Slide
Slide
Slide

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

 محمد قمرالزماں ندوی،  استاد  مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ 

قرآن مجید کی مکی سورتوں کا خصوصی طور پر تلاوت اور اس میں تدبر و تفکر اور غور و فکر سے پتہ چلتا ہے کہ مکی سورتوں میں توحید و رسالت پر زور اور شرک و کفر کی مذمت، انبیاء کرام کی دعوت و تبلیغ اور ان کی قوم کا ان کے ساتھ سلوک و رویہ پھر ان کا حشر اور انجام نیز معاد اور آخرت کا تذکرہ جنت اور جہنم کا ذکر زیادہ سے آیا ہے، اور ان سورتوں اور آیات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہمیشہ اور ہر دور میں دعوت و تبلیغ کے ابتدائی مرحلہ میں طاقت و قوت، غلغلہ و طنطنہ شان و شوکت سطوت و دبدبہ کافروں کو ہی حاصل رہا، ایمان والے بے بسی، کسمپرسی اور بے کسی کی حالت میں رہے، بیچارے دبے  رہے، ان کو کمزور اور بے حیثیت رکھنے اور کرنے کی کوشش کی گئی ، لیکن تاریخ شاہد ہے کہ انجام کار یہی ہوا کہ مشرکین کو زوال و نکبت اور شکست و ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور ہزیمت و پسپائی ان کا مقدر بنی۔ ہر دور اور زمانہ میں اس کی مثال اور نمونہ موجود ہے۔ 

   آج اس ملک عزیز میں ہم بے بس اور بے کس ہیں، ہمیں اور ہماری شریعت کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے، ہمارے ملی خصائص و شعار کو مٹا کر اور مسلم پرسنل لا کو ختم کرکے یکساں سول کوڈ کو نافذ کرنے کی کوشش جاری ہے، جو ان شاء اللہ ناکام رہے گی اور یہ دین ان طاقتوں کی ہزار کوشش کے باوجود زندہ اور تابندہ رہے گا، اللہ تعالیٰ خود اس کی حفاظت فرمائیں گے، بس شرط یہ ہے کہ ہم مومن بن جائیں اور مومنانہ کردار کے حامل بن جائیں۔ 

   بزرگو اور بھائیو! 

     اس دنیا میں حق و باطل، خیر و شر اور حق و ناحق کے درمیان کشمکش اور معرکہ آرائی ہمیشہ سے رہی ہے ۔ شرار بو لہبی نے ہمیشہ چراغ مصطفوی کو غل کرنے کی کوشش کی،لیکن اللہ تعالی نے حق کو ہمیشہ غلبہ اور فتح سے نوازا اور اگر کبھی اہل حق مغلوب ہوئے بھی تو اس میں ان کا امتحان اور ان کی آزمائش مقصود تھا یا کبھی کسی حکم کی صحیح اتباع نہ کرنے یا کسی سنت اور شرعی حکم کو چھوڑنے کا نتیجہ تھا ۔ 

           اللہ تعالٰی نے ہر زمانہ میں فرعون وقت کے لئے کسی موسیٰ کو ضرور پیدا کیا یہ خدائی اعلان اور الہی ضابطہ  ہے ۔ اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں اس کی جانب اشارہ کیا ہے ۔ اگر اللہ تعالی بعض لوگوں سے بعض لوگوں کے دفاع کا نظام برپا نہ کرتے تو زمین میں فساد برپا ہوجاتا ۔ 

     قرآن مجید میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کا جو تذکرہ متعدد بار آیا ہے اور فرعون کی شکست و ہلاکت اور موسیٰ علیہ السلام  کی فتح اور جیت کا جو مزدہ سنایا گیا ہے، اس میں ایمان والوں کے لئے تسکین و تسلی کا بڑا سامان ہے اور راہ حق پر چلنے والوں کے لئے خوشخبری اور پیغام ہے ۔ آئیے موسی علیہ السلام اور بنی اسرائیل کے فرعون کے ساتھ اس قرآنی واقعہ کو عصری تناظر میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ،اور اہل ایمان و یقین کو تسکین و تسلی اور حوصلہ و ہمت فراہم کرتے ہیں۔ 

