شاہد عادل قاسمی/ارریہ بہار
دودھ جیسا سفید رنگ،سفید پوش،خوش رنگ،خوش خلق،خوش خو،خوش رو، خوش اطوار،میانہ قد،روشن آنکھیں،فعال دماغ،متحرک قلب،کشادہ پیشانی،پر نور چہرہ اور گل زار جسم آخر آج تھک ہار کر زندگی ہار گیا،ملحوظ نظرعکس جس میں عاجزی اور انکساری ہر قسم کے تصنع اور تکلف سے ماوراء تھی آج ان کی تصویرِ بے جان ہمارے گرویدہ اورپیوند قلب ہونے کی اصل وجہ اور سبب ہے،خودغرض دنیا میں کچھ دیر قبل ایک شخصیت ایسی بھی موجودتھی جو بے قصور محروسین کی امید ہی نہیں بل کہ ان کے لیےایک مضبوط اور مستند آواز بھی تھی، ہزاروں بے قصورنوجوانوں کی غرقاب زندگی کو ساحل پر پہونچانے والی زندگی آج خود اپنی حیات ہار چکی ہے،ہزاروں بوڑھے اور کمزور آنکھوں کی بینائ کو عود کرانے والی شخصیت آج خود اپنی انکھیں موندھ چکی ہیں ،ہزاروں گھروں میں خوشیاں اور نئ زندگیاں بخشنے والی ذات آج خود اپنی زیست ہار چکی ہے،ہزاروں گلوں اور غنچوں کو تازگی بخشنے والی شخصیت آج خود اپنے گل اور گل زار کو مرجھاچکی ہے،اس انمول ذات کوآج تراش کر پیش کرنے کی میری ناکام کوشش ہے مگر افسوس آج لفظوں کی دنیاہی میرے دسترس سے باہر ہے”جمعیتہ علماۓ ہند” خود ملک کی سب سے بڑی مسلم تنظیم ہے،ان کے بینر تلے ملکی اور ملی ہر طرح کے خدمات سنہرے ورقوں کے حصہ دار ہیں،ان کا ہر شعبہ اپنے آپ میں بے مثال ہے،بالخصوص "قانونی امداد کمیٹی "کا کارنامہ آب زر سے لکھا جانے کے قابل ہے،مہاراشٹر قانونی امداد کمیٹی کے "سکریٹری جناب الحاج گل زاراحمد اعظمی صاحب” نوے سال کی عمر میں اپنی حیات مستعار کی ڈائری کو خود بند کرکے سِدھار گئے ۔
سبزہ نور رشتہ اس گھر کی نگہبانی کرے
آسمان تیری لحد پے شبنم افشانی کرے
1934ءمیں سرزمین” اعظم گڑھ "کے ایک گاؤں سے” ممبئی” پر جنھوں نے آنکھیں کھول کر دنیا کی سیر کی ان کی سیروسیاحت اپنے لیے کم اور بے کسوں کے لیے زیادہ مفید رہی،کئ دہائیوں پر مشتمل زندگی نے اعلی تعلیم یافتہ سے لے کر الفابیٹ سے عاری انسان تک کی زندگی کو نئ توانائی بخشی ہے، دہشت گردی اور ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث ملزموں کی پابند سلاسل والی زندگی کو آزادی عطاء کی ہے،سیکنڑوں پوٹا،ٹاڈا اور دیگر معاملات میں پس دیوار زنداں والی حیات کو کھلی فضا اور حریت والی زندگی مہیا کرائ ہے”لیگل سیل” کو معرض وجود میں لاکر دس دس سال سے زائد مقید زندگی کو قید وبند کی صعوبت سے مکتی عطا کی ہے،منصوبہ بند سازش اور رچی رچائ پلاننگ کے تحت سینکڑوں وہ نوجوانوں جن کا مشتبہ اور ممنوعہ جرائم پسند تنظیموں سے ناطہ جوڑ کرانھیں اپنے خاندان اور والدین سے دور کرکے سماج میں ان کے تئیں نفرت اور ہتک آمیز رویہ کو اپنا کرانھیں اپنوں سے دور کیاہے مگر اس ذات باوقار نے اپنی دینی حمیت اور دوراندیشی سے صلبی اور حقیقی رشتہ سے زیادہ اپنی کارکردگی سے ان معصوم اور بے گناہ چہروں کو تابانی بخشاہے،ان کے اوپر لگے الزامات کے دھبے کو صاف کیا ہے،نچلی عدالت سے سپریم کورٹ تک انھوں نے لیگل طریقے سے الجھے مسئلے کو سلجھایا ہےایک پریوار ہی نہیں بل کہ کئ خاندانوں کو اجڑنے سے بچایا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
مدھیہ پردیش کے حالیہ دنوں میں کھرگون شہر،گزشتہ دنوں کے حادثاتِ گجرات،احمد آباد،گودھرا،اکثردھام مندر جہانگیر پوری دہلی اور مالےگاؤں قبرستان بم دھماکہ جیسے ان گنت سنگین الزامات میں پھنسے لوگوں کے مقدموں کی فری پیروی کرکے مرحوم نے وہ کارہاۓ نمایاں انجام دیا ہے جسے فراموش کرنا مشکل ہے،بلڈوزر بابا کے خود کی کچہری خود کا انصاف اور خود کےمنصف پربھی اعظمی صاحب نے موجودہ حکومت اور نظام عدلیہ کو آئینہ دکھایا ہے،اسی دشت میں آبلہ پائ کرتے سمے آپ کو دھمکیاں اور بھپکیاں بھی کافی میسر ہوئیں،امن مخالف دماغوں اور تخریب پسند زبانوں نے آپ کو نشانہ بھی بنایاہے،ریاستی حکومت نے حفاظتی انتظامات بھی مہیا کراۓ ہیں مگر آپ ہیں کہ آپ نے مسلح جتھہ، فل پاؤرباؤنسر اور دیگر لوازمات سے اپنے آپ کو فروتر رکھنا ہی تاحیات پسند کیا،اس مہماتی مہم میں کٹھنائیاں ضرور دامن گیر رییں،حالات ضرور دگرگوں ہوۓ،چیلینجز ضرور درپیش ہوۓ لیکن صبر،تحمل اور عزم مستحکم نے آپ کو اپنی منزل سے ہمیشہ آگے پایا اور آپ کوہ ہمالہ کی طرح ہمیشہ اپنے مشن میں ڈٹے رہے،بھیونڈی اور جل گاؤں کے 1970ءمیں وقوع پذیر فسادات میں آپ نے جو سماجی زندگی شروع کی تھی آج 20اگست 2023ءمیں اختتام پذیر ہوگئ ۔
آب دار اور تاب دار زندگی کو خدا ہمیشہ سرسبز اور گل گل زار رکھے ۔
ایں دعا از من وجملہ جہاں آمین باد