مسعود جاوید
ان دنوں سوشل میڈیا پر کچھ لکھنے کی بجائے اپنے آپ سے ہم سخن رہنے کا تجربہ کر رہا ہوں۔ یقین مانیں بڑا سکون مل رہا ہے۔ تاہم درد جب حد سے گزر جاتا ہے تو لکھ دینا ضروری سمجھتاہوں ۔
عموماً علماء کرام( علماء سوء نہیں) کے خلاف بلا وجہ دریدہ دہنی کرنے والوں کو میں پسند نہیں کرتا ہوں ۔ جیسا کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
"أُحِبُّ الصَّـالِحِينَ وَلَسْتُ منهم ” یعنی گرچہ میں نیکوکار نہیں ہوں پھر بھی نیک لوگوں کو پسند کرتا ہوں۔
پچھلے چند سالوں سے ملک میں فرقہ پرستی کا زہر عام شہریوں کے دل و دماغ میں مسلسل پیوست کیا جا رہا ہے جس سے عام مسلمانوں میں خوف وہراس طاری ہونا فطری ہے۔
ایسے سنگین حالات میں ایسا لگتا ہے بعض "مولویوں” نے عوام میں مسلکی منافرت کا زہر گھولنے کی ” سپاری ” لے رکھی ہے۔
سلفــی:
آج جمعہ کے خطبے میں خطیب صاحب نے ولیوں اور پیروں کے ساتھ ائمہ اربعہ کو بھی لپیٹ دیا اور قرآن کریم کی آیت مبارکہ : يا ويلتى ليتني لم أتخذ فلانا خليلا۔ بطور دلیل پیش کرتے ہوئے تشریح کی کہ جس نے کسی ایک امام کو پکڑ رکھا ہے وہ روز قیامت پچھتائیں گے دانتوں سے انگلیوں کو چباتے ہوئے کہیں گے کہ کاش میں ان کی اتباع نہیں کیا ہوتا!
جب دین کی تبلیغ کی بجائے مسلک کی اشاعت اور احقاق حق پر زور ہوگا تو امت مسلمہ میں فتنہ اور انتشار لازمی طور پر پیدا ہوگا۔
دیوبندی:
فیس بک پر کسی کی پوسٹ سے معلوم ہوا کہ دیوبند کے طلباء نے ششماہی تقریری مسابقتی پروگرام میں مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے افکار و نظریات پر مناظرہ یعنی ‘ فار اینڈ اگینسٹ’ ڈیبیٹ رکھا ہے بادی النظر میں یہ طلباء کے اندر تقریری صلاحیتوں کو پیدا کرنے کے لئے ہوتا ہے لیکن اس میں دو رائے نہیں کہ اس کا راست نشانہ جماعت اسلامی اور ان سے منسلک افراد و شخصیات کسی نہ کسی درجے میں ہیں۔
یہ نہیں معلوم کہ یہ دارالعلوم دیوبند(جمعیت علماء اسعد مدنی) کے طلباء کا پروگرام ہے یا دارالعلوم دیوبند ( وقف، قاری طیب) کا اس لئے کہ سابق مہتمم حضرت قاری محمد طیب صاحب نور اللہ مرقدہ کا موقف اعتدال پسندانہ ہوتا تھا ۔ انہوں نے مولانا مودودی رح کے بعض نظریات پر جہاں اپنا اعتراض درج کرایا وہیں دین اسلام کی نشر واشاعت میں ان کی خدمات کی ستائش بھی کی ہے۔
دارالعلوم دیوبند (جمعیت علماء ) کا اختلاف میرے خیال میں نظریاتی کم اور سیاسی زیادہ ہے اور وہ کانگریس دور حکومت سے ہی ہے۔
بریلوی:
ان حضرات کے علماء کی اکثریت کا زیادہ تر وقت دیوبندیوں ،وہابیوں اور سلفیوں کے خلاف فتوے صادر کرنے اور اپنے متبعین کو قائل کرنے میں صرف ہو رہا ہے۔ بقول ان کے جو دیوبندیوں وہابیوں اور سلفیوں کے کفر میں شک کرے وہ بھی کافر ! العیاذ باللہ!
ان کے پایہ کے علماء دیوبندیوں کے ساتھ اسٹیج شیئر کرتے ہیں، ساتھ میں کھاتے پیتے ہیں، وہ اسلام سے خارج نہیں ہوتے، مگر عوام خارج ہی نہیں؛ نکاح فسخ ہو جاتا ہے !۔
اتحاد امت وقت کا اہم تقاضا ہے ۔ وقت رہتے ہوئے اربابِ حل و عقد اختلافات ختم کرنے لئے مناسب اقدام کریں۔ مختلف سیاسی پارٹیاں اتحاد کی خاطر مینمم کامن ایجنڈا بناتے ہیں اور شدید قسم کے اختلافات والے موضوعات کو درکنار کر کے اپنے اہم مقاصد حاصل کرتے ہیں تو کیا مسلمانوں کی نئی نسل (ہر مسلک والے) اس کے لئے کمر بستہ ہوں گے کہ وہ مینمم کامن ایجنڈا ؛ ‘ دین اسلام ایک ، قرآن ایک ، رسول ایک ، شریعت ایک’ کو مد نظر رکھنے کے لئے اپنے علماء و قائدین کو مجبور کریں گے کہ وہ جزئی اختلافات کو نظر انداز کر کے سنگین حالات کا مقابلہ کرنے کے اہل بنیں اور بنائیں۔ دستور ہند میں دیئے گئے حقوق اور ملک میں رائج قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے تشخص کا تحفظ کریں ؟۔