     فرعون کو اس کے ایک بڑے درباری نجومی(جیوتشی) نے بتایا کہ جلد ہی تمہارے ملک میں بنی اسرائیل میں ایک بچہ پیدا ہوگا،جو تمہارے منصب،اقتدار و حکومت اور کرسی و عہدہ پر قابض ہوجائے گا، تمہاری سلطنت کو چھین لے گا، اور بنی اسرائیل کو تمہاری ماتحتی و غلامی سے آزادی  دلائے گا ۔ فرعون گھبرایا اور بدحواسی اور گھبراہٹ میں اپنی پولیس اور فورسیز کو یہ حکم اور آڈر کیا کہ، اب بنی اسرائیل میں اگر کوئی بچہ پیدا ہو تو اس کو فورا قتل کردیا جائے  آڈر آڈر آڈر۔ ایک کو بھی زندہ رہنے نہ دیا جائے ۔ حکم ملتے ہی فرعون کی پولیس مسعتد  ہوگئی ۔ ان کی نظر اور قوت شامہ بہت تیز تھی اور مخبری ایسی سٹیک کہ آج کی ترقی یافتہ ،خفیہ ادارے بھی ایسی باریکی اور گہرائی تک پہنچنے سے قاصر رہ جائے ۔ فرعون کی پولیس اور خفیہ ادارے (انٹلجنس بیورو) کے لوگوں نے اپنا کام شروع کردیا، وہ لوگ بنی اسرائیل میں پیدا ہونے والے بچہ کو قتل کردیتے تھے ،اور لڑکیوں کو چھوڑ دیتے تھے ۔ وہ وقت بنی اسرائیل کے لئے کیسا مشکل کھٹن، دشوار،نازک اور سخت ہوگا کہ نگاہوں کے سامنے معصوم بچے کو مسل دیا جاتا تھا ۔ اس ماں پر کیا گزرتی ہوگی؟اور کیا پہاڑ ٹوٹتا ہوگا ؟، جس نے وضع حمل کی دقت کو برداشت کیا اور نو مہینہ بچے کو پیٹ میں رکھا ،بچہ کے پیدا ہوتے ہی اس لخت جگر کو اسی کے سامنے قتل کردیا جائے،  ماں کی ممتا اس وقت کیسی چھلکتی ہوگی، اور اس ماں کی کیفیت کیا ہوتی ہوگی گی؟ تاریخ بتاتی ہے ۔قرآن گواہ ہے کہ فرعون اپنے اقتدار کو بچانے کے لئے جبر و تشدد  ظلم و بربریت اور جور و ستم کی وہ حد پار کر گیا، کہ دنیا میں اس کی مثال بہت کم ملے گی ۔ لیکن انہیں حالات میں بنی اسرائیل میں موسی علیہ السلام پیدا ہوئے ۔ فرعون نے چاہا کہ وہ نہ پیدا ہوں ۔ مگر پیدا ہوکر رہے ۔ فرعون کی ساری تدبیریں ناکام ہوئیں اور ساری پلانگ خاک میں مل گئی ۔ سارے پروگرام اور منصوبے ناکام ہوگئے ۔خفیہ ادارے اور انٹلجنس بیورو کی کوشیش ناکام ہوگئیں ۔اور اتنا ہی نہیں ہوا بلکہ موسی علیہ السلام اسی کے شاہی محل میں پروان چڑھے، پلے بڑھے نشو و نما پائے۔ ان کی والدہ اسی کے محل میں آکر ان کو دودھ پلاتیں ،ان کو بہلاتیں اور کھلا پلا کر ،سلا کر اپنے گھر چلی جاتیں ۔ اور شاہی وظیفہ پاتیں اور عیش و آرام کی اور مزے کی زندگی گزرتی ۔ فرعون کی بیوی تو اس بچہ پر اتنا فدا ہوگئیں کہ ان کو اپنا بیٹا ہی بنا لیا ،ایسا کیوں نہیں کرتیں کہ پھول جیسا بچہ اور گلاب جیسا لڑکا تھا ، بے انتہا معصوم اور خوبصورت تھا ۔اور وہ خود اولاد سے محروم تھیں ۔ یہ سب کچھ ہوتا رہا اور فرعون کو اس کی بھنک بھی نہ لگ سکی ۔ کیسے بھنک لگتی اور کیسے اس راز سے واقف ہوتا کیوں کہ اس کہ پیچھے خدائی کرشمہ تھا، خدائی تدبیر اور حیلہ تھا ۔ انسان خواہ کتنا ہی مضبوط اور طاقت ور ہو، طاقت کے نشے میں اور اقتدار کے غرور میں خدائی کا دعوی ہی کیوں نہ کرتا ہو، خدا کی تدبیر اور حیلہ کے سامنے انسان کی تدبیر کی   مکڑی کے جال اور مکھی کے پر کے برابر بھی حیثیت نہیں ہے ۔ اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں صاف اعلان کردیا ہے ۔ و مکروا و مکر اللہ و اللہ خیر الماکرین ۔ 

موسی علیہ السلام مصر کے تاریک ۔ کھٹن اور گھٹے ہوئے ماحول میں پیدا ہوئے ۔ بنی اسرائیل پر ظلم و ستم اور جبر و تشدد کا گھنا بادل چھاپہ ہوا تھا، اور اس کی چکی میں پیس رہے تھے ۔ اس ظالمانہ ماحول سے نکلنے کے تمام راستے بند، اور تمام دروازے مسددو تھے ۔حالات مایوس کن ۔ وسائل محدود اور قوم بے وقعت اور ذلیل و خوار تھی ۔ دشمن جابر و ظالم اور غالب و زبردست ۔ بنی اسرائیل کی ہمدردی کرنے والا کوئی نہ تھا اس پر ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف کوئی کھڑا ہونے والا نہیں تھا اس کی ہمدردی میں کوئی دو بول بولنے والا نہ تھا ۔ایسے ستم ظریفانہ ماحول میں اللہ تعالی نے بنی اسرائیل میں تمام رکاوٹوں اور سازشوں کے بعد موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے خلاف کھڑا کردیا ،جو اس کے ظلم و ستم اور نخوت و غرور کو خاک میں ملا دے اور بنی اسرائیل کو ان کا حق اور کھویا ہوا مقام دلا دے اور ان کو عزت و رفعت کے اس مقام پر دو بارہ پہنچا دے ۔ 

        خدائی تدبیر اور کرشمہ دیکھئے کہ موسی علیہ السلام اسی فرعون کے گھر میں پلے بڑھے اور شاہی محل میں پروان چڑھے ۔ پھر ایسے حالات آئے کہ موسیٰ علیہ السلام کو بعض وجوہات کی بنا پر مصر کو اور شاہی محل کو خیر آباد کہنا پڑا ۔اللہ تعالٰی نے ان کو قریبی ملک مدین حضرت شعیب علیہ السلام کے پاس پہنچا دیا ۔انہوں آپ کی امانت و شجاعت کو جب معلوم کر لیا تو اپنی ایک لڑکی سے ایک مدت خدمت گزاری کے عوض ان کا نکاح کردیا ۔ ان ایام میں آپ کو ایک رسول وقت کی صحبت میں رہنے کا موقع ملا اور ان کی فیض تربیت سے بہرہ ور ہوئے ۔ علامہ اقبال مرحوم نے کیا حقیقت کی عکاسی کی ہے کہ 

اگر  شعیب  سا  مل  جائے  پیمبر

شبانی  سے  کلیمی  دو  قدم   ہے

            دس سال کی مدت پوری کرنے کے بعد خوشی خوشی حضرت شعیب علیہ السلام سے اجازت لے کر موسیٰ علیہ السلام اپنی اہلیہ کو لے کر واپس مصر لوٹتے ہیں ۔ راستے میں اللہ تعالی آپ کو نبوت و رسالت سے سرفراز کرتے ہیں ۔ راستے میں وہ ٹھنڈک سے بچنے کے لئے آگ کی تلاش میں نکلتے ہیں، آگ کے بہانے آپ کو ایسا نور اور ایسی روشنی ملتی ہے، کہ جس کے ذریعہ مظلوم و مغلوب اور مقہور و بے بس بنی اسرائیل کی قسمت چمک اٹھتی ہے، ان کا ستارئہ مقدر روشن ہوجاتا ہے ۔ موسیٰ علیہ السلام کو آگ کے بہانے پیمبری ملتی ہے، وہ منصب نبوت سے سرفراز ہوتے ہیں ۔ خدا کی طرف سے حکم پاتے ہیں اذھب الی فرعون انہ طغی ۔ جاو فرعون کے پاس وہ یقینا سرکش ہوگیا ہے ۔ حد پار کر گیا ہے ۔  اب موسیٰ علیہ السلام فرعون کے دربار میں سارے خدم و حشم کی موجودگی میں بے باکانہ داخل ہوتے ہیں اور اس کو اور اس کے حواریوں کو توحید کا پیغام اور شریعت کا حکم سناتے ہیں ۔ قبطی کے قتل والے واقعہ کی وجہ سے ایک طرح مجرم کی حیثیت سے مدین جانا پڑا تھا، لیکن آج وہی موسیٰ علیہ السلام فرعون اور فرعونیوں کو اپنی دعوت و تبلیغ اور حجت و بیان سے مغلوب کر رہے ہیں ۔ آگے کی اور بہت سی کڑیاں ہیں قرآن مجید میں وہ تفصیل موجود ہے ۔ پھر ایک وقت آتا ہے کہ فرعون جادوگروں کی مدد سے سے اعجاز موسوی کو دبانا چاہتا ہے لیکن جادوگر ناکام و قائل ہوجاتے ہیں اور بے اختیار بول اٹھتے ہیں : آمنا برب العالمین رب موسیٰ و ھارون ۔ کہ رب العالمین رب موسیٰ و ہارون پر ایمان لائے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے اس مطالبے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ بنی اسرائیل کو آزاد کرکے میرے حوالے کر دو ۔ بنی اسرائیل کو لے کر موسیٰ علیہ السلام مصر سے نکلتے ہیں فرعون مع لاو و لشکر کے پیچھا کرتا ہے ،سجا سجایا ملک چھوڑ کر دریائے قلزم میں غرق ہوجاتا ہے اور وہی دریائے قلزم بنی اسرائیل کو راستہ دے دیتا ہے۔

محترم حضرات اور میرے دینی بھائیو! 

     انسانی تاریخ اور خود اسلامی تاریخ میں بارہا ایسے واقعات پیش آتے رہے ہیں، اور خالقِ کائنات نے ایک مدت تک جتنا اس کی حکمت کا تقاضہ تھا ، ظالموں کو مہلت دے کر اس طرح نیست و نابود کیا ہے کہ جس کا تصور حیرت میں ڈال دیتا ہے۔

ہمارا کام یہ ہے کہ حالات بدلنے کے لیے سنجیدہ و باوقار طریقۂ کار اختیار کرنے کے اور اپنے اعمال کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے ساتھ ساتھ اس خدائے پاک و برتر ،جبار و قہار، قادرِ مطلق کی طرف رجوع کریں، دعا و تضرع کا اہتمام کریں، جس کے قبضۂ قدرت میں پورا نظامِ کائنات ہے، اور جو ایک لفظِ ’کُن‘ سے آن کی آن ہی نقشہ کچھ سے کچھ بدل سکتا ہے؛ ’’اِنَّمَا اَمْرُہُ اِذَا اَرَادَ شَیْئاً اَنْ یَّقُوْلَ لَہُ کُنْ فَیَکُوْنُ‘‘۔

اہلِ ایمان برابر امتحان و آزمائش کے حالات سے گذرتے رہے ہیں، اس لیے تدابیر کے ساتھ صبر و ضبط اور ہمت و حوصلہ سے کام لینا چاہیے، اس کی مدد کس وقت کس شکل میں آئے گی ،یہ مالک ہی کے علم میں ہے، اس کی مدد کا تو یہ حال ہے کہ کبھی ان کو ہمدرد و معاون بنادیتا ہے جن کے بارے میں خیال بھی نہیں ہوسکتا :

ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے

پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے

                 حضرت موسیٰ علیہ السلام، بنی اسرائیل اور فرعون کی یہ طویل داستانیں ایک قصہ اور ایک حکایت نہیں ہے بلکہ حق و باطل کے معرکے ۔ ظلم و عدل کی جنگ، آزادی و غلامی کی کشمکش ۔ حق کی کامرانی اور باطل کی ذلت و رسوائی ۔ صبر و ابتلا اور شکر و احسان کے مظاہر ۔ غرض ناساپاسی و ناشکری کے بد نتائج کی ایسی پر عظمت اور نتائج سے لبریز حقائق کی ایسی داستان ہے، جس کی آغوش میں بے شمار عبرتیں اور ان گنت بصیرتیں پنہاں ہیں اور ہر صاحب ذوق کو اس کے مقدار علم کے مطابق  دعوت فکر و نظر دیتی ہیں ۔ جن میں سے چند یہ ہیں ۔ 

        اگر اللہ کے بندے حق کی نصرت و حمایت ،مظلوم کی حفاظت اور انسانیت کی خدمت کے لئے کھڑا ہوجاتا ہے تو خدا دشمنوں اور باطل پرستوں ہی میں سے ان کے لئے معین و مدد گار پیدا کر دیتا ہے ۔ 

   جس کا معاملہ حق کے ساتھ عشق کی حد تک پہنچ جاتا ہے، اس کے لئے باطل کی بڑی سے بڑی طاقت بھی ہیچ اور بے وجود ہوکر رہ جاتی ہے ۔ 

  جو شخص خدا پر بھروسہ اور اعتماد رکھتا ہے اور اسی کو خلوص دل سے اپنا پشتیان سمجھتا ہے تو اللہ تعالی ضرور اس کے مشکلات کو آسان کر دیتا ہے ۔ اور اس کے مصائب کو نجات اور کامرانی میں بدل دیتا ہے ۔ 

باطل کی طاقت کتنی ہی زبردست اور پر از شوکت و صولت کیوں نہ ہو انجام کار اس کو نامرادی کا منھ دیکھنا پڑتا ہے ۔ 

صبر کا پھل ہمیشہ میٹھا ہوتا ہے ،خواہ اس کے پھل حاصل ہونے میں کتنی ہی تلخیاں برداشت کرنی پڑیں ۔ مگر جب بھی وہ پھل لگے گا میٹھا ہی ہوگا ۔

اگر انسان کو کوئی مصیبت اور ابتلاء پیش آجائے تو از بس ضروری ہے کہ صبر و تحمل اور برداشت کے ساتھ اس کو انگیز کرے ۔ اگر ایسا کرے گا تو بلا شبہ اس کو خیر عظیم حاصل ہوگی ۔ اور وہ کامیاب و کامران ہوگا ۔ حضرت موسی علیہ السلام اور فرعون کی پوری داستان اس کی زندہ شہادت ہے ۔

        لہـــــذا! موجودہ حالات سے ہمیں مایوس اور پریشان نہیں ہونا چاہیے، بلکہ صبر و ہمت کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنا چاہیے اور توبہ، ذکر و اذکار عبادت و تلاوت میں مشغول رہنا چاہیے اور خدا کی طرف رجوع ہونا چاہیے نیز اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا چاہیے اور حالات کے مقابلہ کے لیے مل جل کر لائحہ عمل طے کرنا چاہیے۔ اور ہمیں یہ یقین و اعتماد رکھنا چاہیے کی جیت ہمیشہ حق کی ہوتی ہے اور بول بالا اسی کا ہوتا ہے، شرط یہ ہے کہ ہم صحیح ایمان والے بن جائیں ،ایک مومن کی طرح ہمیں زندگی گزارنی چاہیے اور باطل سے مرعوب نہیں ہونا چاہیے۔ اور یہ بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ ایمان والوں پر ہر دور اور ہر زمانے میں حالات و مشکلات آتے رہے ہیں اور ان کی آزمائش خدا تعالٰی کی طرف سے ہوتی رہی ہے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: