Slide
Slide
Slide

مولانا سہیل احمد ندوی کون تھے اور کیا تھے؟

✍️مولانابدیع الزماں ندوی قاسمی

 

موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس

یوں تودنیا سبھی آتے ہیں مرنے کے لئے 

نائب ناظم امارت شرعیہ بہار ،اڑیشہ وجھارکھنڈ ، سکریٹری امارت شرعیہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفئر ٹرسٹ،دارالعلوم الاسلامیہ اورمولاناسجاد میموریل اسپتال حضرت مولانا سہیل احمد ندوی   یونیفارم سول کوڈ کے لئے بیداری مہم میں حصہ لینے کے لئے جھارکھنڈ اوراڑیشہ کے سفر پر کٹک میں تھے  کہ وہیں 6/  محرم الحرام 1445ھ مطابق 25/جولائی 2023ء بروز منگل ظہر کی نماز کے دوران حالت سجدہ میں روح پرواز کرگئی ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ، رحمہ الله رحمۃ واسعۃ و نور الله مرقدہ وبرد مضجعہ ۔ایسی موت درحقیقت موت نہیں بلکہ لازوال زندگی ہے ،اور اس خوش بختی پر انہیں جتنی بھی مبارک باد دی جائے کم ہے ۔مولانا موصوف سے میرے گہرے روابط اور تعلقات کی بناپر ان کی اچانک وفات کی خبر سے دل ودماغ پر رنج والم کی جو کیفیت طاری ہوئی ، وہ ناقابل بیان ہے ۔

مولانا موصوف خوش خلقی  اور ملنساری میں اپنی مثال آپ تھے ، نہایت دوراندیش اور دوربین تھے ، مولانا موصوف نے امارت شرعیہ کے عروج وترقی اور اس کے استحکام وبقا کے سلسلہ میں جوکردار ادا کیا وہ قابل صد ستائش ہے ، انہوں دنیا کے تمام علائق سے یکسو ہوکر بس امارت شرعیہ کو اپنی تماتر توجہات کا مرکز بنالیا تھا ، اور ندوۃ العلماء سے فراغت کے بعد امارت شرعیہ سے ایسے وابستہ ہوئے کہ جوانی سے لے کر آخری لمحات تک اسی کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کردیا ، امارت شرعیہ سے محبت آپ کے رگ وپے میں بسی ہوئی تھی ، چنانچہ 32 سالوں کی طویل مدت امارت کی خدمت میں گزار دی ، آپ کی وفات سے امارت شرعیہ میں جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پُر نہ ہوسکے گا ۔ آپ کی باتیں اور مخصوص ادائیں اور چٹکلے ایک عرصہ تک مجلسوں کا موضوع بنے رہیں گے ۔

نہ غرض کسی سے نہ واسطہ مجھے کام ہے تیرے کا م سے

ترے ذکر سے تری فکر سے تری یاد سے ترے نام سے

مولانا موصوف کا امارت شرعیہ کامتواتر32سالوں پر محیط دینی ، ملی ، قومی ، رفاہی ، سماجی اوررفاہی  وہ کارنامہ ہے ، جو تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا ، وقت کا مؤرخ آپ کے اس کارنامہ کو کبھی فراموش نہیں کرسکتا ۔ درحقیقت مولانا موصوف کی 32 سالہ خدمات کے تذکرہ کے لئے سیکڑوں صفحات درکا ہیں ، جس کو اس مختصر سے مضمون میں سمویا نہیں جاسکتا۔

جوبادہ کش تھے پُرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں

کہیں سے آبِ بقائے دوام لا ساقی

حاصل رہا ہے مجھ کو ملاقات کا شرف

مٹی کا ایک چراغ تھا سورج سے فیض یاب

الله تعالیٰ امارت شرعیہ کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے اور امارت شرعیہ کی ہر قسم کے شرور وفتن سے حفاظت فرماکر اس کو اپنی تاریخی روایات کے ساتھ قائم ودائم رکھے ۔ آمین۔ مولانا موصوف کاآبائی وطن بگہی دیوراج ،تھانہ لوریا ، ضلع مغربی چمپارن ہے۔ پسماندگان میں اہلیہ،دوبیٹے اورایک بیٹی ہے ۔

الله تعالیٰ ان کے مراتب بلند فرمائے ، اپنی خاص رحمتوں سے مالا مال فرمائے ، مقامات عالیہ سے سرفراز فرمائے ، کروٹ کروٹ راحت اور اعلیٰ علیین اور جنت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے اور ان کے جملہ پس ماندگان اور متعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔(آمین یارب العالمین)

الله ان پر بارشِ رحمت ہو دم بدم 

ان کے لئے کھلیں ترے رحم وکرم کے باب

آپ کی وفات کی کسک علمی طبقوں میں برابر محسوس کی جائے گی ، ادارہ (” انڈین کونسل آف فتویٰ اینڈ ریسرچ ٹرسٹ بنگلور ، کرناٹک ، "جامعہ فاطمہ  للبنات مظفرپور، بہار ” اور ” وژڈم انٹرنیشنل پبلک اسکول ، نرولی مظفرپور ، بہار) مرحوم کے سانحہ وفات پر اپنے رنج وغم کا اظہار کرتا ہے اور آپ کی اہلیہ محترمہ ، دونوں بیٹے ، ایک بیٹی اور دیگر برادران اور رشتہ داروں کی خدمت میں تعزیت مسنونہ پیش کرتا ہے  ۔

سب لوگ یہ کہتے ہیں کہ تم مٹ گئے ہو!

تم ساتھ تھے ، تم ساتھ ہو ، تم ساتھ رہوگے ۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: