Slide
Slide
Slide

اردو صحافت سے کلدیپ نیر کا رشتہ

معصوم مرادآبادی

ملک کے مایہ ناز صحافی کلدیپ نیر ہمارے درمیان نہیں رہے۔ انہوں نے ایک ایسے وقت میں آنکھیں موندی ہیں جب ہندوستانی صحافت بڑے سخت آزمائشی دور سے گزررہی ہے۔ صحافت کے ساتھ ساتھ سیکولرزم اور جمہوری قدریں بھی داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔ وہ صحافت ،سیکولرزم اور جمہوریت تینوں کے مضبوط محافظ تھے۔ کلدیپ نیر ایک صحافی تھے، سفارت کار تھے اور پارلیمنٹرین بھی تھے۔ سماجی کارکن کی حیثیت سے بھی انہوں نے ملک کی سیکولر جمہوری قدروں کے دفاع کے لئے طویل جدوجہد کی۔ ہندوپاک کے درمیان عوامی اور سفارتی رشتوں کو مضبوط کرنا ان کا سب سے بڑا مشن تھا اور وہ 14-15اگست کی درمیانی شب میں واگہہ سرحد پر موم بتیوں کا ایک جلوس لے کر جایا کرتے تھے۔ دونوں ملکوں کے درمیان خوشگوار اور صحت مند تعلقات ان کی پہلی اور آخری خواہش تھی۔ جس وقت انہوں نے آنکھیں موندی ہیں تو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات اتنے سنگین دور میں داخل ہوچکے ہیں کہ دوملکوں کے باشندوں کا ایک دوسرے سے بغل گیر ہونا بھی تنازع کا سبب بننے لگا ہے۔ 

یہ بھی پڑھیں:

ایک جہاں دیدہ صحافی کے طورپر وہ ہر واقعہ کی براہ راست رپورٹنگ پر یقین رکھتے تھے۔ جب تک ان کی صحت نے ساتھ دیا وہ ہر اہم تاریخی موقع پر موجود رہتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ مئی 1996کی ایک گرم رات میں جب ایچ ڈی دیوے گوڑا کو وزیراعظم بنانے کے لئے نئی دہلی کے آندھرابھون میں ایک طویل میٹنگ چل رہی تھی اور جس میں اپوزیشن کے تمام سرکردہ لیڈران موجود تھے تو وہاں کلدیپ نیر صاحب ایک دیوار سے لگے ہوئے ملک کے نئے وزیراعظم کے نام کے اعلان ہونے کا انتظار کررہے تھے۔ رات کے بارہ بج چکے تھے۔ میں نے کلدیپ نیر صاحب سے گزارش کی کہ رات کافی ہوچکی ہے آپ گھر چلے جائیں ۔ لیکن انہوں نے کہاکہ یہ میری روزی روٹی کا معاملہ ہے اور جب تک نئے وزیراعظم کے نام کا اعلان نہیں ہوجاتا میں گھر نہیں جاؤں گا۔ کلدیپ نیر صاحب آخری وقت تک دیوار سے ٹیک لگائے وہیں کھڑے رہے کیونکہ وہاں صحافیوں کے بیٹھنے کا کوئی انتظام نہیں تھا۔

 95برس کی عمر میں جب انہوں نے گزشتہ 23اگست کی رات کو اپنی جان جان آفریں کے سپرد کی تو پورے ملک میں سناٹا چھاگیا۔ ہر ایک نے یہی کہاکہ صحافت کا ایک عہد ختم ہوگیا۔ اس میں شبہ بھی کیا ہے کہ وہ ہندوستان میں صحافت کا ایک ایسا ستون تھے جس پر اقدار اور اصولوں پر مبنی صحافت کی بلندو بالا عمارت کھڑی ہوئی تھی۔ یوں تو انہیں انگریزی کا صحافی گردانا جاتا تھا لیکن ان کی تحریریں ملک کی 14زبانوں کے اخبارات میں شائع ہوتی تھیں۔ اردو میں وہ سب سے زیادہ پڑھے جانے والے صحافی تھے۔ انہوں نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز بھی ایک اردو اخبار سے کیا تھا۔ صحافت کے پیشے سے وابستہ ہونا ان کی پلاننگ کا حصہ نہیں تھا بلکہ وہ حادثاتی طورپر اس سے وابستہ ہوئے تھے۔ کلدیپ نیر صاحب وکالت کرنا چاہتے تھے اور انہوں نے اس کی سند بھی حاصل کی تھی لیکن بقول ان کے وکالت تو ایک ایسی زہدشکن حسینہ ہے جسے مسکرانے پر آمادہ کرنے کے لئے برسوں ایڑیاں رگڑنی پڑتی ہیں۔ 

کلدیپ نیر کی پیدائش غیر منقسم ہندوستان کے سیالکوٹ (اب پاکستان) میں 14اگست 1923کو ہوئی تھی۔ کلدیپ نیر پاکستان سے ایک ایسے پرآشوب دور میں ہندوستان آئے تھے، جب دونوں طرف نفرتوں کی حکمرانی تھی۔ 1947کا یہ دور ہندوپاک کی تکلیف دہ تقسیم کا دور تھا۔ جن لوگوں نے اس پرآشوب دور میں پاکستان سے ہندوستان اور ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی تھی ان کے ذہنوں میں ایک خاص قسم کا تعصب سرائیت کرگیا تھا۔ اس تعصب نے تمام عمر ان لوگوں کا تعاقب کیا ۔لیکن کلدیپ نیر نے جن قدروں کی پاسداری کی تھی ،ان میں نفرت اور تعصب کا کوئی گزر نہیں تھا۔ انہوں نے تمام عمر ایک صحافی اور کالم نگار کے طورپر سرگرم زندگی گزاری اور آزاد ہندوستان کے ہر اہم تاریخی واقعہ کے عینی گواہ رہے۔ لیکن ان کی تحریروں میں کہیں بھی تنگ نظری یا تعصب کا شائبہ تک محسوس نہیں ہوتا تھا۔ اردو اخبارات میں شائع ہونے والی بعض ایسی تحریریں جن میں وہ مسلم فرقہ پرستی پر تنقید کرتے تھے،اردو قارئین کو گراں گزرتی تھیں۔ لیکن انہوں نے حق گوئی اوربے باکی کا دامن کبھی نہیں چھوڑا۔ خواہ کوئی راضی ہو یا ناراض۔ پچھلے دنوں عوامی رابطہ مہم کے دوران جب بی جے پی کے صدر امت شاہ نے ان کے دولت خانے پر حاضری دی تو بعض حلقوں کو یہ بات ناگوار گزری اور انہوں نے کلدیپ نیر صاحب کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کلدیپ نیر کا دروازہ ہر کس وناکس کے لئے ہر وقت کھلا رہتا تھا وہ کسی کو منع نہیں کرتے تھے۔ 

کلدیپ نیر صاحب کے بارے میں یہ بات بہت کم لوگوں کے علم میں ہے کہ انہوں نے پاکستان سے ہجرت کے بعد 1947میں اپنی صحافتی زندگی کا آغاز دہلی کے اردو روزنامے ’انجام‘ سے کیا تھا جو پرانی دہلی کے بلی ماران علاقے سے شائع ہوتا تھا۔ 1972میں آل انڈیا اردو ایڈیٹرس کانفرنس کے پٹنہ اجلاس میں اپنا صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے انہوں نے اپنی صحافتی زندگی کے بارے میں دلچسپ انکشافات کئے تھے ۔ کلدیپ نیر کی آپ بیتی ملاحظہ کیجئے:

’’بی اے میں اردو میرا اختیاری مضمون تھا… اور اس وقت میرے خواب وخیال میں بھی نہ تھا کہ ایک ایسی زبان جسے میں تفریحاً پڑھا کرتا تھا، ایک دن میری زندگی کا پہلا ذریعہ معاش بنے گی۔میرا ارادہ وکالت کرنے کا تھا… اور میں نے اس کی سند بھی حاصل کرلی تھی… لیکن وکالت تو ایک ایسی زہد شکن حسینہ ہے جسے مسکرانے پر آمادہ کرنے کے لئے برسوں ایڑیاں رگڑنی پڑتی ہیں۔تقسیم وطن کے بعد میں بے سروسامانی کے عالم میں تھا۔ میرے لئے ایسی کوئی صورت نہ تھی جس کے سہارے انتظار کرسکتا۔ چنانچہ میں جلدازجلد اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہتا تھا۔

یہ وہ دن تھے جب بہت سے مسلمان دہلی چھوڑ چھوڑ کر چلے جارہے تھے۔ اردو اخبارات پر خصوصیت سے ضرب پڑی تھی۔ بلی ماران سے شائع ہونے والا روزنامہ ’انجام‘ اپنے بیشتر ملازمین سے ہاتھ دھوچکا تھا اور جس وقت میں نے اس کا دروازہ کھٹکھٹایا اس وقت کی پریشانی میں وہ کسی بھی آدمی کو رکھنے کے لئے آمادہ تھے۔

میری اسناد متاثرکن تھیں اور ’زبان‘ کے لحاظ سے مجھ میں جو خامی تھی اسے میں نے اپنی اعلیٰ علمی استعداد اور پُرگوئی سے پورا کردیا اور مجھے فوری طور سے سوروپے ماہوار کی خطیر تنخواہ پر ملازمت دے دی گئی۔ لیکن اپنی میز کا کام مکمل کرنے کے علاوہ مجھے ’مالک ‘کے دولڑکوں کو انگریزی اور حساب بھی پڑھانا پڑتا تھا۔

تجربہ بے حد سنسنی خیز تھا لیکن کبھی کبھی انگریزی الفاظ پر میں اٹک بھی جاتا تھا…مثال کے طورپر ایک بار میں نے انگریزی کے لفظ Inflation کے اردو متبادلات تلاش کرنے میں ایک گھنٹے سے زائد کا وقت برباد کرڈالا۔ ایسے وقت میں وہی بزرگوار میری مدد کیا کرتے جنہوں نے پہلے ہی دن سے جب میں دفتر میں آیا تھا ،مجھے پسند کیا تھا۔

میراترجمہ کافی ناقص ہوتا، لیکن جب مجھے اداریہ لکھنے کے لئے کہاجاتا تو وہ بہت ہی ناقص ہوتا تھا۔ ایک روز کا واقعہ ہے ہمارے ایڈیٹرصاحب اپنے ایک ہفتہ کے دورہ سے واپس نہیں آسکے تھے۔ ’مالک اخبار‘ نے مجھ سے ایڈیٹوریل لکھنے کو کہا۔ سچ پوچھئے تو یہ ایک سنہری موقع تھا۔ لیکن اس میں یہ معنی بھی مضمر تھے کہ اپنی خامی کو بے نقاب کرنے کا خطرہ مول لیا جائے لیکن میرے سامنے کوئی دوسرا چارہ کار بھی نہ تھا۔ مالک نے مجھے قارئین کے خطوط کا ایک بنڈل تھمادیا… تاکہ میں اپنے مطلب کے خطوط نکال کر انہیں استعمال میں لاسکوں۔ 

خطوط کالہجہ سخت ہی تھا۔ ’انجام‘ جو مسلم لیگ کی پالیسی پر عمل پیرا تھا اور اس کے دوقومی نظریہ کاپرچار کیاکرتا تھا، اب اس سے سوال کیاجارہا تھا کہ کیا اس کی روش اب بھی وہی ہوگی جو پہلے تھی؟

میں نے اسی موضوع پر قلم اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ یاد آتا ہے کہ میں نے کچھ اس طرح کا اداریہ لکھا تھا… ’ہم سے سوال کیاجارہا ہے کہ کیا ہم اب بھی دوقومی نظریے میں یقین رکھتے ہیں؟

ہمارا جواب ہے ہاں۔ ہم اب بھی دوقومی نظریے میں یقین رکھتے ہیں۔ ہندوستان ہی کیوں ساری دنیا میں دوقومیں ہرجگہ موجود ہیں۔ امیر اور غریب، کالے اور گورے، آسودہ اور محروم وغیرہ وغیرہ… ! لیکن مجھے اعتراف ہے کہ اس طرح میں بیشتر قارئین کو بے وقوف نہیں بناسکا۔

اسٹاف میں اکیلا ہندو میں ہی تھا۔ اس لئے رپورٹنگ وغیرہ کے لئے اکثر مجھ ہی کو بھیجا جاتا تھا… کیونکہ مہاتماگاندھی اور پنڈت نہرو کی کوششوں کے باوجود فسادات کی آگ ان دنوں پورے شہر دہلی کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے تھی اور مسلمان اپنا علاقہ چھوڑتے گھبراتے تھے۔ مہاتماگاندھی کے قتل کی رپورٹ حاصل کرنے کے لئے مجھ ہی کو بھیجا گیا تھا۔ اس المناک حادثہ کے بعد ہی میں برلا ہاؤس پہنچ گیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب پنڈت نہرو سسکیاں لے کر کہہ رہے تھے… ’روشنی بجھ چکی ہے‘ باپو جی مرگئے! ایک جنونی ہندو ناتھورام گوڈسے نے اپنے ریوالور کی تین گولیاں مہاتماگاندھی کے نحیف جسم میں اُتار دی تھیں جو برسوں کے برت تپسیا سے پہلے ہی گھل گھل کر لاغر ہوچکا تھا۔

برلا ہاؤس میں یہ بھی میں نے سنا کہ بمبئی میں ہندو مسلم فساد ہوگیا ہے۔ یکایک مجھے تقسیم کا منظر یاد آگیا… یہ ہندوستان میں کس طرح درآیا تھا اور اب مسلمانوں پر کیا بیت رہی تھی۔ میں نے دردر کرب سے بھرپور وہی چہرے پھر سے دیکھے، وہی مرد اور عورتیں سامان کے گٹھر اپنے سروں پر اٹھائے ہوئے اور ان کے پیچھے پیچھے ان کے سہمے ہوئے وہی خوف زدہ بچے! وہ بھی اپنا ساز وسامان، گھر بار، دوست، رشتے دار اپنی امیدیں اپنے پیچھے چھوڑ گئے۔

ہمارا غم کتنا یکساں تھا۔ ان کی بھی زبانیں گنگ تھیں اور میری بھی۔ لیکن ہم ایک دوسرے کو سمجھ رہے تھے۔ یہ ایک ایسا فطری رشتہ تھا جو خود بخود وجود میں آجاتا ہے۔ دونوں نے قتل وغارت گری اور اس سے بھی برے مناظر دیکھے تھے، دونوں ہی تاریخ کے شکنجے میںجکڑ کر توڑ دیئے گئے تھے… دونوں ہی پناہ گزیں تھے!۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت بھاگیہ ودھاتا

میں ’انجام‘ میں صرف چار مہینے رہا، مالک اپنے لڑکوں کی تعلیم کے بارے میں مجھ سے زیادہ خوش نہیں تھے اور اسی طرح میری ان ہدایات سے بھی جو میں انہیں دیاکرتا تھا۔ لیکن اب میری گاڑی پٹری پر پڑچکی تھی۔ دفتر میں میرے کرم فرما بزرگ نے شام کو شائع ہونے والے ایک اردو روزنامے ’وحدت‘ میں مجھے کام دلوادیا۔ یہاں میری ملاقات اردو کے مشہور شاعر حسرت موہانی سے ہوئی۔ کبیر سنی کے باعث ان کی کمر جھک گئی تھی، وہ ہر وقت کھانستے رہتے تھے اور اپنی کھرّی چارپائی پر پڑے رہتے تھے جو اسی کمرے میں تھی جس میں ہماری ایڈیٹوریل ڈیسک تھی۔ وہ دستور ساز اسمبلی کے رکن تھے اور اکثر ہمیں بتایاکرتے تھے کہ اس کی کارروائیوں میں ان کا حصہ کیا رہا ہے۔ میں انہیں ایک افسردہ انسان سمجھتا تھا، ان انسانوں میں سے ایک فرد جنہوں نے پاکستان کو وجود میں لانے کے لئے کام کیا تھا لیکن جنہوں نے بعد میں محسوس کیاکہ ہندوستان کے بقیہ مسلمانوں کو قربانی کا بکرا بنایاگیا تھا۔ وہ ایسے بے کیف اور خشک مزاج آدمی تھے کہ اکثر مجھے حیرت ہوتی تھی کہ یہی وہ شخص ہے جس نے ایسا شعر بھی کہا ہے   :

نہیں آتی تو یاد ان کی مہینوں تک نہیں آتی

مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں

اردو صحافت سے میرا رشتہ ’وحدت‘ کو چھوڑنے کے ساتھ ہی ختم ہوگیا۔ لیکن اس زبان میں میری دلچسپی برقراررہی۔ کوئی چیز کیسے چھوڑی جاسکتی ہے جس سے آپ کو پیار ہوگیا ہواور جو آپ کی نس نس تک میں سرائیت کرچکی ہو۔ 24سال کے بعد مجھے اردو کی حمایت کرنے والوں کی صف میں کھڑے ہونے کا موقع ملا۔ جب مجھے اردو ایڈیٹروں کی کانفرنس منعقدہ پٹنہ 1972میں صدارت کے لئے کہاگیا۔ مجھے ایک دریچہ ملا، جوماضی میں کھلتا تھا اور اس دریچے کے اس پار جو کچھ دیکھ سکتا تھا وہ بہت طلسماتی تھا کیونکہ وہاں جو بھی دکھلائی دے رہا تھا، وہ مستقبل کی روشنی سے چمک رہا تھا۔‘‘

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: