا وحشت ناک کھیل کھیل کھیل رہا ہے ۔
آپ اس مغربی جمہوریت کا چہرہ بنگلہ دیس اور پاکستان میں بھی دیکھ سکتے ہیں ۔ پچھلے ستر اسی سالوں میں کہیں سے بھی جمہوریت کی کوئی ایسی مثال نہیں ملتی جو موجودہ جمہوری صدی میں سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہو ۔ہاں ہر طرف ہر دن ہر سیکنڈ اور منٹ میں قتل و خونریزی ، عصمت دری لوٹ مار ، فحاشی ، بدعنوانی ، فریب اور ناانصافی کا جو ننگا ناچ کھیلا جارہا ہے اخبارات اور ٹی وی چینل اسے مزے لے لے کر دکھا رہے ہیں ۔سچ تو یہ ہے کہ اب ظلم و زیادتی یا قتل و غارت گری کی واردات پر زیادہ دیر چیخنا چلانا اور احتجاج کرنا بھی کسی سیاسی پارٹی اور عوام کی دلچسپی کا موضوع نہیں رہا ۔لوک سبھا میں بھارت کے وزیر اعظم نے منی پور کی تین برہنہ عورتوں کی انسانیت سوز واردات کے انکشاف کے بعد ان کے حق میں صرف چھتیس سیکنڈ کا ایک بیان درج کروایا ہے کہ قصورواروں کو بخشا نہیں جاۓ گا !
کیا کہا جائے اب تو لوگوں کی سوچ اور ترجیحات کا اصل موضوع بھی یہ ہے کہ حکمراں ان کے معاشی اور تعلیمی نظام کے ذریعے ان کی روزی روٹی اور تجارت کو خوبصورتی سے بحال کر دیں بس ۔ اب کسی کو انصاف اور اخلاقیات کی بحالی پر بحث کرنے کی بھی فرصت کہاں ۔اب کون کس سے یہ سوال کرے کہ شرجیل امام اور عمر خالد کو پابند سلاسل ہوۓ ایک ہزار سے زیادہ دن کیوں ہوۓ یا آفرین فاطمہ کے والد جاوید احمد کو ایک سال یا عافیہ صدیقی کو پندرہ سال سے قید کیوں کر رکھا گیا ہے ۔
مسلسل ہو رہے ہجومی تشدد کے واقعات ہوں یا ہاتھ رس کی دلت لڑکی کی عصمت دری کا سانحہ یا خاتون پہلوانوں کے جنسی دست درازی کے معاملات یا کٹھوا کی آصفہ کی عزت و عصمت کی بے حرمتی کا معاملہ۔ ایسے بے شمار واردات ہیں جو ہماری جمہوریت کو مسلسل داغدار کرتے رہتے ہیں اور جمہوری حکمرانوں کے کان پر جوں بھی نہیں رینگتی ۔زیادہ دن نہیں ہوۓ جب عتیق اور اشرف کو پولیس کی تحویل میں سرعام میڈیا کے سامنے ہی قتل کر دیا گیا اور ہماری پولیس تماشا دیکھتی رہی ۔مگر سب کے باوجود کشمیر فائل ، کیرلا اسٹوری اور بہتر حوروں کے نام سے فلمیں ریلیز کر کے ایک مخصوص مذہب کے لوگوں کے خلاف نفرت کا بیانیہ تیار ہو رہا ہے ۔سوال یہ ہے کہ جب حکومت کی پشت پناہی میں اس طرح نفرت کی فضا ہموار کی جاۓ گی تو وہ نسل جسے موجودہ تعلیمی اور معاشی نظام کے تحت پوری طرح مادہ پرست بنا دیا گیا ہے ان کے ہاتھوں میں ان کی اپنی ماں بہن بھی محفوظ رہ پائیں گی ؟
اب 2024 کے انتخابات کیلئے چھبیس سیاسی پارٹیوں کے سیاسی رہنماؤں نے جس میں کوئی بھی مسلم سیاسی پارٹی نہیں ہے مل کر مرکز کی موجودہ سیاسی پارٹی کا متبادل تلاشنا شروع کر دیا ہے۔ لوگ بھی خوش ہیں کہ تبدیلی ضرور آۓ گی ۔ہمیں بھی امید ہے کہ نیا سیاسی اتحاد مرکز میں اپنی حکومت بنا لے گا ۔لیکن سوال پھر وہی ہے کہ کیا ملک میں انصاف بھی بحال ہو جاۓ گا ۔کیا ان کی حکومتوں میں بھاگل پور مرادآباد ،ممبئ میرٹھ ملیانہ گجرات منی پور جیسے فسادات نہیں ہوں گے اور کیا بے قصور انصاف پسند نوجوان سماجی کارکنان اور صحافیوں کی گرفتاری نہیں ہو گی !!!