محمد قمرالزماں ندوی/مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
اس میں کوئی شک اور شبہ نہیں کہ یہ دنیا فانی، وقتی و عارضی ہے،اور یہ دنیا انسان کا اصل وطن نہیں ہے، یہ دنیا ایک نہ ایک دن فنا ہوجانے والی ہے، یہ انسان کے لئے ایک پردیس یا سرائے ہے، جہاں اس کو بحیثیتِ مسافر گنتی کے چند روز رہنا ہے، پھر سب کچھ چھوڑ خالی ہاتھ اپنے حقیقی وطن یا عالم آخرت کو سدھارجانا ہے اور پھر وہیں ہمیشہ کے لیے رہنا ہے۔ بقول میر انیس :
مقام یوں ہوا اس کار گاہ دنیا میں
کہ جیسے دن کو مسافر سرا میں آ کے چلے
قرآن کریم نے دنیوی زندگی کی بے ثباتی کا نقشہ اس طرح کھنچا ہے،، خوب جان لو کہ دنیوی زندگی محض ایک کھیل کود اور ظاہری خوشنمائی اور آپس میں ایک دوسرے پر فخر کرنا اور مال و اولاد میں ایک دوسرے پر برتری جتلانا ہے، گویا کہ بارش ہے کہ اس کی پیداوار کاشتکاروں کو اچھی معلوم ہوتی ہے، پھر خوشک ہو جاتی ہے، سو،تو اسے زرد دیکھتا ہے وہ چورا چورا ہوجاتی ہے اور آخرت میں عذاب شدید بھی۔ اور اللہ کی طرف سے مغفرت اور خوشنودی بھی اور دنیوی زندگی محض دھوکے کا سامان متاع الغرور ہے۔ (الحدید ۲۰ )
یہ بھی پڑھیں: خوداعتمادی،قیادت اور ایٹی ٹیوڈ
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ مجھے پکڑ کر فرمایا : ،، دنیا میں اس طرح رہو گویا تم یہاں ایک اجنبی ہو یا ایک راستہ چلنے والے مسافر ہو اور اپنے آپ کو قبر والوں میں شمار کرو،، ۔
معلوم یہ ہوا کہ یہ دنیا عارضی اور فانی ہے، اس کو قرار اور ثبات حاصل نہیں ہے ۔ اس کے برعکس عالم آخرت ابدی اور باقی و لازوال ہے اور وہاں کی کیفیتں دو ہیں، دونوں ثابت اور و باقی۔ ایک کافروں کے لئے اور وہ عذاب شدید ہے۔ دوسری ایمان والوں کے لیے اور وہ اللہ کی رحمت و مغفرت ہے۔ اب انسان کو اختیار ہے کہ ان دو میں سے جس کو چاہے اپنا مقصود بنا لے۔ فمن شاء فلیومن ومن شاء فلیکفر انا اعتدنا جھنم الخ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عقلمند وہ ہے جس نے اپنے نفس کا محاسبہ کیا اور موت کے بعد کی زندگی کے لئے عمل کرتا رہا اور عاجز و بے ہمت وہ ہے جس نے اپنے نفس کو خواہشات کا تابع کردیا، اور اللہ سے فضل و کرم کی امیدیں باندھتا رہا،، (ترمذی)” الکیس من دان نفسہ وعمل لما بعد الموت۔ و العاجر من اتبع علی ھواہ و یتمنی علی اللہ۔
بہر حال انسان اس دنیا میں مثل مسافر ہے ، اس کی زندگی کا سفر جاری ہے، مومنانہ نقطہ نگاہ سے اس سفر کا مطلب یہ ہے کہ وہ دار العمل سے دار الجزاء کی طرف جا رہا ہے، وہاں اسے اپنے اچھے برے اعمال کا حساب دینا ہے۔ مومنانہ اور اسلامی نقطہ نظر سے زندگی کی حقیقت کو سمجھاتے ہوئے علامہ اقبال مرحوم بلند آواز میں کہتے ہیں:
اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں
اور وہ یہ آواز بھی لگاتے ہیں:
کھو نہ جا اس سحر و شام میں اے صاحب ہوش
اک جہاں اور بھی ہے، جس میں نہ فردا ہے نہ دوش
علامہ اقبال مرحوم کی مشہور نظموں میں ایک نظم گورستان شاہی بھی ہے، اس نظم میں انہوں نے زندگی کی ناپائیداری و بے ثباتی کو بہت خوبصورت انداز میں سمجھایا ہے:
زندگی انسان کی ہے مانند مرغ خوشنوا
شاخ پر بیٹھا کوئی دم، چہچہایا اڑگیا
آہ!کیا آئے ریاض دہر میں ہم، کیا گئے
زندگی کی شاخ سے پھوٹے، کھلے مرجھا گئے
کھو نہ جا اس سحر و شام میں اے صاحب ہوش
اک جہاں اور بھی ہے، جس میں نہ فردا ہے نہ دوش
جب دنیاوی زندگی کی حقیقت بس اتنی ہی سی ہے کہ یہ دار الغرور ہے، جس کا ذکر اوپر کیا گیا تو ایک مسلمان کو زندگی میں آنے والی، تکلیفوں،دقتوں، کلفتوں، پریشانیوں اور زحمتوں سے پریشان نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی ان حالات کے آنے سے اسے گھبرانا چاہیے، اسے یہ سمجھنا چاہیے کہ ہم مسافر ہیں اور سفر میں پریشانی ہوتی ہی ہے، گھر پہنچنے کے بعد انسان کو سکون مل جاتا ہے، اسی طرح جب ہم عالم آخرت جو اصل مومن کا گھر ہے، وہاں پہنچیں گے تو سکون و آرام مل جائے گا، اس وقتی اور عارضی پریشانی پر مومن کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، ۔ اگر کافر و مشرک دنیا میں ہم سے زیادہ آرام میں ہیں تو اس پر بھی تعجب اور حیرت کی کوئی بات نہیں ،کیونکہ دنیا کا نظام حدیث کے مطابق یہ ہے کہ دنیا مومن کے لئے قید خانہ اور کافر کے لئے جنت ہے۔ الدنیا سجن المومن و جنة الکافر۔
اس لئے دنیا کے بارے میں ایک مومن کی سوچ اور فکر یہ ہونی چاہئے کہ دنیا ان کے لئے عشرت کدہ نہیں ہے بلکہ ان کے لئے یہ دار الامتحان( امتحان گاہ) اور دار العمل ہے ۔ ایک مومن کے لئے دنیا میں جگہ جگہ قید ہے بندش ہے رکاوٹیں ہیں ۔ وہ خدا کی اطاعت میں جکڑا ہوا ہے ۔ ان کے لئے حدود و قیود ہیں تاکہ وہ من مانا زندگی نا گزارے، شریعت کے حدود میں رہ کر وہ اپنی زندگی کے شب و روز گزارے ۔ اس کے برعکس ایک کافر اپنے کو آزاد سمجھ کر زندگی گزارتا ہے اس کے سامنے بندش اور رکاوٹ نہیں ہے ۔ اس کا نظریہ دنیا کے بارے میں یہ ہوتا ہے کہ یہ ایک عیش کدہ اور تفریح گاہ ہے ۔ جس قدر چاہو اور جیسے چاہو عیش کے ساتھ زندگی گزار لو اور اس کے مادی فوائد کو حاصل کرلو۔
اسی حقیقت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں یوں بیان فرمایا : الدنیا سجن المومن و جنة الکافر ( مسلم شریف کتاب الزھد) دنیا مومن کے لئے قید خانہ اور کافر کے لئے جنت ہے ۔
یہ بھی پڑھیں:
اس حدیث کی شرح میں علماء اور اہل علم نے جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے کہ ایک مومن کو اور خدا پر ایمان و یقین رکھنے والے شخص کو ایک پابند آئین زندگی گزارنی پڑتی ہے ۔اسے اپنی خواہشات و جذبات اور من چاہی زندگی پر کنٹرول کرنا پڑتا ہے اور شریعت کے حدود اور اسلام کے دائرے میں رہ کر زندگی کے سارے امور انجام دینا پڑتا ہے ۔ اور راہ حق کی مشکلات ،دشواریوں اور کٹھنائیوں کو جھیلنا اور برداشت کرنا پڑتا ہے ۔ وہ خدا کی اطاعت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی و اتباع میں جکڑا ہوا ہوتا ہے ۔ اور دنیا کو اس نظر سے دیکھتا ہے کہ یہ دنیا عیش و عشرت اور مستی و تفریح کی جگہ نہیں ہے، بلکہ یہ امتحان گاہ ہے ۔ اس امتحان گاہ میں اگر اس نے ایک ذمہ دارانہ اور اطاعت شعارانہ زندگی گزاری تو اسے ابدی کامیابی نصیب ہوگی اور آخرت میں لازوال نعمتوں کا حق دار و مستحق ہوگا ۔ ایسی نعمتیں کہ دنیا کہ دنیا میں ان نعمتوں کا انسان تصور بھی نہیں کیا ہوگا ۔ دنیا کی ساری نعمتیں اس کے مقابلہ میں ہیچ اور کمتر ہونگی ۔ یہی وہ پابند آئین زندگی ہے،جس کی بنا پر دنیا کو ایمان والے کے لئے قید خانے سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ برخلاف اس کے ایک کافر اس دنیا کو عیش کدہ اور تفریح گاہ سمجھتا ہے اور اس کے مادی فوائد اور لذائذ کو حاصل کرنے میں خدا کے قائم کردہ حدود کا وہ لحاظ نہیں کرتا اور اپنی خواہشات اور نفسانیت کے پیچھے چل پڑتا ہے، اس لئے اس کو ان مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے اور اسے وہ قربانیاں نہیں دینی پڑتی ہیں ،جو ایک مومن کو دینی پڑتی ہیں اور بسا اوقات دنیا کی نعمتوں اور آسائشوں کی فراوانی دنیا پرستوں کے حصہ میں آتی ہیں تاکہ وہ خوب مزے اڑا لیں اور آخرت میں جہنم کا ایندھن بنیں ۔ اس لحاظ سے ایک کافر کو دنیا میں بے لگام اور بے قید زندگی گزارنے کا موقع ملتا ہے اور جس طرح دنیا اس کے لئے تفریح اور عیش و عشرت کا سامان بن جاتی ہے اسے جنت سے تعبیر کیا گیا ہے ۔
اس حدیث اور قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اسلام دنیوی ترقی اور مال و دولت سے فائدہ اٹھانے اور اسباب زندگی سے بھرپور لطف اندوز ہونے سے منع کرتا ہے اور وہ اس کا مخالف ہے ،بلکہ اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اسلام ایسی ترقی اور بلندی کا قائل ہے جس کے ساتھ انسان کا فکری ،اخلاقی اور عملی ارتقا ہو تاکہ انسان اپنی منزل مقصود کو پہنچ جائے اور پیدا کرنے والے کی مقصد تخلیق سے ہٹ کر زندگی نہ گزارے ۔ اسلام ایسی ترقی اور عروج و بلندی کا ہرگز قائل نہیں جو بظاہر مادی ترقی ہو لیکن فکری اخلاقی اور عملی انحطاط پستی اور زوال کا باعث ہو ۔ اور جس کے نتیجہ میں انسان ابدی ہلاکت اور دائمی ذلت کے قعر مذلت میں جاگرے ۔ کسی بھی اعلی اور ارفع مقصد کے حصول اور اہم ہدف کو پانے کے لئے آدمی کو قربانیاں دینا ہی پڑتی ہیں لہذا جن کو آخرت کی منزل اور باغ و بہشت عزیز ہے انہیں اسلامی تعلیمات اور اسلامی اصولوں کی پابندی کرتے ہوئے اپنے عیش و عشرت اور آرام و راحت اور کتنے ہی دنیوی مفادات کی قربانی دینی ہوگی ۔ ( مستفاد جواہر الحدیث از شمس پیر زادہ مرحوم )
یہ بھی پڑھیں:
آخرت کی فکر وہاں کی اصل تیاری اور دنیا سے بے رغبت ہونے کا کبھی یہ مطلب نہیں سمجھنا چاہیے کہ انسان دنیا سے بالکل کنارہ کش ہوجائے اہل و عیال اور بچوں کو نظر انداز کردے، اعزاء و اقارب، والدین اور بھائی بہنوں سے راہ و رسم ختم کردے، ہر وقت اس کے منھ پر وحشت و اداسی چھائی رہے ، نہ کسی سے ہنسے بولے اور نہ ہی بات چیت کرے۔ نہیں یہ مطلب ہرگز نہیں ہے، یہ تو رہبانیت ہے، جس کو عیسائیوں کے مذھبی رہنماؤں نے اپنے دین کا حصہ بنا لیا، اس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جو لوگ اس طرح سے اپنی دین داری کا ڈھونگ رچاتے ہیں، ان کا اسلامی شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے، کیونکہ دنیا سے بے رغبت ہونے کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ انسان دنیا کے تمام امور شریعت اسلامیہ کے دائرے میں رہتے ہوئے انجام دے، بیوی، بچوں، رشتے داروں اور پڑوسیوں کے حقوق ادا کرے اور کسی بھی لمحہ آخرت سے بے فکر ہوکر صرف دنیا کی طلب میں مشغول نہ ہو۔
خلاصہ یہ کہ دنیا جو در اصل دار العمل ہے، ہم یہاں پابند عہد ہیں کہ عمل صالح کے ذریعہ اپنی زندگی کو سنواریں، کیونکہ آخرت جو دار الجزاء ہے اس میں جنت اور جہنم کا خدائی فیصلہ انسان کے اچھے اور برے اعمال کو ہی سامنے رکھتے ہوئے ہوگا، یہ خاکی انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے نہ نوری (جنتی ) ہے اور نہ ہی ناری جہنمی بلکہ یہ اپنے عمل سے نوری اور ناری بنتا ہے۔
عمل سے زندگی بنتی ہے ، جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
نوٹ:قارئین سے گذارش ہے کہ مضمون نگارکی صحت یابی کے لیے دعا ضرور کریں۔