مولانا عبدالحمید نعمانی
ہندوتو وادی سماج بری طرح احساس کمتری اور نظریاتی بحران میں مبتلا ہے، یہ سلسلہ مدت دراز سے جاری ہے، واقعہ تو یہ ہے کہ اکثریتی سماج کو ہندو سماج قرار دینے کی کوئی مضبوط بنیاد بھی نہیں ہے، جات پات میں منقسم سماج کو ہندو اور ہندوتو کے نام پر متحد اور ایک ساتھ رکھنے کی ایک ترکیب محض ہے جو ایک منفی اور سیاسی سوچ پر مبنی ہے، جس کے لیے کسی نہ کسی باہری دشمن اور خارجی بنیاد کی ضرورت رہتی ہے، نئے شہر بسانے اور کوئی تاریخی یادگار قائم کرنے کے بجائے کسی پرانے شہر کا نام بدل کر نئے نام سے موسوم کرنے اور پہلے سے موجود تاریخی یادگار کو اپنا بتا کر ذہنی افلاس اور عملی و سماجی خلا۶ کو پر کرنے کی کوششوں کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے، پہلے بابری مسجد کو منہدم کر کے رام کے نام پر مندر میں تبدیل کرنے کی مہم اور اب جامع مسجد بنارس گیان واپی کو کاشی وشو ناتھ مندر کی جگہ قرار دے کر مندر میں تبدیل کر دینے کی ایک منصوبہ بند مہم ایک مخصوص ذہنیت کی پیداوار ہے۔
اورنگزیب کو از حد بدنام کرنے کے بعد اس کے نام پر لوگوں کو مشتعل کر کے اپنے ساتھ کر لینا کوئی زیادہ مشکل نہیں ہے ،حالاں کہ اورنگزیب نے مندروں کو مساجد کے مقابلے زیادہ عطیات دیے ہیں، اور واقعہ تو یہ ہے کہ اورنگزیب کو مسجد کی تعمیر سے زیادہ دلچسپی بھی نہیں تھی، جامع مسجد گیان واپی، اورنگزیب کے پیدا ہونے سے بہت پہلے کی تعمیر کردہ ہے، اس نے تزئین و مرمت کرائی ہے، تعمیر نہیں، اورنگزیب کی زندگی اور اس کی وفات کے بہت بعد تک، صوبہ متحدہ جات پر انگریزوں کے تسلط و غلبے سے پہلے کسی ہندو نے یہ دعوٰی نہیں کیا تھا کہ مسجد، وشو ناتھ مندر کو توڑ کر تعمیر کی گئی ہے، مسجد کا پورا احاطہ شاہی احاطہ کہلاتا تھا، بعد میں گیان واپی کمپلیکس کے طور پر درج کیا گیا، موجودہ جگہ پر سرنگار گوری کی پوجا پاٹ کا تحریک آزادی کے دوران اور آزادی سے پہلے تک کوئی وجود نہیں تھا، منہدم قناتی مسجد کی جگہ زبردستی پوجا ارچنا شروع کی گئی تھی، بابری مسجد کے متعلق بھی یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ وہ مندر توڑ کر تعمیر کی گئی تھی، اسے سپریم کورٹ کے فیصلے میں بھی کہا گیا ، اس فیصلے میں تحفظ عبادت گاہ قانون کوموثر و نافذالعمل قرار دیتے ہوئے بابری مسجد/رام مندر کے معاملے کو الگ نوعیت کا بتایا گیا ہے، اس کے اور تحفظ عبادت گاہ قانون(Places Of Worship ( Special Provisions )Act )کے باوجود تاریخی و قدیم عبادت گاہوں خصوصا مساجد کو مندر بتا کر مندر بناؤ تحریک چلانے اور متنازعہ حالات پیدا کر کے ہندو مسلم کے درمیان نفرت اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو تباہ کرنے کی چھوٹ کا مقصد و مطلب سمجھ سے پرے اور ہندوتو وادی ذہنیت کے حاوی ہونے کی علامت ہے، برہمنیت و صیہونیت کی خطرناک تشہیری مہم کے ذریعے حقائق کو پلٹ دینے کی روایت سے سبھی واقف ہیں، اس کے توڑ پر توجہ دینے کی ضرورت شدت سے محسوس ہوتی ہے۔
مسلم دور حکومت خصوصا مغلیہ عہد میں اکبر کے دور حکومت سے ہندوؤں کو لکھنے بولنے کی پوری آزادی رہی ہے اس کے باوجود مندر توڑ کر مسجد کی تعمیر کا ہندو لٹریچر میں سرے سے کوئی ذکر نہ ہونے کا مطلب بہت صاف ہے کہ بعد کی من گھڑت کہانیوں کو تاریخ قرار دے کر سماج کو گمراہ کرنے کا کام کیا جا رہا ہے اور کہیں کی باتوں کو کہیں کے معاملے سے جوڑ کر انسان کو سر کے بل کھڑا کر کے اصلی حالت باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے، ایک کثیر الاشاعت معروف ہندی روزنامہ میں "مندروں کے سچ سے منھ موڑنے کی کوشش "کے عنوان سے شائع آرٹیکل میں بغیر کسی ثبوت کے، یہاں وہاں کی باتوں سے مسجد کو مندر کی جگہ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے، شنکر آچاریہ کا کاشی میں قیام ،جامع مسجد گیان واپی کی جگہ کاشی وشو ناتھ مندر ہونے کا ثبوت کیسے قرار پا سکتا ہے، آرٹیکل میں یہ تسلیم کرنے کے باوجود کہ ہندوؤں کے پاس کوئی تاریخ نہیں ہے، بے بنیاد دعوے ہی کو دلیل بنا کر پیش کیا گیا ہے، جسے دعوٰی اور دلیل میں فرق معلوم نہ ہو وہ تاریخ پر بحث کر رہے ہیں، تمام مسلم مورخین و سیاحوں نے کاشی کی قدامت و عظمت کو تسلیم کیا ہے، پرانک عہد میں کاشی کی مذہبی حیثیت و رفعت قائم ہو گئی تھی، اسے مسلم حکمرانوں اور اکابر و مشائخ نے کبھی بھی بدلنے کی کوشش نہیں کی، کاشی میں مسلمانوں کی موجودگی و آمد کے ساتھ اس کی رنگا رنگی میں اضافہ ہوا اور نغمہ توحید سے کاشی کی سرزمین آشنا ہوئی، مساجد نے ایک ایشور واد کی طرف خلق خدا کو متوجہ کیا، اسے واقعہ یہ ہے کہ بھارت نے قبول کرنے میں دیر نہیں لگائی، اس کی کبیر، نانک اور بعد کے راجا رام موہن رائے، دیانند وغیرہم نمایاں مثال ہیں، وویکا نند نے واضح طور سے تسلیم کیا ہے کہ روشن بھارت کی تشکیل اسلام کے جسم کے ساتھ ہی ہو سکتی ہے، ملک کے قومی شاعر و ادیب رام دھاری سنگھ دنکر نے سنسکرتی کے چار ادھیائے میں اسلام کو ایک ادھیائے(باب )مانا ہے، اسے کاشی ،اجودھیا کے نام پر ختم کرنے کی کوشش سراسر نادانی اور ذہنی بگاڑ کا نتیجہ ہے، 1809 ۶میں مندر مسجد کی جگہ کولے کر ہندو مسلم فساد ہواتھا، اس سے پہلے وہاں نندی بیل کے ہونے کا کوئی ذکر نہیں ہے، شیو کے محافظ و خادم نندی کا مجسمہ، انگریزوں کے ذریعے برپا کردہ اسی فرقہ وارانہ فساد کے دوران یا اس کے بعد 1824سے سے 1860 کے درمیان راجا نیپال کی طرف سے رکھا گیا، ہر چیز پر” پراچین "کی چھاپ لگا کر تاریخی اور زندہ حقیقت کو تبدیل کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے، اورنگزیب پر سب سے بڑا تفصیلی کام کرنے والے اور شدید مخالف جدو ناتھ سرکار نے بھی یہ نہیں لکھا ہے کہ اورنگزیب نے بنارس میں کاشی وشو ناتھ مندر توڑ کر اس کی جگہ مسجد کی تعمیر کی ہے، شیوا جی کے لیے اورنگزیب پر فرد جرم عائد کرنے کا یہ موقع تھا کہ تم نے کاشی وشو ناتھ مندر کو توڑ کر اس کی جگہ جامع مسجد گیان واپی کی تعمیر کر کے ہندوؤں کو نیچا دکھانے کا کام کیا ہے، لیکن انہوں نے یہ الزام نہیں لگایا، اورنگزیب کے انتقال کے بہت بعد، ہندو محلے میں مسجد دھرہرا کی مرمت و تزئین کے لیے مسلم ناظم بنارس ابراہیم علی خاں کو ترغیب دی گئی تو دوسری جانب مسجد کی ملکیت والی آراضی پر گوالیار کی مہارانی اہلیا بائی کو جدید وشو ناتھ مندر کی تعمیر پر آمادہ کیا گیا، یہ ہندو مسلم میں تفریق و تقسیم، برطانوی سامراج کی سیاسی سازش تھی، مسجد کی مرمت و تزئین پر کوئی تنازعہ نہیں ہوا تھا لیکن مندر کی تعمیر پر ہوا تھا کہ اس کی تعمیر ،شاہی احاطہ میں مسجد کی ملکیت والی زمین پر کی گئی تھی، اورنگزیب کے انتقال 1707 کے بعد سے 1735 تک مندر مسجد کا کوئی تنازعہ نہیں تھا، اس کے بعد ہی کئی برسوں کے بعد بنارس پر برطانوی سامراج کے تسلط کے ساتھ مندر مسجد کے نام پر ہندو مسلم دونوں فرقوں کو لڑانے کا کھیل شروع ہوا اور بعد کے دنوں میں فرقہ پرست ہندوتو وادی عناصر اس کھیل میں پوری طرح شامل ہو گئے، بابری مسجد/رام مندر کے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے سے ان کو تقویت و حوصلہ ملا کہ دیگر تاریخی مساجد اور مقابر و ماثر پر بھی دعوٰی کر کے مندروں اور ہندو یادگاروں میں تبدیل کر کے برہمن وادی فکری بحران اور احساس کمتری سے سماج کو نکالنے کا کام کریں، اس میں مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والے الگ الگ طریقوں سے تعاون کر رہے ہیں، حالات تو اشارے کر رہے ہیں کہ جامع مسجد گیان واپی کو بھی اجودھیا کی راہ پر ڈالنے کا کام شروع کردیا گیا ہے، سروے آرڈر اور مقدمات کی شنوائی، 18/ستمبر 1991کے تحفظ عبادت گاہ قانون کی موجودگی میں قطعی ناقابل فہم ہے، کیوں کہ اس میں 15/اگست 1947تک موجود عبادت گاہوں کے متعلق کوئی تنازعہ ناقابل قبول وسماعت ہے، سروے سے متعلق امتناعی آرڈر ایک عارضی حکم ہے، اس کے پیش نظر معاملے کے تمام پہلوؤں کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے ہر ضروری اقدام کرنا ہوگا، اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ مسجد اور اس کے متعلق سروے سے غلط نظیر قائم ہو گی اور ورشپ ایکٹ کا کوئی مطلب و مقصد بھی نہیں رہ جائے گا، اس سلسلے کے تمام سوالات اور معاملے کا پہلو خصوصی طور سے قابل توجہ ہے۔